پہاڑوں کا عالمی دن

میرے کہستاں!تجھے چھوڑ کے جاؤں کہاں

تیری چٹانوں میں ہے میرے اب و جد کی خاک

روز ازل سے ہے تو منزل شاہین و چرخ

لالہ و گل سے تہی ، نغمہ ٔ بلبل سے پاک،

تیرے خم و پیچ میں ، میری بہشت بریں

خاک تیری عنبریں ! آب ترا تاب ناک

پہاڑ، کوہ ، جبل ، پربت کہسار و کوہستان ، زمین کا ایسا خطہ جو نہ صرف نام میں الگ ہے بلکہ الگ مقام رکھتا ہے۔ کبھی اس کی بلندی ماؤنٹ ایورسٹ اور کے ٹو ہوتی ہے تو کبھی یہ ایلپس کی چوٹیاں ہیں۔ کہیں یہ برف کی چادر اوڑھے نظر آتے تو کہیں گرم صحرا میں میں سرمہ ہو جاتے ہیں۔ پہاڑ بلندی کا استعارہ ہیں۔اس سال پہاڑوں کے عالمی دن کا عنوان sustainable mountain tourism# دیا گیا ہے۔جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہر سال 15سے 20 فیصد لوگ پہاڑوں کی سیاحت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ عالمی وبا کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شعبہ سیاحت ہی ہے۔ اس کی وجہ سے عالمی معیشت پر کافی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

*پہاڑ کیسے وجود میں آتے ہیں*

ہماری زمین مختلف پلیٹوں سے مل کر بنی ہے جو مسلسل حرکت کرتی ہیں۔ یہ حرکت بہت ہی سست ہے ہر سال صرف کچھ سینٹی میٹر ہی حرکت کرتی ہیں جو انسان محسوس نہیں کر سکتا۔ مگر لاکھوں سال تک کی یہ حرکت بالآخر زمین پر واضح تبدیلی کی صورت ظاہر ہو جاتی ہے زمین پر کئی پہاڑی سلسلے اسی طرح وجود میں آئے ہیں۔ کون جانے کہ آج جہاں ہمالیہ کا بلند ترین سلسلہ ہے کل وہاں پر سمندر ہوا کرتا تھا؟

بنیادی طور پر پہاڑ دو طرح کے ہیں براعظمی پہاڑ اور سمندری پہاڑ۔ ان دونوں میں فرق ان طبع یا مواد کا ہے جس سے وہ مل کر بنے ہوتے ہیں۔ سمندری پہاڑوں کی ساخت زیادہ تر اتش فشانی چٹانوں سے بنی ہوتی ہے۔ چونکہ ہم خشکی پر رہتے ہیں اس لئے ہم براعظمی پہاڑوں سے واقف ہیں ان کی مندرجہ ذیل پانچ اقسام ہوتی ہیں۔

*فولڈ ماؤنٹین*

جب ٹیکٹونک پلیٹیں آپس میں ٹکراتی ہیں تو ان کے ملنے سے یا فولڈ ہونے سے جو ابھار بنتا ہے وہ پہاڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ ہمالیہ(ایشا) ، انڈیس (جنوبی امریکہ), ایلپس( یورپ) راکی ( شمالی امریکہ) کے مشہوری پہاڑی سلسلے اس میں شامل ہیں۔

*فالٹ بلاک ماؤنٹین*

زمین کے کسی پلیٹ یا فالٹ میں جب کریک آ جاتا ہے تو اس جگہ پر دباؤ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ حصہ بلند ہو جاتا ہے اور پہاڑ کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ سیرانوادا(شمالی امریکہ) اور ہرٹز( جرمنی) اس کی بہترین مثال ہیں۔

*ڈووم ماؤنٹین*

زمین کا کرسٹ لاوے سے بھر ہے۔ جب تک لاوا سطح زمین سے باہر نہیں آتا اسے میگما کہتے ہیں۔ تو یہ میگما اپنے اوپری سطح پر شدید دباؤ ڈالتا ہے۔ جس سے زمین کا ابھار گنبد نما ہوتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ساوتھ ڈکوٹا کی سیاہ پہاڑیاں ہیں

*وولکینک ماؤنٹین*

ان کو آتش فشاں پہاڑ کہا جاتا ہے۔ یہ لاوہ سے بنے پہاڑ ہوتے ہیں جس میں سے وقتاً فوقتاً لاوا نکلتا رہتا ہے۔ جاپان میں موجود فجی کے پہاڑ اسکی بہترین مثال ہیں۔ حال ہی اسپین میں آتش فشاں پہاڑ لا پالما کی آتش فشانی سے آپ واقف ہی ہوں گے۔

*پلیٹو ماؤنٹین*

یہ پہاڑ ہموار سطح کے زمینی علاقے میں کئی سو سال سے جاری دریاؤں یا ندی نالوں کے کٹاؤ کی وجہِ سے بنتے ہیں۔ اس سلسلے میں نیوزی لینڈ کے پہاڑ قابل ذکر ہیں۔

خالق کائنات نے کوئی بھی چیز عبث پیدا نہیں کی۔ اس زمین پر ہمیں جو مختلف اونچے پہاڑ نظر آتے ہیں ان کی پیدائش کے مقاصد خود رب العالمین قرآن میں بتا رہے ہیں کہ پہاڑوں کا مقصد سطح زمین کو استحکا م فراہم کرنا ہیں ۔

مثلاً ارشاد باری تعالیٰ ہےاور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈُھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنادیں ‘شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کرلیں” (الانبیا ء ، 21:31)

ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے”اس نے زمین میں پہاڑوں کی میخیں گاڑ دیں تاکہ زمین تم کو لے کرڈُھلک نہ جائے۔ اس نے دریا جاری کیے اورقدرتی راستے بنائے تاکہ تم ہدایت پاؤ ” (النحل، 15 )

زمین و آسمان کی پیدائش کے حوالے سے ارشاد ہوتا ہے،”اس نے آسمانوں کو پیداکیا بغیر ستونوں کے۔اس نے زمین میں پہاڑ جمادیے ،تاکہ وہ تمھیں لے کر ڈھلک نہ جائے”۔ (لقمان: 10)​

پہاڑوں کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ زمین ہچکولے نہ کھائے اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو پیداکیا گیا تو ڈگمگاتی اور ہچکولے کھاتی تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس پر پہاڑ رکھ دیے۔ (ترمذی ، ابواب التفسیر،سورہ الناس)،قرآن میں پہاڑوں کے لئے رواسی کا لفظ آیا ہے جس کے معنی سلسلہ کوہ ہے۔ تو زمین پر اللّٰہ نے یونہی بے ہنگم سے پہاڑ کھڑے نہیں کئے اس کی خاص ترتیب رکھی ہے۔

جدید تحقیق بتاتی ہے کہ پہاڑ زمین کو نہ صرف قرار بخشتے ہیں بلکہ یہ زلزلوں کو روکنے میں معاون بھی ہوتے ہیں۔ تو ایک مقصد حضرت انسان کو اس زمین پر سکون سے رہنے کے لئے فضا بہم پہنچانا بھی ہے۔ زمین کا توازن قائم رکھنا پہاڑوں کا مقصد ہے۔ ان کو صرف سطحی نہیں بنایا بلکہ زمین کے اندر میخوں کی طرح گاڑ دیا گیا ہے۔ جس کو آج جدید سائنس بھی ثابت کرتی ہے کہ پہاڑوں کی جڑیں ہوتی ہیں۔

قرآن میں کم و بیش جتنے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہے سب کے ساتھ کسی پہاڑ کا ذکر موجود ہے۔ مثلاً حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر کے ساتھ جبل رحمت کا ذکر ملتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا جودی پہاڑ پر ٹک جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اطمینان قلب کے لئے درخواست کی تو حکم ہوا کہ چار مانوس پرندے کاٹ کر چار مختلف پہاڑوں پر رکھ دو اور پھر جب انہوں نے ان کا پکارا تو وہ دوڑے چلے آئے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی والدہ کا اضطراری حالت میں صفا و مروہ کے چکر لگانا جو کہ پھر رکن حج بن گئے۔ کوہ طور کے جلوے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام تعلق ہم جانتے ہی ہیں۔

نبی کریم ﷺ کی نبوت کی ابتداء جبل رحمت پہاڑ کے غار حرا سے ہوئی۔ پھر مکہ والوں کو آپﷺ نے کوہ صفا پر کھڑے ہو کر پیغام حق دیا۔ جب ہجرت کے واقعہ پیش آیا تو آپ ﷺ کا کوہ ثور میں تین دن آپ کا قیام کرنا۔ مدینہ میں احد پہاڑ جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ہم سے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔

جہاں زمین و آسمان کی پیدائش میں پہاڑوں کے جما دینے کا ذکر ہے وہیں جب یہ دنیا اپنے انجام کو پہنچے گی تو یہ بظاہر عظیم و شان اور ناقابل تسخیر نظر آنے والے بلند و بالا پہاڑ ریزہ ریزہ ہو کر ہوا میں تحلیل ہو جائیں گے۔چونکہ ان میں کئی طرح کی معدنیات موجود ہیں تو یوں گمان ہو گا کہ رنگین دھنکی ہوئی روئی ہو۔

*پہاڑوں کے فوائد*

پہاڑ دنیا میں زمین پر خشکی کا پانچواں حصہ ہیں۔یہ دنیا کی آبادی کے تقریباً 1/10 حصے کو گھر مہیا کرنے کا ذریعہ ہیں۔اوردنیا میں 80%تازہ پانی انہی پہاڑوں میں سے نکلتاہے جو میدانوں کو آباد و سیراب کرتاہے۔ کوہ ہمالیہ کی ہی مثال لیں تو کوہ ہمالیہ سے متعدد دریا نکلتے ہیں اس لئے اس کے دامن میں دنیا کی آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ آباد ہے۔ پینے کے صاف پانی کے چشمے انہی پہاڑوں سے پھوٹتے ہیں۔ان ہی پہاڑوں میں راستے اور درے ہیں جو کہ سفر کی طوالت اور صعوبتوں کو کم کرنے کا ذریعہ ہیں۔

پہاڑ معدنیات کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں۔ دنیا میں کئی قسم کی معدنیات پہاڑوں ہی سے حاصل کی جاتی ہیں۔ ان معدنیات کے موجودگی کی وجہ سے پہاڑوں کے مختلف رنگ نظر آتے ہیں۔ جو دیکھنے میں بھی بہت خوبصورت لگتے ہیں۔پہاڑوں پر ان کے ماحول کے مطابق مختلف قسم کی جڑیں بوٹیاں پائی جاتی ہیں جو مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں۔ اونچے لمبے خوبصورت درخت ہیں۔ اس لئے پرفضا مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیوں اور بارشوں کی وجہ بھی پہاڑ ہوتے ہیں۔ خصوصا ہمارے ہاں مون سون کی بارشیں اسی پہاڑی سلسلے کی وجہ سے ہیں۔پہاڑ کو بلندی ،اعلی ہمتی، کٹھانی سخت کوشی اور دشوار گزاری کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ہر زبان کے ادب میں ان کو اسی معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو زبان میں پہاڑوں پر کئی ایک محاورات و کہاوتیں موجود ہیں۔

آدمی اپنے مطلب کے لئے پہاڑ کے کنکر ڈھوتا ہے

آدمی مال کے لئے سر پر پہاڑ اٹھاتا ہے

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل

اس پر مصیبت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا

الٹی گنگا پہاڑ کو چلی

الٹے بانس پہاڑ چڑھے

اب آیا نا اونٹ ‌ ‌پہاڑ ‌کے ‌نیچے ۔