”ہماری ثقافت اور موجودہ منظرنامہ“

ثقافت کے معنی طرزِزندگی یا تہذیب کے ہیں۔لغت کی رو سے ثقافت کسی معاشرے میں موجود رسم ورواج اوراقدارکے مجموعےکوکہاجاتاہےجس پر عام لوگ مشترکہ طورسے عمل کرتے ہوں۔اس لحاظ سے رقص اورموسیقی کاثقافت کے دائرے سے کچھ لینادینانہیں ہے الایہ کہ کسی جگہ کےلوگ اس کو زندگی کا لازمہ سمجھتے ہوں یا عبادت کا درجہ دیتےہوں۔ورنہ اس کی ضرورت زندگی کےکسی شعبے کو نہیں ہے۔جس طرح سےعام طورپریہ سمجھا جاتاہےکہ جہاں ثقافت کا لفظ آیاموسیقی اور دھمال شروع۔۔۔ یافنون لطیفہ کا لفظ آیا اور بے حیاٸی جائز ہوگئی ۔۔۔۔۔۔ یا تفریح کولازماًاباحیت اورعریانیت کے ہم معنیٰ سمجھ لیا جاتاہے۔۔۔

اب ذرا پاکستان کا منظرنامہ دیکھیے آج کل جس زورشورسے ہر طرف رقص اور موسیقی کی بھرمارکی جارہی ہے، اور ثقافت کے نام پہ یہ سب کچھ ہورہاہے اس پر حیرت ہے !!!!! پاکستانی معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ ہےیہاں کی آبادی کی غالب اکثریت مسلمان ہے۔اوراسلام کی اپنی ایک مخصوص تہذیب ہے جسکی بنیادکلمہٕ طیبہ پر ہےاور جس کے لازمی مظاہرہیں وقار اورشائستگی۔۔۔ جس کا پیغام ہےخیرخواہی اور عدم تشدد۔۔۔ اور جس کی شان ہے انفرادیت۔

”ہم جیساکوٸی نہیں !!!!!! “

جی ہاں یہی سب سے زیادہ قابلِ فخر حقیقت ہے۔۔۔!!!!!! اللہ اور اسکےپیارےرسولﷺ کی خوشی ہی اسی میں ہے کہ مسلمان قوم کے طور طریقے کسی بھی دوسری قوم کے مشابہ نہ ہوں ۔عبادت تو دور کی بات ہےاگرفرد سامنے آ ۓتو اس کی نظر ، اس کی چال ڈھال، لباس وانداز، نشست وبرخاست حتیٰ کہ خوشی اورافسوس کے جذبات بھی الگ ہوں۔ کھانےکی اشیا تو دور کی بات کھانے کا طریقہ تک جدا ہونا چاہیے۔ باذوق لوگوں کی تمنا ہوتی ہے کہ منفرد نظر آئیں۔اورمعزز شخص چاہتاہے کہ دوسروں پر اسکی عزت قائم ہو۔ مالکِ ذوق وجمال بزرگ وبرتر کی رضا اس میں ہے کہ اس کے محبوب کی امت کا ایک ایک فرد جہاں جاۓ پہچانا جاۓکہ یہ کس قوم کا نمائندہ ہے۔۔۔۔ !!!!!

اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کوایسی ہی عظیم الشان تہذیب عطا فرماٸی جوزندگی کےھر شعبے میں نہ صرف منفردبالذّات تھی بلکہ منافعات و مناقبات اور ایجادات سے بھی مالامال تھی!!!!!!!

یہی وجہ ہے کہ آج ڈیڑھ ھزار سال گزرنےکےباوجود نہ تو یہ متروک ہوئی ناہی فرسودہ!!!

اگرچہ مسلمانوں نےاپنے شاندار ورثے سے روگردانی کرتےہوے غیروں کی نقالی شروع کردی ہے۔ مگر اسی کےعلی الرغم غیرمسلموں نے اسےمفید دیکھ کراپنانا اور اسکے ذریعےسےبلندی کے زینوں پہ چڑھنا شروع کردیاہے!!!!!

تہذیب ہمیشہ مذہب کی مرہونِ منت ہوتی ہےاور اسی کی آئینہ داربھی۔۔۔۔۔کیونکہ مذہب راستے کوکہتےہیں اورتہذیب اس پر چلنےکے طریقے کو۔۔۔ اور ثقافت اس کے مظاہرکو۔۔۔!!!!! یہی وجہ ہے کہ غیرمسلم اقوام جب بھی اسلام کےاصولوں پرعمل کرتی ہیں انھیں اسلام کو خراجِ عقیدت پیش کرنا ناگزیر ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔

ایسی معرکہ آرا اور لافانی تہذیب کا حامل ہوتےہوۓ بھی آج ہم دوسروں کےان اطوار کی نقل کرتے ہیں جنکی ہلاکت انگیزی کے سبب وہ قومیں خود ان سے جان چھڑانا چاہتی ہیں۔۔۔۔

واۓ افسوس۔۔۔

جدھر بھی نظراٹھائو خون ہی ٹپکاتاہے!!!

وطنِ عزیز اس وقت عمائدین سلطنت کی لامحدودسرکشی اورطغیان کی کالی آندھیوں کی زد میں ہے۔ ھر روز ایک نہ ایک نیافتنہ نمودارھوتا ہے۔۔۔۔۔ اور سب ثقافت کے نام پر۔۔۔ !!!

سب سےپہلےحکومتی ایوانوں سے آواز آٸی کہ سنسر بورڈ ختم کردیا جائے گااور جو کچھ حیاباختہ موادفلمایاگیاہوگا جوجوں کاتوں دکھایاجائے گا۔ کیونکہ اس پر پیسے خرچ ہوئے ہیں۔۔۔

پھرکہاگیاکہ شراب اورچرس پرکوٸی پابندی نہیں ہوگی جو چاہے بیچےیاخریدےرکھےیاپیے پولیس بازپرس نہیں کرےگی۔۔۔

پھر کہاگیاکہ بارہ سونئے سینما گھرکھولے جائیں گے۔۔۔۔۔ !!!!!!

یعنی کہ اب کوٸی مہذب یا جنونی ، حیاداریابےحیا ، محبِ وطن یا دشمنِ وطن ، دیندار یادین بیزار اپنے مسموم مقاصدیامذموم مقاصد کے لیے جیسی بھی فلم چاہے بناکر بےدھڑک عوام میں جاری کرسکتاہے۔۔۔۔۔۔۔

دوسری طرف عوام کوبآسانی شراب اور چرس اور دوسرے مہلک نشےمہیاکیے جائیں گےتاکہ وہ ہوش وخردسے بیگانہ ہوکر ایسی فلمیں دیکھیں جوانکی زندگی کے لیےبھی زہرِقاتل ہو اور دوسروں کے لیے بھی ان کو بلا بنادے۔۔۔

سمجھ میں نہیں آتاکہ ایسا کیوں کیاجارہا ہے؟

پہلے تو اس طرح کی جسارتیں پرائیویٹ سیکٹر میں کی جاتی تھیں۔ یا NGO کی سطح پر نظرآتی تھیں تو حکومت سے شکایت کی جاتی تھی اور پھر حکومت نوٹس لیتی تھی۔ برا یا بھلا مگر کچھ نہ کچھ مداوا ضرور ہوتاتھا۔ اورکچھ نہیں تو کم ازکم طغیانی کی رفتار ہی کنٹرول ہوجاتی تھی۔۔۔۔۔

مگر اب تو حکومت کے کارپرداز ہی اس ملک کی جڑیں کاٹنے اورآئین کی دھجیاں بکھیرنے پر تل گئے ہیں۔۔۔

اور یہ سب ثقافت کے نام پر ہورہاہے۔ آخر کونسی ثقافت ہم اپنے اسلامی معاشرے میں رئج کرناچاہتے ہیں ؟

حصہ

جواب چھوڑ دیں