ذہنی صحت

ماسی سکینہ پسینے میں شرابور ہانپتی کانپتی گھر میں داخل ہوئیں۔ ان کے پاس محلے کی تازہ ترین خبریں ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی ان کی حالت بتا رہی تھی کہ کوئی تازہ ترین خبر ان کے معدے میں مچل رہی ہے۔ اس لئے جلدی سے ان کو شربت کا گلاس تھمایا اورپاس بیٹھ گئی۔ ماسی سکینہ نے اطمینان سے شربت پیا اور اس پاس نظر دوڑائی رازدارانہ انداز میں کہنے لگی ملک صاحب کا لڑکا پاگل ہو گیا ہے۔ یہ سن کر دل کو دھچکا لگا۔ وہ بچہ تو اچھا تعلیم یافتہ برسر روزگار ہے کیسے وہ پاگل ہو گیا۔ “یہ تو مجھے معلوم نہیں مگر میں خود اسے پاگلوں کے ڈاکٹر کے پاس سے دوائی لیتے دیکھا ہے”۔ اماں سکینہ نے فخریہ انداز میں اپنی مخبری کی داستان سنائی اور چلتی ہوں کہہ کر اگلے گھر خبر سنانے نکل گئی۔ یہ وہ عمومی رویہ ہے جس کا سامنا ہر فرد کو کرنا پڑتا ہے جب وہ ماہر نفسیات کی مدد طلب کرتا ہے۔ پاگل یا دیوانے کا لیبل اس کے بچے پر نہ لگ جائے اس لئے لوگ علاج سے کتراتے ہیں۔

انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس کے ذہن، دماغ اور سوچنے کی صلاحیت کی وجہ سے ملا ہے۔ بلاشبہ انسانی دماغ ہی ہے جو اس کی زندگی کے توازن کو برقرار رکھتا ہے۔ اسے معاشرے کی اقدار و روایات کے مطابق ردعمل ظاہر کرتا ہے۔ ہر انسان کے لئے جیسے جسمانی صحت ضروری ہے اسی طرح ذہنی و نفسیاتی صحت بھی اہم ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ جسم بیمار ہو تو پریشانی ڈپریشن مایوسی کا شکار ہو جاتے اور اگر ڈپریشن انزائٹی وغیرہ ہو تو شوگر، السر، کینسر جیسے امراض لاحق ہو سکتے ہیں۔

عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہم موذی و وبائی امراض پر زیادہ توجہ دتے ہیں۔ جبکہ دماغی صحت کے باعث پیدا ہونے والی معذوری پر زیادہ دھیان نہیں دیا جاتا۔ ایسی معذرویاں موجود ہیں جن میں لوگ اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کرنے قابل نہیں رہتے۔ وہ کما نہیں سکتے جس سے ان کے کنبے پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے نبی آخر الزماں نے بھی جسم کی بیماری سے حفاظت کی دعا کے ساتھ جنون (ذہنی امراض) سے بھی حفاظت کی دعائیں ہمیں سکھائیں ہیں۔

ہر سال 10 اکتوبر ذہنی صحت سے متعلق آگاہی کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دماغی صحت کا عالمی دن منانے کا آغاز سنہ 1992 سے کیا گیا جس کا مقصد عالمی سطح پر ذہنی صحت کی اہمیت اور دماغی رویوں سے متعلق آگاہی بیدار کرنا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ دنیا بھر میں 45 کروڑ افراد کسی نہ کسی ذہنی و دماغی عارضے میں مبتلا ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ پائی جانے والی دماغی بیماریاں ڈیپریشن اور شیزو فرینیا ہیں۔ دماغی امراض کے ماہرین منشیات اور کثرت شراب نوشی کو بھی اس فہرست میں شامل کرتے ہیں جن سے لاکھوں افراد کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ ماہرین کے مطابق دماغی صحت سے متعلق تقریباً نصف مسائل 15 سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں نوجوان افراد کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ اور یہی وہ ممالک ہیں جہاں دماغی صحت کی دیکھ بھال کی سہولتیں انتہائی کم ہیں۔

دوسری طرف ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں بھی 5 کروڑ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں جن میں بالغ افراد کی تعداد ڈیڑھ سے ساڑھے 3 کروڑ کے قریب ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم میں سے ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے۔ جس قدر ذہنی مسائل بڑھ رہیں اس کے علاج معالجے کا اسی قدر فقدان ہے۔

ہمارے ہاں ذہنی امراض کا علاج نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ معاشرتی دباؤ ہے۔ نفسیاتی امراض کو جسمانی امراض کی طرح نہیں دیکھا جاتا بلکہ مختلف القابات اور مخصوص روئیے سامنے آتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ ذہنی بیماری کی وجہ دین سے دوری بھی سمجھی جاتی ہے۔ حالانکہ بیماری چاہے ذہنی ہو یا جسمانی کسی بھی شخص پر بطور آزمائش آ سکتی ہے۔ یہی وجہ سے مریض کسی ماہر نفسیات سے مدد لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اسی لئے یہ دن لوگوں کو آگاہی دینے کے لئے ہے کہ ذہنی صحت کا مسئلہ ذیابطیس کی طرح ایک خاموش قاتل ہے۔ ذیابطیس اس لئے مہلک ہو جاتا ہے کہ اس کا اکثر پتہ نہیں چلتا ہے اور متاثر ذہنی صحت والے لوگ بدنامی کی وجہ سے تکلیف کا اظہار نہیں کرتے۔

دماغی صحت کو کیسے بہتر بنایا جائے؟ یہاں کچھ نکات ہیں جو روزمرہ کے تناؤ اور چیلنجوں سے نمٹنے میں مدد کریں گے۔

مثبت خیالات پر توجہ دیں:

اپنی زندگی کے مثبت پہلوؤں پر توجہ دیں۔ ان چیزوں کی فہرست بنائیں جن سے آپ خوشی محسوس کرتے۔ مثبت سوچ کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں، منفی خیالات اور افراد سے دور رہیں۔ زندگی میں آنے والی تبدیلیاں کو قبول کریں۔

جسمانی طور پر متحرک رہیں:

حرکت میں برکت کا تو آپ نے سن رکھا ہو گا تو اپنے روزمرہ کے معمولات میں متحرک رہیں۔ ورزش کریں۔ چہل قدمی کریں۔

صحت مند کھانے پر توجہ دیں:

کہا جاتا ہے کہ جو آپ کھاتے ہیں وہ آپ کے مزاج سے جھلکتا ہے۔ صرف زبان کے چٹخارے کے لئے نہ کھائیں بلکہ صحت مند غذائیں کھائیں جس سے آپ کی جسمانی اور ذہنی صحت دونوں بہتر رہیں گی۔

کافی نیند لیں:

ایک اچھی بھرپور نیند جسم اور ذہن دونوں کو تر و تازہ کرتی ہے۔ اس لئے 6 سے 8 گھنٹے کی نیند ضرور لیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق خواتین کو حضرات کے مقابلے میں زیادہ نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔

تمباکو اور نشے سے پرہیز کریں:

اکثر دیکھا گیا ہے کہ ذہنی خلفشار کا شکار افراد تمباکو نوشی یا نشے میں پناہ لیتے ہیں۔ جس سے وقتی طور پر وہ خیالات سے تو چھٹکارا پا لیتے ہیں مگر یہ طریقہ دورس نتائج نہیں دیتا۔ اس لئے ہر قسم کے نشے سے پرہیز کریں۔

آرام کریں اور ری چارج کریں:

ہمارے جسم کا بھی ہم پر حق ہے۔ اس لئے آرام کریں تاکہ دن پھر کے مختلف چیلنجوں کے لئے ری چارج ہو سکیں۔

زندگی میں مقصد اور معنی تلاش کریں:

بے مقصد زندگی مایوسی اور ڈپریشن میں مبتلا کرتی ہے۔ اپنی زندگی میں اپنے مقاصد کا تعین کریں اور ان کے حصول کے جت جائیں ۔ زندگی بامعنی لگنے لگے گی۔

اگر آپ کو ضرورت ہو تو مدد طلب کریں:

جب کسی کی مدد کی ضرورت ہو تو بلا جھجک مدد مانگیں۔ آپ اپنے تمام کام خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ مکمل ہو نہیں پاتے تو۔ ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جہاں پر آپ کو مدد آفر کی جائے تو قبول کرنے سے مت کترائیں۔

لوگ کیا کہیں گے:

ہماری زندگی کی آدھی پریشانی لوگوں کے کہنے سے مشروط ہے۔ جو آخرکار تناؤ اور دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ خود پر یقین رکھیں لوگوں کے کچھ بھی کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

خود سے محبت کریں:

آپ کی ذات کا بھی آپ پر حق ہے۔ خود سے محبت کریں ۔صحت مند غذا استعمال کریں، اپنے لئے اہتمام کریں خود کو اہمیت دیں اور خود سے محبت کریں۔ خود ترسی سے نکل آئیں۔ آپ بہت اہم ہیں۔