لہوکے قطرے

 

جب سے شعوری زندگی میں قدم رکھا کراچی کا ماحول حبس ذدہ دیکھا جس میں جبرا ہڑتال، بوری میں بند لاشیں، اغواء، تشدد اور پھر شہادت، والدین اور جماعت کی قیادت کا اللہ کی عدالت میں مقدمہ درج کروانا ۔ فساد ذدہ ماحول جہاں کبھی سندھی مہاجر کو لڑوایا جاتا تو کہیں ظلم کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کوجبر کے زریعے دبایا جاتا، کس ماں کے بیٹے تھے جواپنے ہی جیسے انسان کو داغتے کاٹتے ڈرل کرتے، انکے ہاتھ نہی لرزتے تھے؟

عذیزآباد سے دستگیر  اپنے اسکول تک جاتے،آاتے دیکھتے کہ دیواروں پہ کوئی نہ کوئی شعر یاجملہ اس وقت کے سیاسی کشمکش کی عکاسی کررہا ہوتا۔ پھر روز پڑھتے پڑھتے اک شعر جو صرف دیوار پہ ہی نہی دل پہ نقش ہوگیا. جس نے ظلم کے بعد شہادتوں پہ کڑھنے کی جلن سے نکالا اور اک نیا حوصلہ دیا کہ. ان سے دب کر بیٹھنا نہیں، یہ دیا بجھا تو سیکڑوں دیئے جلا گیا وہ شعر تھا،،،

یہ کہہ دواندھیروں کے آقاؤں سے

یہ جو کرن قتل ہوئی وہ شعلۀ خورشید بنی

یہ لسانیت کے علمبردار کسی بھی مخالف انسان کو انسان نہ سمجھتے تھے کلاشنکوف کلچر عام تھا اک ہڑتال کروانے کےلیے ہزاروں گولیوں کی تڑتڑاہٹ سننے کو ملتی تھی جب جاکر کچھ دہشت بیٹھتی اور اس جبر کی ہڑتال کو کامیاب قرار دیا جاتا۔

اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کی جانے والی کوشش اور اسلامی نظریات کی ترویج کرنے والے ہمیشہ ان کے عتاب کا شکار رہتے، کبھی ٹارچر سیل کے اندر لے جاکر سگریٹ سے داغا جاتا کبھی ڈرل مشین سے جسم میں سوراخ کردیے جاتے اور شہادت کے اونچے درجے پہ فائز کردیا جاتا، ایسے ایسے جاہل پڑے تھے اپنے ہاتھوں اپنے جہنم کاسبب بن رہے تھے اور اپنے مخالفین کوشہادتوں کے ذریعے جنت کے باغوں میں بھیج رہے تھے۔ یہی اندھا پن تھا جسکو یہ اپنی کامیابی سمجھتے۔ جانے والا رب کے پاس اپنے ساتھیوں کا پیغام بھی لے جاتا،،

کہ باریابی ہوتمہاری جو حضورِ مالک

توکہنا ساتھی میرے سوختہ جاں اور بھی ہیں

اپنے رستے ہوئے زخموں کو دکھا کر کہنا

ایسے تمغوں کے طلبگار وہاں اور بھی ہیں

ایک قریبی عزیز کو جسم پر اکیس جگہ ڈرل کرکے شہید کیا گیا تھا یہ روح فرسا منظر، یہ ظلم کی داستان کسی غیر مسلم کے ہاتھوں نہی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں تھیں، ظلم کی وہ وہ داستانیں تھیں کہ کفر کے عقوبت خانے بھی شرمائیں،، علیم قریشی جن کے ہاتھ پیروں کے گوشت کو تیز دھار آلے سے کاٹا گیاتھا، سعد بن صلاح جس نے گولی لگنے کے بعدکا درد سہا میرے بھائی بتاتے ہیں دھڑادھڑ گولیاں اور سامنے یہ تکلیف دہ مناظر تھے، سعد بھائی انکی گود میں سر دےکر لیٹ گئے اور پھر اللہ کو پیارا ہوگئے،  ہزاروں کراچی کے نوجوان تھے جنکو درندگی سے ماراپیٹا شہید کیا گیا۔

دنیا سب جانتی ہے آج بھی جب کوئی تعصب کانعرہ لگاتا ہے تو اسکی بے بسی ومجبوری پہ ترس آتا ہے کیونکہ جانتا وہ سب ہے مگر “اسکو معلوم ہے کہ اگر اس نے ان معلوم کا ساتھ نہ دیا تو وہ نامعلوم کردیا جائے گا”

آج بھی اس دور کے درد کی لہریں اٹھتی ہیں ایک ٹیس ہے جو چبھتی رہتی ہے جسکی چبھن آج پھر محسوس ہوتی ہے کہ جب کنڈہ مافیا یعنی ظالموں کے ہاتھوں جماعت اسلامی کے وارڈ کونسلر حبیب بھائی شہید کردیے گئے جو ظلم روا رکھنے والوں کو ظلم سےبازرکھناچاہتے تھے۔

بنیادی انسانی حقوق کی پامالی پہ بے چین تھے، آج پھر وہی تاریخ رقم ہوئی کہ ظلم آزاد ہے، کل کوئی تھا ظالم تو آج کوئی ہے،  ٹارگٹ سب کا ایک ہی ہے انصاف قید ہے،مگر ظالم آزاد، لوگ درست قدم اٹھانا چاہتے ہیں مگر ان ظالمانہ کاروائیوں کے ذریعے انھیں دبا دیا جاتا ہےتاریخ دہرائی جارہی ہے پھر شہر کو جان کر انارکی کی طرف لایا جارہا ہے۔

دیانت دار اہلیت رکھنے والی قیادت موجود ہے سب کو معلوم ہے اسکے باوجود ” نامعلوم” کاراستہ ہموار کیا جارہا ہے، حالات تو کہہ رہے ہیں کہ

تیری بربادی کہ فیصلہ ہیں آسمانوں پہ

مگر جب تک یہ کرنیں قتل ہوکر شعلہ خورشید بنتی رہیں گی

ان چراغوں کو جلنے سے کوئی نہی روک سکتا.

ہواجیسی ہو اور دیواروں پہ رقم پھر تحریر کی جائے گی کہ ہم نے تیرے تحفظ کی قسم کھائی ہے

اور یہی نوشتہ دیوار ہے جو مٹایا نہی جاسکے گا۔