عید کارڈ روایت تھی زمانے کی

عید الفطر وہ اسلامی تہوار ہے جو رمضان کے اختتام پر اللّٰہ رب العالمین کی طرف سے مسلمانوں کے لئے تحفہ کے طور پر عطا ہوا ہے۔ عید کے فرائض اور سنتیں ہر مسلمان ادا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سنتوں کے علاؤہ کچھ علاقائی روایات کا سلسلہ ہوتا ہے جو اگر دین کے اصولوں سے متصادم نہ ہو تو اس کی گنجائش نکل آتی ہے۔ آج ایسی ہی ایک گم گشتہ روایت کے بارے میں بات کروں گی جو اب مفقود ہو چکی ہے۔ جس کی وجہ شاید ٹیکنالوجی کا ایڈوانس ہونا ہے۔ اگرچہ ٹیکنالوجی انسان کے فائدے کی چیز ہے مگر یہ ہم سے بڑی قیمت وصول کر چکی ہے۔ عید کی آمد کے ساتھ عید کے پیغامات کا تانتا بندھ جاتا جاتا ہے۔ بلکہ کچھ لوگ تو پہلے روزے سے ایڈوانس عید مبارک کہنا شروع کر دیتے ہیں ایک وہ وقت تھا جب عید کارڈز ہوا کرتے تھے۔ جن کی آمد کا سلسلہ نصف رمضان ہی سے شروع ہو جاتا تھا۔ آخری عشرے میں تو بہت ہی بڑھ جایا کرتا تھا۔ پوسٹ آفس کی طرف سے باقاعدہ اعلان ہوتا کہ عید کارڈ فلاں دن کے بعد نہیں پوسٹ ہوں گے بلکہ عید کے بعد ارسال ہوں گے۔ نہ صرف عید کارڈ بھیجنے کی خوشی ہوتی تھی بلکہ عید کارڈ وصول کرنے کی خوشی اس سے بڑھ کر ہوتی تھی۔

جہاں تک عید کارڈ کی روایت کے آغاز کا تعلق ہے تو یہ انیسویں صدی کے اواخر میں شروع ہوئی۔ اس سے قبل پوش مسلمان گھرانوں میں خطوط یا خطاطی شدہ پیغامات بھیجے جاتے تھے۔ پھر مغرب سے کرسمس کارڈ کچھ تبدیلی کے ساتھ برصغیر میں عید کارڈ کے طور پر وارد ہوئے۔ یوں عید کارڈ کا رواج آہستہ آہستہ عام ہوا ۔ اس میں کچھ عمل دخل ریلوے کے پھیلاؤ اور پرنٹنگ کی نئی سہولیات کا بھی ہے۔ لندن رافیل ٹک کے چھاپے مسلم طرز تعمیر کی تصاویر والے پوسٹ کارڈز بھی استعمال کئے جانے لگے۔ کچھ چھاپہ خانے بڑے شہروں میں اس کام سے منسوب ہو گئے۔ وقت آگے بڑھتا گیا عید کارڈ کی اہمیت میں اضافہ ہوتا گیا اور پھر عید کارڈ عید کا لازمی جزو بن گئے۔ ابتداء میں جو مسلم طرز تعمیر کے نمونے کارڈ کی زینت بنتے تھے پھر اس میں تنوع آیا پھولوں، قدرتی مناظر، لینڈ اسکیپ سے ہوتے ہوتے کارڈز پر کبوتر، دل، تیر، ہار، بچوں کی تصاویر وغیرہ نظر آنے لگے۔ کچھ پوسٹ کارڈز بھی ہوتے جن پر زیادہ تر اداکاراور ادکاراؤں کی تصویریں یا کھلاڑیوں کی تصاویر ہوتی تھیں۔ یہ پوسٹ کارڈ بہت قیمتی تصور کئے جاتے اور اپنے پسندیدہ کھلاڑی یا اداکار کی وجہ سے انہیں سنبھال کر رکھا جاتا تھا۔ رمضان کے دوسرے عشرے کے آغاز سے قبل ہی مختلف بازاروں میں عید کارڈز کے اسٹال لگ جاتے۔ افطاری کے بعد لوگ ان اسٹالز کے چکر لگاتے۔ اپنے مطلوبہ کارڈز کے حصول کے لئے بہت محنت کی جاتی کئی کئی روز کی تلاش کے بعد گوہر مقصود ہاتھ لگتا ۔ کارڈز کے سائز بھی محبت و خلوص کے ساتھ بڑھتے گھٹتے رہتے تھے۔ عید کارڈز دو تہہ ،تین تہہ اور چار تہہ والے ہوتے تھے۔ لفافے پہلے سفید تھے مگر بعد میں رنگین لفافے بھی نظر آتے۔

کچھ ادارے اپنے ملازمین کو کمپنی /ادارے کے نام والے کارڈ بھی دیتے۔ ہمارے ایک رشتہ دار سی ایس ایس افسر ہیں، عید میں ان کا محکمانہ عید کارڈ ضرور موصول ہوتا تھا۔ جن پر ان کی پوزیشن اور ادارے کے نام کے ساتھ عید مبارک دی جاتی تھی۔ خیر کارڈ کی خریداری کے بعد مرحلہ کارڈ پر لکھنے کا ہوتا تھا۔ اس کے لئے کئی رنگ کے پین استعمال ہوتے۔ ہر عمر کے بچے نوجوان اور جوان اشعار کا بہت باریک بینی سے انتخاب کرتے۔ بچپن اور لڑکپن کی عمر والے کچھ ہلکے پھلکے مزاحیہ اشعار لکھتے، نوجوانی کی دہلیز پر کھڑے افراد کی شدید خواہش ہوتی کہ ایسے اشعار ہوں جو کچھ جذبات کی عکاسی بھی کریں کچھ چھپا بھی جائیں گویا کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے۔ عمر کے ساتھ اشعار میں سنجیدگی آجاتی یہاں تک کہ بعض اشعار تو ناراضگی کا اظہار بھی کرتے نظر آتے۔ مگر یہ ان دنوں کی بات ہے عید روٹھے ہوؤں کو منانے کا بہانہ ہوتی تھی۔ (اب تو ہم پریکٹیکل ہو گئے ہیں اس لئے ہمیں فرق ہی نہیں پڑتا)۔ پھر یہ کارڈ دیواروں پر خوبصورتی سے سجائے جاتے تھے۔ آنے جانے والے ضرور دیکھتے۔ ہاں کسی خاص شخص کی طرف سے موصول کارڈ اس سے مستثنیٰ تھے۔

کمپوٹر کی برصغیر آمد ہوئی ای میلز کی ابتداء کے ساتھ کارڈز آہستہ آہستہ الیکٹرانک ہو گئے مگر تب بھی عید کارڈ کا رحجان باقی تھا جسکی وجہ کمپوٹر اور انٹرنیٹ تک ہر فرد کی رسائی کا نہ ہونا تھا۔ یہ سلسلہ موجودہ صدی کی ابتداء تک جاری رہا مگر پہلی دہائی کے اختتام پر موبائل فون کی آمد پر یہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا۔ بازاروں میں جو اسٹالز لگتے تھے اب کہیں نظر نہیں آتے۔ ان کی جگہ کچھ اور چیزوں نے لے لی ہے۔ اب کتابوں کی دکان پر ایک کونے پر اسٹینڈ پر کچھ کارڈز گرد سے اٹے نظر آتے ہیں۔ یہ موبائل کمپنیوں اور کمپوٹر گرافکس کا دور ہے۔ فیس بک، واٹس اپ، انسٹاگرام وغیرہ نے اس کو مزید آسان کر دیا۔ ایک کی طرف سے آیا تصویری عید مبارک کا پیغام بغیر رد و بدل کے دوسری طرف بھیج دیا جاتا ہے، دوسرا تیسری طرف اور یونہی عید مبارک کہہ دی جاتی ہے۔ واٹس ایپ کے اسٹیکرز نے تو معاملہ اور بھی آسان کر دیا ہے۔ کم ہی ہوتا ہے کہ کوئی پوسٹ میں لکھی عبارت کو پڑھنے کی کوشش کرے، اور حق بھی یہی ہے کہ جب ہم نے کسی کے لئے کچھ الفاظ لکھنے کی زحمت ہی نہیں کی تو دوسرے پڑھیں گے کیونکر ؟

بہرحال ٹیکنالوجی کی جدت نے ہمیں ایک بہت اچھی محبتوں بھری روایت سے محروم کر دیا۔