جمہوریت،عدلیہ اورانصاف کے تقاضے ( حصہ اوّل)

گزشتہ دنوں اعلیٰ عدلیہ کے نظریہ انصاف کے خلاف عاصمہ جہانگیر کانفرنس اور سینٹ میں آواز یں بلند ہوئیں ۔مسلسل ایسی بازگشت ادارے کے وقار کو مجروح کرنے کا سبب بنیں گی ۔جمہوری بابووں کو بھی چاہیے کہ وہ پھولچڑیاں اچھالنے کی بجائے موثر قانون سازی اوراپنے اعمال کی اصلاح کے ذریعے ریاستی اداروں کوبہتر کرنے کی سعی کریں ۔

ریاستی اداروں میں بگاڑ کی حقیقی وجہ جمہوری افراد ہیں جن کے قول وفعل میں تضاد ہے ۔جس کسی نے بھی اقتدار کی ڈور کو تھاما اس نے ریاستی اداروں کو اپنی من مرضی کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی یہی وجہ ہے کہ پی آئی اے،ریلوے،اسٹیل مل ملکی خزانے پر بوجھ بن چکے ہیں۔پیٹرول ،گیس ،آٹا،چینی ،کھاد اوردیگر اشیائے ضروریہ کا بحران جمہوری حکومت کی ناکامی اورکھوکھلے پن کو ظاہر کرتاہے۔عدلیہ ریاست کا اہم ستون ہے ۔اس کا مستحکم اور غیرجانبدار ہونا ریاست کی لیے بہت ضروری ہے۔انصاف کے حصول کویقینی بنائے بغیر حقیقی ترقی اورخوشحالی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتاجوعدل وانصاف اورمساوات کا دستور اسلام نے دیا ہے دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے عدل کی بے نظیر مثالیں قائم کیں اسلام میں امیر وغریب ،شاہ وگدا ،اعلیٰ وادنیٰ، آقا و غلام اور حاکم و محکوم میں انصاف کرتے وقت کوئی فرق نہیں رکھا گیا بلکہ اسلام تمام انسانوں کو برابری کی بنیادی پر حقوق فراہم کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ آیت 8میں عدل کی اہمیت پرزور دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ اے ایمان والواللہ کے لیے حق پرمضبوطی سے قائم رہنے والے ہو جاؤ جبکہ تم انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے ہوکسی قوم کی عداوت تمہیں بے انصافی پر نہ ابھارے تم عدل کرتے رہو کیوںکہ وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ تمہارے سب کاموں کو خوب جاننے والا ہے حدیث نبوی، جناب عزت مآب ؐ کے پاس کچھ لوگ آئے اس وقت جب قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی یہ خاندان چوںکہ قریش میں عزت اور وجاہت کا حامل تھا اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے اور معاملہ کسی طرح ختم ہوجائے۔

حضرت اسامہ بن زیدؓ جو رسول اکرم ؐکے منظور نظر تھے لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ اس معاملے میں رسول اکرمؐ سے معافی کی سفارش کیجیے انہوں نے حضور اکرمؐ سے معافی کی درخواست کی آپؐ نے ناراض ہو کر فرمایا بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباء پر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراء سے درگزر کرتے تھے یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر بالفرض میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتااسی طرح غزوۂ بدر کے موقع پر دوسرے قیدیوں کے ساتھ حضور اکرمؓ کے چچا حضرت عباسؓ بھی گرفتار ہو کر آئے تھے قیدیوں کو زرفدیہ لے کر آزاد کیا جا رہا تھا فدیہ کی عام رقم چار ہزار درہم تھی لیکن امراء سے زیادہ فدیہ لیا جاتا تھا۔

چوںکہ حضرت عباسؓ حضور اکرمؐ کے قریبی رشتے دار تھے اسی واسطے سے بعض انصار نے رسول اکرمؓ سے عرض کیا یا رسول اﷲاجازت دیجئے کہ ہم اپنے بھانجے عباس کا زرفدیہ معاف کردیں یہ سن کر حضور اکرمؐ نے فرمایا ہر گز نہیں ایک درہم بھی معاف نہ کرو بلکہ حضرت عباس سے ان کی امارت کی وجہ سے حسبِ قاعدہ چار ہزار درہم سے زیادہ وصول کیے جائیں مزید یہ کہ ایک مرتبہ یہودیوں کا ایک جوڑا بدکاری میں پکڑا گیا، یہودی مقدمہ لے کر حضورﷺ کی عدالت میں آئے، جوڑا گرفتار تھا اور ان پر بدکاری کا جرم ثابت ہوگیا۔ آپﷺ نے یہودیوں سے پوچھا، یہ بتاؤ کہ تمہارے ہاں اِس جرم کی سزا کیا ہے؟ تم یہودی ہو اور ایک شریعت کو مانتے ہو تمہارے ہاں بھی ایک قانون اور ضابطہ ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں اس جرم کی سزا یہ ہے کہ دونوں کے منہ کالے کیے جائیں اور گدھے پر بٹھا کر پورے شہر کا چکر لگایا جائے اور ساتھ مار پٹائی بھی کی جائے۔ حضرت عبد اللہ بن سلامؓ جو پہلے یہودی علماء میں سے تھے اور اب مسلمان ہو چکے تھے، حضورﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا تورات میں اس جرم کی سزا یہی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یا رسول اللہ! یہ لوگ غلط بیانی کر رہے ہیں کیونکہ تورات میں یہ سزا نہیں ہے بلکہ یہ سزا انہوں نے خود گھڑ لی ہے، تورات میں رجم یعنی سنگسار کرنے کی سزا ہے۔ لیکن جب ان لوگوں نے اصرار کیا کہ تورات میں یہی لکھا ہوا ہے جو ہم نے بتایا ہے تو اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ تورات لے کر آؤ۔ چنانچہ مجلس میں تورات لائی گئی اور یہودی عالم سے کہا گیا کہ اس جرم کی سزا پڑھ کر سناؤ، اس نے اس سزا کے متعلق آیتیں اس طرح پڑھیں کہ درمیان کی آیت چھوڑ دی۔

حضرت عبد اللہ بن سلامؓ نے اس کی خیانت پکڑ لی اور کہا یا عدو اللّٰہ ! اقرأ ھذا کہ اللہ کے دشمن یہ بھی تو پڑھ یہ کیا لکھا ہوا ہے۔ یہاں حضرت عبد اللہؓ بن سلام نے بتایا کہ یا رسول اللہ! تورات میں اس جرم کی اصل سزا تو رجم ہی تھی لیکن جوں جوں زمانہ بدلا یہودی علماء نے اس سزا کے اطلاق میں خیانت کرنا شروع کر دی کہ جب کوئی غریب آدمی اس جرم میں پکڑا جاتا تو اسے سنگسار کر دیتے ۔

یہی ستم ہمارے معاشرے میں رائج ہے افسوس جب کوئی امیر اور صاحب ثروت آدمی پکڑا جاتا تو اس کو نرم سی سزا دے کر خانہ پری کر دی جاتی ہے۔اگر غریب ہتھے چڑھ جائے تو اسے الٹا لٹکا دیتے ہیں ۔عدالتوں کے باہر لگی لائنیں ،دن بھر کھجل خوار ہوتے سائلین ،ناجائز ظلم وستم کی آگ میں جھلستے انسان،سالہاسال سے کچہریوں کی راہ داریوں میں انصاف کے متلاشیوں کی داد رسی ضروری ہے ۔دوسری جانب طاقتور لوگوں کا انصاف کے اداروں کے خلاف بیانیہ قابل افسوس ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔٘۔۔۔جاری ہے۔