سفید چھڑی 

نہ جانے کتنے اندھیروں کو شرمسار کیا

جہاد زیست کی اک ترجمان سفید چھڑی

مشہور ہے کہ ایک بار کسی بزرگ کا گزر ایک فقیر کے پاس سے ہوا۔ وہ خدا سے گلے کرنے میں مصروف تھا کہ ساری دنیا کو تو کیا کیا نواز دیا ہے ایک مجھے ہی محروم رکھا ہے۔ بزرگ نے اس فقیر سے کہا کہ کیا تیرے پاس کچھ نہیں وہ کہنے لگا خدا نے مجھے ایسا محروم رکھا کہ کئی کئی دن کھانے کو روٹی تک میسر نہیں ہے۔ بزرگ نے کہا چلو ایک ڈیل کرتے ہیں تم اپنی ہاتھ پاؤں مجھے دے دو میں اس کے بدلے تمہیں ایک لاکھ سونے کے سکے دوں گا۔ فقیر نے کچھ دیر سوچا اور انکار کر دیا کہ میں کیسے دے سکتا پھر بزرگ نے آنکھوں کے بدلے کئی ہزار اشرفیاں دینے کا کہا مگر وہ فقیر تب بھی نہ مانا۔ قصہ مختصر بزرگ نے اس کو یہ باور کرایا کہ تمہارے پاس خدا کا عطا کردہ انمول جسم اور اعضاء ہیں جن میں سے ہر عضو قیمتی اور بیش قیمت ہے۔ بس ان نعمتوں کا احساس نہیں جو کہ بزرگ دے کر چلے گئے۔

ہم میں سے ہر ایک کی ایسی ہی کہانی ہے۔ دیگر نعمتوں کو چھوڑئیے اللّٰہ تعالیٰ نے ہمیں آنکھوں کی جو نعمت عطا کی ہے وہ ہی اتنی بیش قیمت ہے کہ اس سے محرومی کی صورت میں چاہے کتنی ہی دولت کیوں نہ ہو سب بےکار ہے۔ اس بات کا احساس تب زیادہ شدت سے ہوتا ہے جب ہم کسی سفید چھڑی والے فرد کو بازار، سڑک یا کسی پر ہجوم جگہ پر بینا افراد کے درمیان جدوجہد کرتے دیکھتے ہیں۔

15اکتوبر کو ہر سال اقوام متحدہ نابینا افراد کے ساتھ یکجہتی کا دن مناتا ہے۔ تمام ممبر ممالک میں یہ دن سفید چھڑی کا عالمی دن کے طور پر مناتے ہیں۔ 1964ء میں امریکی صدر لینڈن بی جانسن کے دور میں اس دن کو منانے کا آغاز ہوا۔ دراصل اس کے پیچھے 1960 میں نیشنل فیڈریشن آف بلائیڈ نے نابینا افراد کے حقوق کے لئے جدوجہد کار فرما تھی۔ جن کا مطالبہ تھا کہ نابینا افراد کو مختلف ہنر سکھائے جائیں تاکہ ان کی معذوری ان کی بےبسی نہ بنے بلکہ وہ معاشرے کے مفید شہری بنیں۔ اسی لئے نہ صرف امریکہ بلکہ بعد میں پوری دنیا نے پندرہ اکتوبر1965 ء کو باضابطہ طور پر سفید چھڑی کا عالمی دن منایا جانے لگا اور اسی سال سے یہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں شامل کیا گیا۔ پاکستان میں یہ دن پہلی بار پندرہ اکتوبر 1972 ء کو منایا گیا۔

اس وقت دنیا بھر میں نابینا افراد کی تعداد تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ 2050ء میں یہ تعداد تین گنا بڑھ کر 11 کروڑ 50 لاکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس وقت جنوبی ایشیا میں ایک کروڑ 17 لاکھ افراد آنکھوں کے مرض کا شکار ہیں جب کہ مشرقی ایشیا میں یہ تعداد 60 لاکھ 20 ہزار ہے اور جنوب مشرقی ایشیا کی 30 لاکھ 50 ہزار آبادی متاثر ہے۔

پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ افراد بینائی سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ یہاں اندھے پن کی شرح 1.08 ہے، جب کہ جزوی طور پر نابینا افراد کی تعداد تقریباً 60 لاکھ کے قریب ہے۔ دراصل پاکستان کی 17 فیصد آبادی ذیابیطس کی شکار ہے جو اندھے پن کی ایک اہم وجہ ہے۔ ذیابطیس دراصل آنکھ کے عدسے کو متاثر کرتا جس سے آنکھ میں موتیا آجانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اندھے پن میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عالمی سطح پر اس دن کے منانے کا بنیادی مقصد نابینا افراد کو درپیش مسائل اور مشکلات سے متعلق معاشرے میں شعور و آگاہی فراہم کرنا ہے اور یہ باورکرانا ہے کہ معذور افراد بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ مفید شہری ثابت ہوسکتے ہیں۔ قدرت جب ایک کمی دیتی ہے تو ساتھ کچھ دوسری صلاحیتوں کی بہتات بھی دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے افراد کے لئے مناسب سینٹر ہوں جہاں ان کو ہنر مند بنایا جائے۔ ان کو معاشرے کا مفید شہری بنانا بےحد ضروری ہے۔ بصورت دیگر یہ مختلف ذہنی خلجان کا شکار ہوں گے اور معاشرے پر بوجھ بنیں گے جس کا کم از کم ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔

اس لئے نابینا افراد کا خصوصی کوٹا ہونا چاہییے بلکہ ایسے اداروں کو فعال کرنا چاہیے جہاں کسی بھی قسم کی معذوری رکھنے والے افراد تربیت پا رہے ہیں۔ ایسے افراد پر توجہ دی جائے تو وہ ملک و قوم کا فخر بن سکتے ہیں۔ جیسا کہ عاقل سجاد جو کہ ہاورڈ یونیورسٹی سے فزکس میں پی ایچ ڈی ہیں، ہما اقبال ریڈیو پاکستان کی پہلی نابینا پروڈیوسر ہیں، یوسف سلیم پاکستان کے پہلے نابینا جج ہیں ، صائمہ سلیم پاکستان کی پہلی نابینا سی ایس ایس کرنے کے بعد فارن سروس میں خدمات انجام دے رہی ہیں، عاصم رؤف پی آئی اے میں ایک نامور وکیل کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر عامر حنیف راجہ جو انیسویں گریڈ کے نابینا پروفیسر ہیں وہ پاکستان کے سو اہم لوگوں کی فہرست میں شامل ہو چکے ہیں۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی