موجودہ نظام تعلیم ( حصہ دوئم)

آتے ہے اب نظام تعلیم کی طرف  جس کا وزیر تعلیم یورپی ممالک کے تعلیم سے متاثر نظر آتے ہے ۔ حال میں جگہ جگہ بحث ہورہی تھی، نیز طلبا بھی آئن لائن ایگزیم کالجزوں ، یونيورسٹيوں میں احتجاج تک  ہوا کہ امتحان آئن لائن لیا جائیں ۔ آئن لائن امتحان کا مطلب ” فوٹو کاپی/ فوٹو پرنٹ پیپر” کیونکہ ایسا  کوئی سسٹم  یاکوئی ایسی ایپ  ہمارے پاس ہے ہی نہیں جس پر آئن لائن امتحان لے سکیں دیگر ممالک کے پاس سہولیات ہے وہ لے سکتے ہیں، امتحان آئن لائن ، اور ضرورت کیا پیش آئی جو آئن لائن امتحان دیں ؟

 اس کا جواب اس کے سوا کیا ہوگا کہ ہم لوگ اندھی تقلید کے عادی قوم ہیں، کچھ روز قبل اسلام آباد میں اساتذہ کرام الاؤنس اور تنخواہ بڑھانے کے لیے سڑکوں پر نکلے جو کہ اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے تھیں ۔ اس پر ہمارے بےوقوف رہنما نے لاٹھی چارج کروائی جس پر افسوس ہوا ۔ جس قوم کے اساتذہ کا اتنا خاطر خواہ تواضع کیا  جاتا ہو اس قوم کے معیار تعلیم پر بات کرنے پر ہمیں شرم آنی چاہیے ۔

مزید پڑھیے : گناہ اور ہمارے بہانے ( پہلا حصہ)

اساتذہ تعلیم کی اگر قدر کرنا جاننا چاہتے ہو تو  چائنہ ، جاپان ، انگلینڈ کے ممالک سے سیکھ لیں کہ کس طرح استاد کی عزت اور تعلیمی معیار بہتر سے بہترین کیا جا سکتا ہے۔بانی پاکستان قائد اعظم نے کہا تھا ” تعلیم کسی قوم کیلیے زندگی اور موت جیسی ” ہے۔

کسی مفکر نے کیا خوب کہا ہے ” اگر تم بادشاہ بھی  بن جاؤ تو بھی والدین اور اساتذہ کی تعظیم کیلیے کھڑے ہو جاؤ “۔ ہمارے ہاں ادب لحاظ  اور تعظیم کا خیال اتنا ہے کہ ہمارے ہاں لاٹھی چارج کر لیتے ہیں اساتذہ پر جس کا افسوس ہے۔

کسی دانشور نے کہا کہ

ادب ، طلب ، تڑپ کامیابی کی کنجی ہے ۔

ہمارا تعلیمی نظام جو ہمارے نسلوں کو ” لکیر کے فقیر ” بنا رہا ہے ، جو تحقيقی ، تخليقی ، اور تصدیقی بنیادی اصولوں سے کوسوں دور ہوا سے باتیں دکھائی دے رہی ہے۔ یہاں مغربی تہذیب سے متاثر تعلیم نظام الف سے انار تو سکھایا جاتا ہے مگر الف سے الله اور انسانيت نہیں ۔

یہ ہے ہمارا تعلیمی نظام جہاں آقا مدنی و عربی ﷺ کے سیرت پر مبنی مواد ہٹا کر افلاطون ، ارسطو ، اور دیگر بقراط سقراط پڑھایا جاتا ہے ۔ کہیں اس قوم کے بیٹوں ، بچیوں کے لیے سیرت محمد ﷺ ، علامہ اقبال ، ایدھی جیسے شخصيات پڑھایا جائیں۔  ہمارے ہاں طلبا اکثر امتحانات کے بعد کتابوں کو کباڑی پر  بیج دیتے ہے ۔ دو چار پیسوں کے لیے ۔ ان کتابوں کو صدقہ جاریہ سمجھ کر دوسرے ہم وطن  بھائیوں کو دیکر اجر  کمائیں ۔

وزیر تعلیم اور اعلی افسران تعلیم کے نوٹس میں لانا چاہتا ہوں کہ نظام تعلیم کو مثالی معیاری تعلیم کے ساتھ تحقيق ، تخلیقی ، و  تصدیق پر مبنی اسباق و سیلبس لگو کر لیں تاکہ معیار تعلیم کے ساتھ ملک کے بیٹے ملک کی ترقی خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکیں ۔

مورخین حیران ہیں کہ دنیا کے پردے پر ایک ایسی قوم بھی موجود ہے جسکا قومی ترانہ فارسی میں ہے ، قومی زبان اردو ہے ، قوانین انگریزی میں ، مذہب عربی زبان میں ، ڈرامے ترکی کے ، فلمیں ہندوستانی ، خواہشات یورپئین ، عادات جاہلانہ ، حرکات درندگانہ اور خواب مدینہ منورہ میں دفن ہونے کے ہیں ۔

آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان برصغیر پاک و ہند 1858ء میں ہوا ،اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ برصغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں۔اس لیے ہمارے پاس ” پاسنگ مارکس ” 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔

دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کر دیے گئےاور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔

جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہےاور وہ ” اخلاقیات ” اور ” آداب ” ہیں۔

حضرت علیؓ نے فرمایا:

“جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں”

مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علیؓ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی۔ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔

ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز…

اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انہوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہو گئے۔اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔

جاپان میں معاشرتی علوم ” پڑھائی” نہیں جاتی ہےکیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں۔ صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔

اگلی قسط میں ہم اپنے تعلیمی نظام پر گہری نظر ڈال کربات کریں گے۔