بھارت کی ٹوٹ پھوٹ کا وقت آ پہنچا

200

مودی سرکار کو سمجھنا ہوگا کہ کشمیریوں کو اپنی شناخت اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے
بھارتی مسلمان جانتے ہیں کہ کس طرح کشمیر میں اُن کی مرضی اور خواہش کے خلاف حکومتی عمل جاری ہے۔ ان کے عزم کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عرصہ دراز سے یہ بات کہی جاتی تھی کہ بھارت کے مسلمانوں کو کشمیر سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور نہ ہی وہ خود کو کشمیر سے وابستہ کرتے ہیں، لیکن مودی نے آکر سب کچھ الٹ پلٹ کردیا۔
کشمیر کی خاص حیثیت کو تبدیل کرنے کی ناکام کوشش کے بعد وہاں کرفیو اور پابندیوں کا گھناؤنا عمل جاری ہے۔ آرٹیکل 370 کو ہٹانے کی وجہ سے کشمیر میں ایک نئی ہلچل پیدا ہوچکی ہے۔ خود بھارت کے اندر اس مسئلے پر عوام، سیاستدان اور ہر دوسرا طبقہ اپنے اپنے تحفظات کا اظہارکر رہا ہے۔ وہاں اسے کوئی سیاسی تقسیم، غلط یا صحیح کی جنگ یا مودی مخالف کے طور پر نہیں لیا جارہا بلکہ اسے مسلمان بمقابلہ باقی سب سمجھا جارہا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو ہر بھارتی جانتا تو ہے مگر خاموش رہنے پر مجبور ہے۔
یہ بات اب بھارتی مسلمان سمجھ چکے ہیں کہ انہیں دوسرے درجے کا شہری بنایا جاچکا ہے۔ بھارت کے مسلمان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کشمیر میں کیا کیا جارہا ہے اور کیا ہورہا ہے۔ اس طرح کے بیانات کہ ’کشمیر ہمارا ہے‘ فضا ہموار کرنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے اور انہیں اتنے تواتر اور بہتات سے پیش کیا جارہا ہے جیسے بارش کی بوچھاڑ ہو۔ یہ سب دائیں بازو کی کارروائی ہے۔ کشمیر کی خودمختاری سلب کرکے اتنی خوشی منائی جارہی ہے کہ اس میں کشمیر اور کشمیر میں رہنے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ بھارت صرف کشمیر غصب کرنے کے چکر میں کشمیریوں کو یکسر نظرانداز کر بیٹھا ہے۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بھارت کو صرف کشمیر سے غرض ہے، اس میں رہنے والوں کو بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے۔ کشمیریوں کی سرزمین پر ظالمانہ قبضہ کرنے کی سازش کچھ یوں تیار کی گئی ہے کہ غیر کشمیری وہاں جاکر آباد ہوں اور کشمیریوں ہی کو اقلیت میں تبدیل کردیں۔
بھارتی حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ بھارتیوں کے ذہنوں میں یہ غلط نظریہ ٹھونس دیا جائے کہ کشمیر میں تحریک صرف چند لوگوں کی وجہ سے ہے، جو اسلام پسند ہیں اور کشمیری ان کے ساتھ ہیں۔ بھارتی حکومت اور ہندو انتہا پسند کشمیر کی تحریک آزادی کو اسلامو فوبیا سے منسلک کرنے کی ناکام کوشش میں لگے ہیں، جو کہ بھارتیوں کا بہت بڑا مغالطہ ہے۔ کشمیر کے لوگوں کو 5 اگست سے گھروں میں محصور کردیا گیا ہے۔ وہ روزمرہ ضروریات زندگی کو ترس رہے ہیں۔ چھوٹے بڑے سب بے حال ہیں۔ یہاں تک کہ ادویہ اور بچوں کےلیے دودھ بھی دستیاب نہیں ہے۔ پورے کشمیر کو ایک جیل بنادیا گیا ہے۔ جیل بھی ایسی، جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ عالمی میڈیا کو بھی حالات جاننے کی اجازت نہیں اور کچھ وہ جانتے ہوئے بھی بتانا نہیں چاہتے۔ مواصلات اور معلومات کے تمام ذرائع معطل ہیں۔ کسی کو کچھ پتا نہیں کہ بھارتی فوج وہاں کتنے مظالم ڈھا رہی ہے اور کتنے کشمیریوں کو شہید کررہی ہے، کتنے گھر مسمار کر رہی ہے۔ کتنی عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کر رہی ہے۔ تاحال کوئی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھی مدد کرنے کو نہیں پہنچا۔ ریڈ کراس، اقوام متحدہ کے ادارے، بین الاقوامی ادارے سب بھارت کی جانب دیکھ رہے ہیں اور خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
بھارتی مسلمان جو کبھی مسئلہ کشمیر سے چشم پوشی کیا کرتے تھے آج وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی نے کشمیر کا حق غصب کیا ہے۔ وہ اپنا مقدر بھی مودی کے اس فیصلے سے جوڑ رہے ہیں کہ جیسے مسلم اکثریت والے کشمیر کو زبردستی اپنے اندر شامل کرنا چاہتا ہے، اسی طرح باقی سارے بھارت کے اندر مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنادیا جائے گا۔ اگرچہ اس وقت بھی بھارت میں مسلم کش پالیسی ہی پر عمل کیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کو خدشہ ہے کہ آنے والے وقت میں بھارت میں انہیں کچھ بھی نہیں سمجھا جائے گا۔
آرٹیکل 370 کی تنسیخ زبانی اور جسمانی تشدد کے مترادف ہے۔ زبانی اس طرح کہ مسلمانوں نے اب سوشل میڈیا پر وندے ماترم، جے شری رام یا جے ہند کہنے سے انکار کردیا ہے اور شدت پسند بدتہذیب ہندو انہیں گالم گلوچ کررہے ہیں۔ ایک مہم چلا رہے ہیں کہ مسلمان ہی کو تمام برائیوں کی جڑ سمجھا جائے اور جسمانی تشدد کی بے شمار مثالیں ہیں کہ غیر ہندوؤں پر کتنا بدترین تشدد روا رکھا جارہا ہے۔
جس بات کو قطعی نظر انداز کیا جارہا ہے، وہ یہ کہ مودی کے اس عمل نے بھارتی جمہوریت سے عوام کا اعتماد ختم کردیا ہے۔ اس سے سخت کرفیو کشمیری دیکھ بھی چکے ہیں اور سہہ بھی چکے ہیں، مگر یہ اس لیے ان سب سے ظالمانہ ہے کہ ان سے ان کی زمین چھینی جارہی ہے۔ ان کی کشمیری شناخت چھینی جارہی ہے، جس سے وہ اپنی جان سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں اور اپنی اس شناخت کی بقا اور اس کے تحفظ کےلیے اپنی جان بھی قربان کرنے کےلیے تیار ہیں۔ مودی کا یہ غلط فیصلہ کشمیری تو کیا بھارتی مسلمان بھی برداشت نہیں کر پا رہے اور وقت گزرنے کے ساتھ مودی نہ صرف کشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھے گا بلکہ دوسری بہت سی ریاستیں بھی بددلی کا شکار ہوکر بھارت سے علاحدگی کی راہ اپنائیں گی۔