فضا یوں ہی تو نہیں ملگجی ہوئی جاتی

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 16 ستمبر کو اوزون پرت کے تحفظ کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا ہے۔اوزون کی پرت 1913 میں فرانسیسی طبیعیات دان چارلس فیبری اور ہنری بوسن نے دریافت کی تھی۔

اوزون زمین کے گرد قائم آکسیجن کی وہ شفاف تہہ ہے جو سورج کی خطرناک تابکار شعاعوں جنہیں بالائے بنفشی شعاعیں یا UV شعاعیں کہا جاتا ہے، یہ نہ صرف زمین کی طرف آنے سے روکتی ہے بلکہ زمین پر اس کے نقصان دہ اثرات کا خاتمہ بھی کرتی ہے۔ساتھ ہی ساتھ زمین اور کرۂ ہوا کی مفید اشیاء جیسے ہوا، مفید گیسیس اور پانی کو باہری فضا میں خارج ہو کر ضائع ہونے سے بھی روکتی ہے۔ اس تہہ کا 90فیصد حصہ زمین کی سطح سے 15 تا 55 کلومیٹر اوپر بالائی فضا میں پایا جاتا ہے۔

1970 کی دہائی میں سائنس دانوں نے اس خطرے کی نشاندہی کی کہ انسانوں کے بنائے گئے مختلف مرکبات اور زہریلی گیسیں اس تہہ کو نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انسانی سرگرمیوں اور موسمی تبدیلی کی وجہ سے اوزون پرت کی موٹائی میں کمی واقع ہو رہی ہے۔ اس مظہر کو جدید اصطلاح میں اوزون کی تخفیف (Ozone depletion) کہتے ہیں۔جس پر قابو نہ پایا گیا تو اگلے 75 سال میں یہ قدرتی حفاظتی تہہ ختم ہو جائے گی۔ جس سے زمین پر حیات کا رہنا محال ہو جائے گا، درجہ حرارت میں شدت کا آنا، قطب جنوبی پر برف کا تیزی سے پگھلنا اور ساحلی ابادی کا زیر آب آ جانا یقینی ہو جائے گا۔

اوزون کو نقصان پہنچنے کا پہلا مشاہدہ قطب جنوبی کی فضاوں میں کیا گیا جہاں پر ہر موسم سرما میں اوزون کی تہہ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی طرح اس دہائی میں قطب شمالی پر بھی اوزون کی تہہ میں شگاف دیکھا گیا ہے ۔اوزون کی تہہ کو نقصان پہنچانے والے زہریلے مادوں میں خاص طور پر سی ایف سی (CFC)، اور ایچ ایف سی (HFC) قابل ذکر ہیں جو کہ ائیر کنڈیشنر ، ریفریجریٹر عطریات کے اسپرے، مختلف محلل پیکجنگ میں استعمال ہونے والے مادوں اور آگ بجھانے والے آلات میں پائے جاتے ہیں۔

اوزون کی تہہ کا بننا اور اس میں شگاف کیسے ہوتا ہے؟ ہم تھوڑا سا اس عمل کو سمجھتے ہیں، فضا میں اوزون کے بننے اور ٹوٹنے کا عمل ساتھ ساتھ چلتا رہتا ہے یہ دونوں عمل قدرتی طور پر بالائے بنفشی شعاعوں کے ذریعے انجام پاتے ہیں۔ اس طرح فضاء میں اوزون کا تناسب کم و بیش مستقل رہتا ہے لیکن اوزو ن کے ٹوٹنے کے عمل کو کلورین، برومین، نائٹروجن آکسائیڈ تیز کردیتے ہیں اور تناسب بگڑ جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں فضاء میں موجود اوزون کی تہہ پتلی ہو جاتی ہے اور اس میں سوراخ پڑ جاتاہے۔ جس سے وہ بالائے بنفشی شعاعوں کو روک نہیں پاتی۔ مذکورہ بالا کیمائی مادے اسی عمل کے بگاڑ کا سبب بنتے ہیں۔

ماہرین کی تحقیق پر اوزون پرت کو مزید تخفیف سے بچانے کے لئے عالمی پیمانے پر 1980 کی دہائی میں کوششیں تیز ہوئیں۔ 16 ستمبر 1987 کو بہت سارے ممالک کی حکومتوں نے اوزون کو نقصان پہنچانے والے مادوں پر کم سے کم انحصار رہنے پر رضامندی ظاہر کی اور ایک معاہدہ پر دستخط کیے جسے مونٹریال پروٹوکول ( Montreal Protocol ) کا نام دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 1994 میں اس معاہدے کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے مونٹریال پروٹوکول کی تاریخ یعنی 16 ستمبر کو ہی اوزون کے تحفظ کا بین الاقوامی دن منانے کا فیصلہ کیا جس کا مقصد دنیا میں اس بات کا شعور اجاگر کرنا تھا کہ اوزون کی تہہ زندگی کے لئے کس قدر ضروری ہے۔

 اوزون کی تہہ میں تخفیف سے ہونے والے اثرات جو انسانی زندگی پر اثرانداز ہوں گے ان میں جلدی کینسر، موتیا (cataracts) میں اضافہ،  قوت مدافعت میں کمی،   جسمانی نشوونما کے عمل میں بے قاعدگی   اور جنسیاتی(genetic) امراض میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے علاؤہ ہونے والے نقصانات میں  دنیا بھر میں درجہ حرارت میں اضافہ عالمی سمندروں کی سطح میں اضافہ سیلابوں کا خدشہ، ساحلی شہروں کا نابود ہو جانا، بہت سے جانوروں کا ناپید ہونا یا کرہ ارض سے ان کی نسل ختم ہو جانا بھی اس میں شامل ہے۔

 اس زمین پر رہنے کا حق ادا کرنے اور آنے والی نسلوں کو ایک بہتر فضا دے کر جانے کے لئے ہمیں قدرت کی عطا کردہ اس حفاظتی تہہ کی حفاظت کرنا ہو گی۔ آج کا دن ہم اپنے حصے کی محنت کرنے کا عہد کرتے ہوئے منائیں۔