جمہوریت، عدلیہ اورانصاف کے تقاضے (حصہ دوم)

اعلیٰ عدلیہ کے وقار کو مجروح کرنے کا عمل ریاست کی ساکھ کو متاثر کرے گا۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اعلیٰ عدلیہ ریاست کاسب سے زیادہ قابل عزت ادارہ ہوتا ہے اور اس ادارے میں عدل کی کرسی پر بیٹھنے والے شخص کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتاہے اس ادارے پر اعتماد سے معاشرے میں امن میسر آتاہے ساری دنیا میں یہی دستور نافذالعمل ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں پر تنقید نہیں کرتے بلکہ ان فیصلوں پر سر تسلیم خم کرتے ہیں۔

جمہوریت، عدلیہ اورانصاف کے تقاضےکا حصہ اوّل پڑھنے کے لئے لنک پر کلک کریں.https://www.jasarat.com/blog/2021/11/30/rashid-ali-46/

بادی النظر میں ہرشعبہ یعنی ادارہ ہی عدل کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے کیا تمام اداروں پر بھی ایسی ہی کڑی تنقید کرنی چاہیے عدل وانصاف کی فراہمی ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے اگرریاست کی باگ دوڑسنبھالنے والے ہی انصاف پر سوالیہ نشان لگادیں تو عام آدمی اعلیٰ عدلیہ کے بارے میں کیا تصور قائم کرے گا ؟

بالفرض اگر غریب آدمی عدالتوں کے بارے میں ایسے بیانات جاری کرنا شروع کردے یا ایک گروہ عدلیہ کے فیصلوں کو چیلنج کرنا شروع کردے یا ایک جماعت اس روش پر گامزن ہوجائے تو پھر ریاست کیسے اپنی رٹ قائم کرے گی ہمیں تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے افسوس ہم نے کبھی تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کی دنیا کی تاریخ میں جن قوموں پر زوال آیا ان کا بنیادی عیب یہی تھا کہ انہوں نے عدل وانصاف کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا یعنی انہوں نے عدل وانصاف کو اپنے گھر کی لونڈی بنالیا تھافیصلے اپنے حق میں کرواتے تھے ۔

معلوم ہے ایسی حالت کب ہوتی ہے جب کردار میں شفافیت نہ ہوجب دال میں کچھ کالا ہو یہاں تو سب کچھ ہی کالا ہے کوئی بھی لیکس ہو بدقسمتی سے ارض پاک کا مافیہ اس میں ضرور سرفہرست ہوتا ہے مہذب معاشروں میں عدالتوں کا احترام کیا جاتا ہے کیونکہ ریاست مجرموں کو کٹہرے میں لاکھڑا کرتی ہے اور عدالتیں جرائم پیشہ افراد کو سزائیں دیتی ہیں مجرموں کو نشان عبرت بنایا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں عدالتوں کا احترام کیا جاتاہے ۔توہین عدالت ایک ایسا قانون ہے جو صدیوں سے انسانی معاشرے میں نافذ ہے یہ قانون کبھی بھی یک طرفہ نہیں رہا ہے ۔

جہاں عوام کو عدالت کی کردار کشی کی اجازت نہیں انہیں عدلیہ کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنے اور بے بنیاد الزامات سے روکا جاتا ہے وہیں عدلیہ کے اعلیٰ مقام اور مرتبہ کے ججوں سے بھی یہ توقع ہی نہیں بلکہ لازم قرار دیا جاتا ہے کہ وہ عدلیہ کا احترام کریں یہ احترام نہ صرف ان کے رویے ان کے کردار اور ان کی گفتگو سے نظر آنا چاہیے بلکہ عدلیہ کے اعلیٰ ترین ججوں پر یہ بھی لازم ہے کہ فیصلہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو شاہد جانتے ہوئے صحیح فیصلے کریں اور ارباب اختیار کو بھی چاہیے کے اپنے دامن کو پاک صاف رکھیں۔

اگر ان خلاف کسی کیس میں فیصلہ آتا ہے تو اسے تسلیم کریں نہ کہ منفی ہتھکنڈوں کے ذریعے فیصلوں کی شفافیت پر سوالیہ نشان لگائیں جنابان انصاف ہی قوموں کو توانا رکھتا ہے اگر غریب پر انصاف لاگو ہوتا ہو اور صاحب اقتدار کو استثنا حاصل ہو توا یسا معاشرہ کیسے زندہ رہے گا کیونکہ یہ دوہرا معیار ظلم ہے اور ظلم کے بارے مشہور ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن ظلم پر ہرگز نہیں یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم میں برطانوی وزیرِ اعظم ونسٹن چرچل کو اْس کے سپہ سالار نے بتایا کہ ہم شکست کھانے والے ہیں اور جاپانی فوجیں لندن کا محاصرہ کر چکی ہیں تو اس نے صرف ایک سوال کیاکیا ہماری عدالتیں ابھی تک انصاف کر رہی ہیں؟جواب ملا جی ہاں تو چرچل نے کہاپھر ہمیں کوئی شکست نہیں دے سکتا۔

اور جناب والا تاریخ گواہ ہے کہ جاپانی فوجوں کو آخرکار پسپا ہونا پڑا کیونکہ انصاف معاشرے کو توانا رکھتا ہے ایک اور دلیل عظیم چینی فلسفی کنفیوشس سے کسی نے پوچھا کہ اگر ایک قوم کے پاس تین چیزیں ہوں انصاف، معیشت اور دفاع اور بہ وجہ مجبوری کسی چیز کو ترک کرنا مقصود ہو تو کس چیز کو ترک کیا جائے کنفیوشس نے جواب دیا دفاع کو ترک کردو سوال کرنے والے نے پھر پوچھا اگر باقی ماندہ دو چیزوں انصاف اور معیشت میں سے ایک کو ترک کرنا لازمی ہو تو کیا کیا جائے کنفیوشس نے جواب دیا معیشت کو چھوڑدو اس پر سوال کرنے والے نے حیرت سے کہا معیشت اور دفاع کو ترک کیا تو قوم بھوکوں مر جائے گی اور دشمن حملہ کردینگے تب کنفیوشس نے جواب دیا نہیں ایسا نہیں ہوگا بلکہ ایسا ہوگا کہ انصاف کی وجہ سے اس قوم کو اپنی حکومت پر اعتماد ہوگا اور لوگ معیشت اور دفاع کا حل اِس طرح کریں گے کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر دشمن کا راستہ روک لیں گے ۔

جو قومیں انصاف قائم کرتی ہیں پروردگار ان کی حفاظت کرتا ہے۔ غزوہ بدراس کی عمدہ مثال ہے مگر افسوس ہمارے ہاں ارباب اقتدار ہی اعلی عدلیہ کے فیصلے تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں نام نہاد جھوٹے پولیس مقابلوں میں معصوموں کی جان لینے والے انصاف کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں تگڑا ظلم کو اپنی جاگیر اور انصاف کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھتا ہے جنابان ایسادوغلہ معیار ریاست کو مضبوط نہیں کمزور کرے گا۔

انصاف بلاتفریق ہونا چاہیے جس پرالزام ثابت ہوجائے ارض پاک کے آئین وقانون کے مطابق اس پرحد نافذکی جائے تاکہ عام وخاص جرائم کرتے وقت سوچنے پر مجبور ہوکہ اگر پکڑا گیا تو انجام کیا ہوگا اور یہ ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ عدالتوں کے احترام کو یقینی بنوائے اگر یوں ہی عدالتوں پر اعتماد اورکھلی تنقید ہوتی رہی تو یقینا اس کے اثرات وثمرات مستقبل قریب میں انتہائی بھیانک ہوں گے کیونکہ ہربااثر فرد اپنے خلاف فیصلہ آنے پر عدالتوں پر اعتماد کا اظہار کرے گا یقینا ریاست کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے تمام اداروں کا آئین وقانون کے تحت کام کرنا ہی ریاست کی مضبوطی کا باعث ہے ۔