طاہرہ فاروقی
16 بلاگ
0 تبصرے
بنتِ حوا ہوں میری صدا تو سنو
جی ہاں ! میں ہی وہ عورت ہوں جس کے حقوق کے لیے یہ ہنگامہ برپا ہے اور میں اچھی طرح جانتی ہوں ان...
ہمارے مرشد
پیارا تو ہر کارکن ہے اور عزیز ساری قیادت ہے!!! کسی کی بھی جدائی ہوتی ہے دل روتاہے ۔ سید الانبیاؐ کے قافلے کا...
سترہ رمضان یوم الفرقان
سترہ رمضان کاسورج طلوع ہوا تو آنکھیں مل مل کر دیکھنے لگا ایک جگہ اسکی نگاہ پڑی تو ہٹنا بھو ل گٸ۔۔۔۔ یہ کیا؟وادی...
آسمان پہ تھوکا
یہ جومثل مشہور ہے کہ آسمان پہ تھوکا منہ پہ آتا ہے سننے میں تو بس ایک ضرب المثال ہی لگتی تھی اور اسکا...
فکرمندی زندگی کا مظہرہے
کیاآپ بھی فکرمندہیں؟؟؟معاشرے کی تشویشناک حالت پر۔۔۔؟
ٹوٹتےہوےگھروندوں پر۔۔۔۔؟
اولاد کی نافرمانی پر۔۔۔۔۔؟
نسلِ نو کی اقداربیزاری پر۔۔۔۔؟
بےچینی کے بڑھنے پر۔۔۔۔؟
حرص وہوس کے عروج پر۔۔۔۔؟
خوف وہراس کی...
پہلا قطرہ
اسکےہاتھ سےپوسٹنگ لیٹر لیتےہوے مینیجر نے ایک لمحہ اسے حیرت سے دیکھا پھر بیٹھنےکااشارہ کیا۔وہ خاموشی سے سامنے رکھی کرسی پر بیٹھ گئی۔مینیجرنے لیٹر...
ناچ میری قوم
”بھائی پھرآپ ایساکریں ٹی وی دیکھنا چھوڑدیں!!!!“ رملہ نے چڑکر کہا
”پھریہ ہے کس لیے؟“ نور نے تیوری چڑھا کر کہا
”یا تو پھر جوبھی آئےدیکھتی...
”ہماری ثقافت اور موجودہ منظرنامہ“
ثقافت کے معنی طرزِزندگی یا تہذیب کے ہیں۔لغت کی رو سے ثقافت کسی معاشرے میں موجود رسم ورواج اوراقدارکے مجموعےکوکہاجاتاہےجس پر عام لوگ مشترکہ...
اہم بلاگز
ایک شدید خواہش
کئی دن سے فلسطین پر قلم اٹھانے کا سوچا لیکن امید، خوف، غصہ، نشاط، تاسف میں اتنی جلدی رد و بدل آتا تھا کہ الفاظ ہی بدل جاتے تھے کبھی دل شہادتوں پر تکلیف کے خاتمے کا سکون محسوس کرتا تو کبھی بے دردی اور سفاکی کے مناظر اور شہداء کی بڑھتی ہوئی تعداد خون کھولا دیتی بے بسی کا یہ عالم تھا کہ دعا کا انتخاب بھی مشکل تھا۔ ہر دن کوئی نہ کوئی تصویر ذہن میں آجاتی جو پھر نکل نہ پاتی۔ میں نے سلے ہوئے سر، بند سو جتی آنکھوں کے ساتھ اس بچی کو دیکھا۔ جو بڑے اطمینان سے خود کو محفوظ سمجھتے ہوئے تربوز کا ٹکڑا کھا رہی تھی۔ مجھے نہیں سمجھ آیا میں اس کے لیے کیا دعا مانگوں، تربوز میں رسول اللہﷺ کے دودھ کےپیالے جیسی برکت مانگوں جو اسکی بھوک مٹانے کے لیے کافی ہو جائے۔ یا اس کی بظاہر نا ممکن نظر آتی سکون کی زندگی مانگوں یادوبارہ پھر کسی تکلیف سے بچنے کے لیے شہادت مانگوں-
پھر میں نے ایک باپ کو اپنے بیٹے کے سرد وجود کو اسطرح سے لپٹتے دیکھا کہ اسکا پھٹتا ہوا دل مجھے نظر آرہا تھا۔ اور ایک بچی کو اپنی ماں کی نعش سے وہ باتیں کرتے ہوئے سنا کہ میرا دل پھٹنے لگا اور مجھے نہیں سمجھ آیا کہ ماں باپ کے سامنے اولاد کا مرجانا زیادہ مشکل ہے یا اولاد کے سامنے ماں باپ کا مر جانا۔
میدان میں بچوں کے بکھرے ہوئے اعضاء، صحت مند متحرک نو مولود کے برابر میں پڑی بے حس و حرکت ماں، کفن دفن کے انتظار میں لواحقین کے ہاتھوں میں اٹھانی نعشوں کی قطار، چھوٹے زخمی بچوں کی درد سے نکلی چیخیں، حادثے کے بعد زندہ بچ جانے والوں کے خوف سے لرزتے ہاتھ۔
میں نے سوچ سوچ کر رونے والوں کو بے اختیار آنسو بہاتے دیکھا۔ اپنی ہمت پر بہت ناز کرنے والوں کو فلسطین پر ہونے والے سفاک مظالم پر آنکھیں بند کرتے دیکھا۔ کسی نے پوچھا فلسطین جا کر کسی سے ملنے کا موقع ملے تو اُسے کیا کہہ کر آؤ گے؟
میرے پاس سب سے کمزور صنف فلسطینی ماؤں کو کہنے کے لیے بھی کچھ نہیں تھا جس بات کو برداشت کرنے کا آپ میں حوصلہ نہ ہو۔ وہ الفاظ آپ کسی اور کو نصیحت یا دلاسے کے لیے کیسے ادا کر سکتے ہیں ہاں لیکن کاش اللہ (کچھ عرصے کے لیے دنیا سنبھالنے والے) حیوانوں سے قوت اور اہلیت کے ساتھ ملنے کا موقع دے۔ اسکی شدید خواہش ہے۔
جہاد میں ہمارا حصہ! صرف دعا
عدینہ ! دادو آج ہماری ٹیچر کہہ رہی تھی کہ آپ سب فلسطین کے لئے ضرور دعا مانگئے گا بچوں کی دعا اللہ ضرور قبول فرماتا ہے اس لئے میں نے نماز کے بعد دعا مانگی ہے کہ اللہ تو فلسطین کے مسلمانوں کی مدد فرما لیکن دادو مسلمان ملک تو بہت زیادہ ہیں سب ملکر دشمن کا مقابلہ کرسکتے ہیں پھر کیوں نہیں کر رہے ہیں۔
میں اپنی 12 سالہ پوتی کی بات سن کر چونک گئی شرمندہ ہوگئی مجھے اس وقت علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا،،،،
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے نہ من تیرا نہ تن
بچپن میں اس شعر کو پڑھاتو اس وقت اتنا شعور نہ تھا کہ اسکی گہرائی تک پہنچ سکوں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ آگہی کے دروازے کھلتے گئے تو کچھ سمجھ میں آیازرا اپنا اپنا محاسبہ کریں تو کیا آج ہم غیروں یعنی غیر مسلموں کے آگے جھکے ہوے نہیں ہیں انکی دوستی کا دم نہیں بھر رہیں ہیں ، انکی مشابہت نہیں کر رہے ہیں جس کی بڑی مثال آج کل کے موجودہ حالات ہیں فلسطین اور غزہ کےمسلمانوں کی تکلیف پر امت مسلمہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے ہم مسلمان غیر مسلموں کی دوستی کا حق ادا کر رہے ہیں یا ان سے ڈرے سہمے ہوئے ہیں یا ہمارے حکمرانوں۔کو اپنی بادشاہت۔کا ہاتھوں سے نکلنے کا ڈر ہے ؟ شاعر تو کہہ رہے ہیں کہ قلندر کی بات سن کر لوگ ندامت محسوس کرتے ہیں اسوقت کچھ اسلام دوست ان حکمرانوں کو غیرت دلانے کی کوشش بھی کر رہے ہیں ! ہمیں تو اللہ رب العزت نے بھی غیروں (غیر مسلموں )کے اگے جھکنے اور انکی دوستی سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے لیکن ہم پر اس بات کا اثر نہیں ہے
جی ہاں ! دین اسلام غیر مسلموں کو دوست بنانے سے ہمیں سختی سے روک رہا ہے آج ہم ان غیروں کے آگے جھکے ہوئے ہیں انکی دوستی کا حق ادا کرنے کے لئے جس پر ہمیں قطعاً ندامت بھی محسوس نہیں ہورہی ہے اسی وجہ سے آج اپنی پہچان، اپنے اصول، اپنا ایمان سب ہم نے نظر انداز کر دیا ہے ہم نے ہر لحاظ سے انکے رسم ورواج انکا کلچر انکا طرز زندگی اپنا لیا ہے اگر کوئی روکنے کوشش کرتا ہے تو وہ انکی نظروں سے گر جاتا ہے اور کہتے ہیں کہ آپکے دلوں میں تعصب بھرا ہوا ہے جبکہ غیرت مند مسلمان کو تو شرم سے پانی پانی ہو جانا چاہیے کیاآج کے حالات ایسے نہیں ہیں؟ غزہ و فلسطین کے مسلمان ایک بڑی آزمائش سے گزر رہے ہیں یہود ونصاری مسلمان اور اسلام دشمنی میں اکٹھے ہو گئے ہیں انکا سامنا فلسطین کے مسلمان تنہا ڈٹ کر کر رہے ہیں
آج وہ تنہا توکل خدا اس ازیت سے گزر رہے ہیں کیا وجہ ہے کہ ہم ان غیروں کے آگے جھکے ہوئے ہیں اور ہم۔ فلسطینیوں کاساتھ دینے سے گریز کر رہے ہیں جبکہ مسلمان ملکوں کی کثیر تعداد اور چالیس اسلامی ملکوں کی متحد افواج کا گروہ یہ کس لئے خاموش تماشائی...
مسئلہ فلسطین اور علامہ اقبالؒ
علامہ اقبال شاعر مشرق ہونے کے ساتھ عظیم مفکر اسلام بھی تھے وہ امت مسلمہ کا گہرا درد رکھتے تھے اقبال کی عالمی سیاست پر بھی گہری نظر تھی، یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جب یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کے لیے جگہ دی تو ان کی دور رس نگاہوں نے اس سے پیدا ہونے والے فتنے اور عالمی فساد کو بھانپ لیا یہودی ارض مقدس پر اپنا حق جتاتے تھے کہ فلسطین ایک عرصہ دراز ان کی حکومت میں رہا وہ فلسطینیوں کے آبائی وطن پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ برطانیہ اور دیگر ممالک نے انہیں آباد کاری کے لیے متبادل جگہوں کی پیشکش بھی کی مگر وہ فلسطین میں آباد ہونے پر مصر رہے چنانچہ ایک تحریک چلائی گئی اور دنیا بھر کی یہودیوں کو فلسطین میں آباد کرنے کے لیے لانے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اس ضمن میں اقبال فرما تے ہیں کہ.....
ہے خاکِ فلسطین پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پر حق نہیں کیوں اہل عرب کا
برطانیہ نے یہودیوں کی سہولت کاری کی اور عربوں سے کیے گئے وہ تمام عہد و پیمان توڑڈالے اور فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کو زمین دینے اور ان کی آباد کاری کا منصوبہ برطانیہ کی سرپرستی میں جاری رہا۔ علامہ اقبال برطانیہ کی اس کاروائی کے پیچھے چھپے مغربی عزائم سے واقف تھے ان کی نظر میں برطانیہ جان بوجھ کر ایک فتنے کی بنیاد رکھ رہا تھا جس کا مقصد اپنی استعماری اقتدار کو برقرار رکھنا تھا۔وہ جانتا تھا کہ یہ مسلم ممالک میں جنگ کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔"ضرب کلیم" میں اقبال لکھتے ہیں کہ......
مقصد ہےملوکیت انگلیس کا کچھ اور
قصہ نہیں نارنج کا یا شہد رطب کا
دوسری جنگ عظیم کے بعد عثمانی سلطنت کی شکست کے نتیجے میں فلسطین کا علاقہ برطانیہ کی عملداری میں آچکا تھا برطانیہ کی زیر سرپرستی فلسطین کے اصل آباد کاروں کو زبردستی ان کی زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ فلسطینیوں نے مزاحمت کی تو یہ آباد کاری خونریز کاروائیوں میں تبدیل ہو گئی۔
انگریزوں کی تائید اور سرپرستی میں دنیا بھر سے یہودی نقل مکانی کر کے فلسطین پہنچ رہے تھے اور آباد کاروں کی حیثیت سے زبردستی حیلوں بہانوں سے فلسطینیوں کی زمینوں پر قبضہ کرتے جا رہے تھے جس کے نتیجے میں ،1928، اور 1929 میں یہودیوں اور مقامی آبادی کے درمیان متعدد خون ریز تصادم ہوئے۔ فلسطین ہو یا دنیا کا کوئی اور خطہ اقبال امت مسلمہ کو پیش آنے والی کسی بھی مصیبت پر بے چین اور پریشان ہو جاتے تھے، یہ تو انبیاء کی سرزمین تھی اقبال وہاں کے باشندوں کی مشکلات پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ انگریزوں کی یہود نواز پالیسیوں کے خلاف سات ستمبر 1949 میں لاہور میں مسلمانوں نے ایک احتجاجی جلسہ منعقد کیا جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی۔ اقبال نے خطاب کرتے ہوئے یہودیوں کی سفاکی کی مذمت کی اور یہودیوں کو یاد دلایا کہ ہیکل سلیمانی جو تباہ ہو چکا تھا اس کی دریافت حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ہی کی تھی اور یہ ان...
کرکٹ، سیاست اور فلسطین
کرکٹ کے عالمی مقابلے بھارت میں جاری ہیں اور اب تک بھارت وہ ملک ہے جو اپنا کوئی مقابلہ نہیں ہارا ہے، بھارت کے کھلاڑی بہت اچھے ہیں ان کی اس اچھائی کے پیچھے بہت سارے عوامل کار فرما ہیں، جس میں سب سے اہم بھارتی کرکٹ بورڈ نے اپنے کھلاڑیوں کی زندگیاں بدلنے میں عملی کردار ادا کیا ہے یعنی انہیں معاشی طور پرآسودگی فراہم کی گئی ہیں جس کے لئے انہیں بھرپور مراعات دی گئی ہیں اور اسکے لئے انہوں نے انڈین پریمئر لیگ کا آغاز کیا۔ یہاں سے بھارت کی کرکٹ نے ایک نیا موڑ لیا، جب اپنے مقامی کھلاڑیوں کو بین الاقوامی نامی گرامی کھلاڑیوں کو ان کے درمیان لاکر چھوڑ دیا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ بین الاقوامی طرز سے ہم آہنگی اورکھیلنے کے طریقے میں بھرپور اعتماد کے ساتھ ساتھ تکنیکی صلاحیتوں میں بھی خوب نکھار آیا۔ بھارت نے دنیائے کرکٹ جہاں گیند بلے سے دھاک بیٹھائی، وہیں انتظامی امور پر بھی آہستہ آہستہ پنجے گڑانا شروع کردئے۔ اثرو رسوخ کے استعمال کی بدولت وہ اپنی من مانی کرتا بھی دیکھائی دیتا ہے۔
حال میں ہونے والے ایشاء کپ کی میزبانی پاکستان کو سونپی گئی تھی لیکن بھارت نے ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے صاف منع کردیا جس پر یہ مقابلے غیر جانبدار مقام (سری لنکا)پر منتقل کردئیے گئے۔ اس پر کسی قسم کا کوئی خاص رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا(بین الاقوامی کرکٹ کونسل بھی اس پر عمل کرانے سے گریزاں دیکھائی دیا) جو اس بات کی گواہی ہے کہ بھارت ہر سطح پر اپنا اثر رسوخ منوانے کی خوب صلاحیت رکھتا ہے۔ بھارت کی کرکٹ ٹیم کا اعتماد انکے قومی اعتماد کا خاصہ ہے جو اب کسی ہٹ دھرمی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ بھارت میں ہونے والے مقابلوں میں پاکستان کے مقابلے بہت روکھے پھیکے سے دیکھائی دیتے ہیں جس کی وجہ وہاں پاکستان کا جھنڈا لہرانا کسی جرم سے کم نہیں ہے پاکستان کے لئے نعرے لگانا بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہے۔
کھیل کا تعلق کسی مذہب یا نسل سے نہیں ہوتا لیکن پاکستان کی ٹیم کے ساتھ جس طرح کا سلوک کھیل سے باہر کیا گیا کسی بھی طرح سے برداشت کے قابل نہیں ہے۔گلے شکووں سے آگے بڑھتے ہیں، کھیلوں کی دنیا میں کرکٹ کا اپنا ایک مقام ہے اور اس مقام میں بتدریج اضافہ ہوتا جا رہا ہے جس کا منہ بولتا ثبوت اگلے اولمپکس مقابلوں میں کرکٹ کی باقاعدہ شمولیت کا اعلان ہے۔ ویسے تو ہار جیت کھیلوں میں زیادہ واضح طور پر دیکھائی دیتے ہیں ورنہ یہ زندگی کے ہر معاملے میں موجود ہوتے ہیں۔ ہم پاکستانی جیت سے پیار کرتے ہیں (انفرادی طور پر کوشش بھی کرتے ہیں کیونکہ اجتماعی سطح پر ایسا بہت کم ہوتا ہے)اور ہار سے نفرت لیکن ایسا بھی کرکٹ کے شائقین میں زیادہ دیکھا جاتا ہے۔
ادارے کتنے ہی پیشہ ورانہ طرز پر کام کر رہے ہوں لیکن پاکستان میں شائد ہی کوئی ایسا ادارہ یا شعبہ ہوگا جہاں سیاست کا عمل دخل نہیں ہوتا، یہاں وضاحت یقینا ضروری نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے...
امیر بھکاریوں کا شہر کراچی
آج کی بے ہنگم دنیا میں مانگنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔ ملک بھر میں مختلف چوراہوں اور سگنلز پر موجود پیشہ ور بھکاریوں کی تعداد میں اضافہ خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ کراچی بھر میں شاید ہی کوئی چوراہا، سڑک یا سگنل ایسا موجود ہو جو ان گدا گروں سے پاک ہو۔ حد تو یہ ہے کہ کسی اوپن ائیر ریسٹورنٹ اور بازاروں میں جاتے ہی مانگنے والوں کا جھنڈ کا جھنڈ جمع ہو جاتا ہے جو پہلے پہل تو دعاؤں کی صورت میں پیسے مانگنے کی ابتدا کرتا ہے لیکن پیسے نہ دینے کی صورت میں بددعائیں دینے پر اتر اتا ہے۔ اگر آپ کو بدقسمتی سے کسی ایک پر بھی ترس آ گیا اور آپ نے اس کی مدد کر دی تو وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اپنے ساتھیوں کو اشارہ کرتا ہے جس کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی بھکاریوں کی لائن آپ کے سامنے موجود ہوتی ہے۔
روشنیوں کا شہر کراچی اب بھکاریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ پورے پاکستان سے پیشہ ور بھکاری کراچی میں اپنے پورے خاندان سمیت منتقل ہو چکے ہیں جنہوں نے کراچی کے باسیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق کراچی میں 1 لاکھ 30 ہزار سے زائد مقامی بھکاری موجود ہیں اور رمضان سے قبل ہر سال 3 لاکھ بھکاری دوسرے شہروں سے آتے ہیں۔ یہ بات بھی اب ڈھکی چھپی نہیں کہ ان بھکاریوں کے پیچھے پورا مافیا موجود ہے جو کہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ یہ مافیا مرد، عورتوں اور بالخصوص چھوٹے بچوں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے اور ان کو گاڑیوں میں بھر کر مختلف چوراہوں اور سگنلز پر اتارتا ہے جس کے بعد یہ اپنی معذوری کا ڈھونگ رچا کر لوگوں سے پیسے بٹورتے ہیں لیکن یاد رہے کہ یہ بچے اے ٹی ایم مشین کی مانند ہیں جس میں ہم پیسے ڈالتے تو ہیں لیکن اس کے بعد ان کی پشت پناہی کرنے والی مافیا ان مشینوں سے پیسے نکال کر لے جاتی ہے۔ ان بھکاریوں کو ما فیا کی طرف سے کچھ خاص علاقے تقسیم کیے جاتے ہیں جس میں کسی دوسرے بھکاری کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی۔ حد تو یہ ہے کہ جن علاقوں سے زیادہ بھیک حاصل کی جاتی ہے اس جگہ کے ریٹس بھی اتنے ہی زیادہ رکھے جاتے ہیں۔
آج کل کراچی شہر میں ایک نیا ٹرینڈ بھی دیکھا جا سکتا ہے جس میں یہ گداگر ماں بیٹی یا باپ بیٹی کی صورت میں غریبی کا لبادہ اوڑھ کر مختلف شاہراہوں اور بالخصوص مسجدوں کے باہر چپ چاپ ہاتھ پھیلا کر کھڑے ہو جاتے ہیں جو کہ آتے جاتے لوگوں کو ایسی مسکینیت اور حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں کہ دیکھنے والا ان پر ترس کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان بھکاریوں کی روزانہ کی آمدنی کسی بھی عام انسان کی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔
کچھ اعداد و شمارکے مطابق کراچی میں صرف دکانوں سے یہ پیشہ ور گداگر سالانہ 32 ارب 40 کروڑ روپے...
طنز و مزاح
کہاں کی بات کہاں نکل گئی
قارئین کا صاحبِ مضمون سے متفق ہونا لازم ہے کیونکہ یہ تحریر اسی مقصد کے لیے لکھی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو نصحیت کرنے کا جان لیوا مرض لاحق ہوتا ہے۔ جہاں کچھ غلط سلط ہوتا دیکھتے ہیں زبان میں کھجلی اور پیٹ میں مروڑ اُٹھنے لگتا ہے ایسا ہم نہیں کہتے ان لوگوں کے پند و نصائح وارشادات سننے والے متاثرین کہتے ہیں۔
اللہ معاف کرے اکثر نوجوانوں کو نصحیت کرنے کے جرم کی پاداش میں ہماری ان گنہگار آنکھوں نے ان بزرگوں کو کئی مرتبہ منہ کی کھاتے دیکھا ہے۔ مگر نہ وہ اپنی روش سے باز آتے ہیں اور نہ ہی کتے کی ٹیڑھی دم سیدھی ہوتی ہے۔ اب قریشی صاحب کی بیوہ کو ہی لے لیجیے عمر دراز کی ستر بہاریں دیکھ چکی ہیں، بیوگی کے پچاس سال گزارنے والی اپنی زندگی سے سخت بیزار ہے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد ہی موصوفہ نے اپنے پر پرزے نکالنا شروع کر دئیے تھے۔
دن رات صبح شام وہی گھسا پٹا راگ الاپتی رہتی تھیں تمہارے ماں باپ کی خدمت میں کیوں کروں؟ تمہارے سارے کام میں کیوں کروں؟ میں غلام نہیں ہوں۔ جو تمہاری ہر بات مانوں وغیرہ وغیرہ۔ قریشی صاحب بھلے مانس آدمی تھے شرافت اور منکسر المزاجی ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی۔ کان دبائے، نظریں جھکائے بیوی صاحبہ کے فرمودات سنتے اور سر دھنتے رہتے۔ ان کا یہ معصومانہ انداز بیوی صاحبہ کے تن بدن میں آگ لگا دیتا پھر جو گھمسان کی جنگ چھڑتی جس میں بیوی صاحبہ فتح کے جھنڈے گاڑنے کے بعد قریشی صاحب سے اپنے تلوے چٹوا کر انہیں مورد الزام ٹھہراتے ہوئے فرد جرم عائد کر کے سزا سنا دیتیں۔ قید بامشقت کے تیسرے سال ہی قریشی صاحب کے کُل پرزے جواب دے گئے۔
گھر کی مسند صدارت و وزارت پر بیوی صاحبہ براجمان تھیں بیچارے قریشی صاحب کی حیثیت کا قارئین خود اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گنے چنے چند سالوں کی رفاقت کے بعد ایک شام قریشی صاحب داعئ اجل کو لبیک کہہ گئے۔ لواحقین میں ایک بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑیں۔ ماں کے طور اطوار، رنگ ڈھنگ، چال ڈھال اور انداز کا مہلک زہر اولاد کی نسوں میں اتر چکا تھا۔ اور خربوزے کو دیکھ کر خربوزیاں رنگ پکڑتی چلی گئیں۔ موصوفہ کی کل کائنات بس یہ پانچ بیٹیاں ہیں۔ پانچوں کنورای جو شادی کے نام پر ایسے اچھلتی ہیں جیسے بچھو نے ڈنک مارا ہو۔ قبر میں پیر لٹکائی قریشی صاحب کی بیوہ صبح شام خود کو کوستے رہتی ہیں کہ اس جیسے چاہو جیو کے سلوگن نے ان کی دنیا و آخرت ملیامیٹ کر کے رکھ دی۔ مگر اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ ہم اگر اپنی روزمرہ زندگی پر نظر دوڑائیں تو کتنی چیزیں ہیں جو کہ ہم غلط سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی کرتے ہیں نہ جاننا اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا کہ جان کر حقیقت سے نگاہیں چرانا ہوتا ہے۔ چچ چچ ہم آنکھوں دیکھی مکھی نگلنے کے عادی بنا دیے گئے ہیں۔
2021ء میں گھریلو تشدد کا بل اسمبلی سے منظور کروا کر ہماری نوجوان نسل کو یہ پیغامِ تقویت...
والدین اور بیٹیاں
آج اسکول کی بچیوں کو اظہار خیال کے لیے موضوع دیا تھا کہ " آپ کے ساتھ والدین کیا سلوک ہے" جی بچیوں کے ساتھ والدین کا سلوک
چونکہ اسمبلی کے لیے موضوع نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی وہ حدیث تھی جس میں آپ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے بیٹیوں سے نفرت کرنے اور انہیں حقیر جاننے سے منع کیا ہے ،انہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت قرار دیا ہے اور ان کی پرورش کرنے والے کو جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہونے کی بشارت سنائی ہے۔ اس لیے بچیوں کے ساتھ اس حدیث پر تفصیل سے بات ہوئی اور انہیں کل کی اسمبلی میں اس پر بات کرنے کا کہا گیا اور تاکید کی گئی کہ سب طالبات کل اسمبلی میں بتائیں گی کہ انکے والدین انکے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
اب آج وہ اسمبلی منعقد ہوئی اور بچیوں نے اظہار خیال کرنا شروع کیا۔ کسی نے کہا والدین ہمیں پالنے کے لیے ساری قربانیاں دیتے ہیں، کسی نے کہا کہ والدین ہماری سب خواہشات پوری کرتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہمیں تہزیب سکھاتے ہیں، کسی نے کہا وہ ہماری اچھی تربیت کرتے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ ہمیں کھلاتے پلاتے ہیں ، ایک رائے یہ آئی کہ وہ ہمیں کپڑے خرید کر دیتے ہیں، ایک نے کہا کہ وہ مجھے کوئی کام نہیں کرنے دیتے ایک اور نے کہا کہ صبح آنکھ کھلتی ہے تو ناشتہ تیار ہوتا ہے۔ ایک بات یہ آئی کہ انکا مرکز و محور ہماری پڑھائی ہے ایک اور کہا کہ وہ ہمیں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔
اور آخر میں ایک بات ایسی سامنے آئی کہ ہم سب کھلکھلا کے ہنس پڑے حالانکہ اپنے والدین کی ان کوششوں اور محبتوں کو سن کہ ماحول سنجیدہ لگ رہا تھا۔
اس نے کہا " میم ۔ میرے والدین بھی میرے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے ہیں، میری ہر ضرورت پوری کرتے ہیں مگر جب گھر میں چکن بنتا ہے تو leg pieces بھائی کو ملتا ہے۔ " اس معصوم بچی کے اس معصوم تبصرے پر ہم مسکرائے بغیر نہ رہ سکے ۔
تو تمام والدین سے گزارش ہے کہ ہمیں پتہ ہے آپ نے اپنی بیٹیوں کو شہزادیوں کے جیسا پالا ہے اور گڑیوں کے جیسا لاڈلا رکھا ہے مگر جب چکن خریدیں تو leg pieces زیادہ ڈلوا لیا کریں۔
زندگی بدل گئی !
شوہر اچھا ہو بیوی بچوں کا خیال رکھتا ہو تو زندگی پرسکون ہوجاتی ہے مگر یہاں تو زبردستی نوکری پر بھیجو پھر خود بازار جاٶ ضرورت کا سارا سامان خود اٹھاٶ پھر گھر کی صفائی، کھانا بنانا، بچوں کو اسکول چھوڑنا اور لانا سارا دن اسی میں گزر جاتا ہے یہاں تک کے امّی سے بات تک کرنے کا ٹائم نہیں ملتا مہینوں گزر جاتے ہیں امّی سے ملاقات ہوئے۔
فائزہ نے دکھوں کا قصہ سنا کر سکون کا سانس لیا تو میں نے بھی تسلی دی اللہ آسانی کرے تمھارے لیئے۔آج پھر کئی مہینوں بعد فائزہ سے ملاقات ہوئی تو پتہ چلا وہ گھر خالی کر کے دوسرے محلے میں چلی گئی ہے کرائے داروں کے لیۓ یہی پریشانی ہے اللہ سب کو اپنا گھر نصیب کرے۔ فائزہ بڑی خوش اورپہلے سے بہت اچھی لگ رہی تھی خوش ہوکر بتانے لگی۔ میرے شوہر تو جی ایسے فرمابردار ہوئے ہیں کے بس پوچھو مت۔ ویسے میں نے پوچھا نہیں تھا پر فائزہ بتاۓ بغیر کہاں رہتی۔
خوشی خوشی بتانے لگی صبح وقت سے پہلے نوکری پر چلے جاتے ہیں ساتھ بچوں کو بھی اسکول چھوڑ دیتے ہیں گھر کی ساری ذمہ داری خود لے لی ہے میں تو بس اب گھر میں رہتی ہوں اور اتنے محنتی ہوگۓ ہیں کے رات رات بھر گھر نہیں آتے یہاں تک کے کئی کئی دن کام کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے ہیں اور میں اپنی امّی کے گھر آرام کرنے چلی جاتی ہوں رزق میں ایسی برکت ہے کہ کبھی کبھی ہر چیز ڈبل آجاتی ہے پچھلے ہفتے دو سینڈل بلکل ایک جیسی لے آۓ بس ایک نمبر چھوٹی تھی پھر وہ تبدیل کرنی پڑی۔ کبھی راشن میں بھی چیزیں ڈبل ہوجاتی ہیں بس اللہ کا کرم ہے۔ میں تو کونے والی نورن دادی کو دعائيں دیتی ہوں۔ یہ سب ان ہی کی وجہ سے ہوا ہے۔ انھوں نے مسجد کے مولوی صاحب کا پتہ دیا تھا۔ مولوی صاحب نے ایک وظیفہ بتایا تھا پڑھنے کو وہ بھی تہجد میں بس پھر کیا تھا میری تو قسمت ہی پلٹ گئی۔ زندگی آسان ہوگئی ہے۔
مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ایک وظیفے سے قسمت بدل گئی بھئی یہ کونسا وظیفہ ہے چلو چھوڑو۔مگر فائزہ کہا مانتی بتائے بغیر۔ عربی کے چند الفاظ بڑے ادب سے سنائے اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر تین بار آمین آمین آمین کہا۔ بس یہ وظیفہ پڑھ لو شوہر آپ کے قدموں میں اور ہاں کسی اور کو بھی بتا دیں اگر کوئی پریشان ہو تو کسی کا بھلا ہو جائے اچھی بات ہے۔ میرا نمبر بھی لے لیا اور پھر فائزہ مسکراتی ہوئی گھر روانہ ہو گئی۔
ہفتے بعد ہی ایک انجان نمبر سے فون آیا۔ ریسو کرنے پر فائزہ نے سلام دعا کی اور زور زور سے روتے ہوئے کہنے لگی میں تو لوٹ گئی بر باد ہوگئی بس بہن میرا شوہر تو ہاتھ سے نکل گیا پتہ نہیں کیا کمی تھی مجھ میں جو دوسری شادی کر لی اللہ ہی سمجھے گا ایسی عورتوں کو جو شادی شدہ بچوں والے مردوں سے شادی کر لیتی ہیں۔ میں...
بن بُلائے مہمان ! بَلائے جان
بن بلائے مہمان وہ بھی چپک جانے والے ایک دو دن سے زیادہ برداشت نہیں ہوتے اور اگر زیادہ ہی رک جائیں تو سارے گھر کو ہی تکلیف اور نقصان پہنچاتے ہیں اور سارے ہی لوگ ان سے کنّی کترا کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ ہی نہ چپک جائیں۔
ایسا ہی معاملہ ہم لوگوں کے ساتھ ہوا ہے پہلے تو اس خطرناک اماں نے اپنی اولاد کو بھیج دیا وہ ملک ملک گھوما اور یہیں ڈیرا ڈال لیا۔نہ جانے کیا کیا تباہ و برباد کیا اور یہ حضرت انسان بے بس اور بے کس منہ چھپائے گھومتا رہا حتی کہ اپنے بیماروں مجبور پیاروں سے ملنے اور ان کی تیمارداری سے بھی محروم رہا کچھ وقت گزرنے کے بعد جب اس نے دیکھا کہ ماحول ٹھنڈا ہوگیا ہے لوگ سکون میں ہیں تقریبات عروج پر ہیں اسکول، مساجد اور پارک بھرے ہوئے ہیں تو اس نے ناک بھوں چڑھایا اور سوچا ! یہ میری اولاد تو ٹھنڈی ہوتی جا رہی ہے برسوں محنت کی ہے میں نے اس پر اسے اتنی جلدی ہار نہیں ماننا چاہیے۔ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہوگا تو لیجئے جناب پورے جوش اور بھرپور شیطانیت کے ساتھ کرونا کی امی جان اُُمِ کرونا (امیکرون) تباہ حال لوگوں کو اور تباہ کرنے دنیا میں انسانوں پر آدھمکی۔
کتنے دور اندیش تھے وہ لوگ جنہوں نے چاند پر پلاٹ بک کروائے تھے گوگل سرچ کرکے دیکھتے ہیں، تب پتہ چلے گا کہ وہ لوگ کرونا سے بچنے کے لیے چاند پر پہنچ گئے یا اس سے بھی کہیں آگے عالم برزخ پہنچ گئے۔
ہمارے گھر میں تین افراد پر اٌمِ کرونا فدا ہوگئی ہیں ہماری امی جان، بھیا اور آپی پر۔ان تینوں نے قرنطینہ کے نام پر ایک ایک کمرے پر قبضہ جما لیا ہے ابّا جان تو امی کے کمرے کے دروازے کے قدموں میں ہی پلنگ ڈالے پڑے ہیں اور ہم نے لاؤنج میں صوفے پر ڈیرہ جما لیا ہے البتہ ماسی خوش نظر ارہی ہے کہ تینوں کمروں کی صفائی سے جان بخشی ہوئی ہے۔
ویڈیو کال اور فون کال پر ہی سب رشتے داروں نے مزاج پرسی اور تیمارداری کرکے اپنا فرض نبھایا کیونکہ ہم سب مجبور ہیں ایک ان دیکھے وائرس سے۔سلائی والی آنٹی نے جب نئے سلے ہوئے سوٹ ہمیں بھجوائے تو اس کے ساتھ سوٹ کے کپڑے کے ماسک بھی بنے ہوئے رکھے تھے۔ سلائی والی آنٹی کو فون کرنے پر پتہ چلا کہ یہی فیشن چل رہا ہے، انہوں نے ایک آفر بھی دی کے ہم فینسی ماسک بھی بناتے ہیں ستارے موتیوں اور کڑھائی والے ان کا بھی پیکج ہے جو پیکج آپ لینا پسند کریں۔
نہ جانے کتنے ابہام ذہن میں گردش کر رہے ہیں۔ابھی تو ہم ڈر کے مارے اس قابل بھی نہیں ہوئے کی واٹس ایپ یا فیس بک پر اپنا اسٹیٹس لگائیں۔
I am vaccinated
کیوں کہ ابھی تو ہم اکّڑ بکّڑ ہی کر رہے تھے کہ چائنا کی ویکسین لگوائیں، کینیڈا کی یا پاکستانی کے اچانک، اْمِ کرونا سے پہلے بوسٹر بھی آٹپکا۔سوچ رہے ہیں ڈائریکٹ بوسٹر ہی لگوا لیں۔
یہ بلائے ناگہانی ہے بس...
ٹک ٹاک ایک نشہ
ٹک ٹاک مختصر ویڈیو کی ایسی ایپ ہے جس میں وہی ویڈیو چلتی ہے جو ’’مختصر‘‘ ہو۔بس ایک ویڈیو وائرل ہونے کی دیر ہے پھر آپ ایک ہی رات میں ہیرو بن گئے۔گویاٹک ٹاک سوشل میڈیا کا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جس میں وہی ویڈیو وائرل ہوتی ہے جس میں سب کچھ’’ پلیٹ‘‘میں رکھ کر پیش کیا جائے۔بلکہ نوجوان نسل تو وائرل ہونے کے لئے ایسی اشیاء بھی ’’پیش‘‘ کر دیتی ہیں جن کا پیش نہیں ’’زیر‘‘میں ہونا ہی معیاری،مناسب اور اخلاقی ہوتا ہے۔مگرچائنہ والوں کو کون سمجھائے کہ جس لباس کو ہم پاکستانی اعلیٰ اخلاقی اقدار سے گرا ہوا سمجھتے ہیں ان کے ہاں وہ لباس اعلی اقدار کا حامل سمجھا جاتا ہے۔بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ لباس کا صرف سرا ہی نظر آتا ہو تو اسے اخلاقی لباس سمجھا جاتا ہے۔چائنہ اور یورپ میں تو اسی کی زیبائش مناسب ہوتی ہے جس کی ’’نمائش ‘‘زیادہ ہو۔ ان کے سامنے تو بھاری بھر کم فراک،غرارہ و شرارہ زیب تن کر کے جائیں تو وہ حیران ششدر رہ جاتے ہیں کہ ان کا ناتواں جسم ایسا لباس ’’کیری‘‘ کرتاکیسے ہے۔شائد اسی وجہ سی چینی اور یورپی خواتین وہی لباس زیب تن کرتی ہیں جو ہمیں زیب نہ دیتا ہو۔
میں نے اپنے انتہائی معصوم و سادہ دوست شاہ جی سے ایک معصومانہ سوال کیا کہ مرشد ٹک ٹاک پر کیسے وائرل ہوا جاتا ہے۔شاہ جی نے شانِ بے نیازی (بے نیازی کو کسی نیازی سے نہ ملایا جائے )اور لاپروائی سے جواب دیا کہ فی زمانہ ٹک ٹاک ہی نہیں ہر جگہ وائرل ہونے کا ایک فارمولہ ہے۔میں نے متجسسانہ انداز میں پوچھا کہ مرشد وہ کیا۔فرمانے لگے۔’’جو دکھتی ہے وہ بکتی ہے‘‘یعنی جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے۔شاہ جی کے جواب پر سوال در سوال ذہن میں کود آیا کہ کیا اس فارمولہ کا اطلاق صنف نازک(جسے میں ہمیشہ صنف آہن کہتا ہوں)پر ہی ہوتا ہے یا صنف معکوس بھی اس زد میں آتے ہیں۔کہنے لگے فارمولہ تو وہی ہے بس الفاظ کے چنائو کو بدلنا ہوگا،یعنی۔۔۔۔۔یعنی مرد حضرات کے لئے الفاظ بدل کر ایسے ہو جائیں گے کہ ’’جو بَکتا ہے وہ بِکتا ہے‘‘
چین نے جب ٹک ٹاک ایپ متعارف کروائی تو اس کا مقصد سیلیکون شہر میں بیٹھ کر ایسی مختصر مدتی ،مختصر ویڈیو،مختصر لباس میں بنا کر پیش کرنا تھاکہ جو اپلوڈ ہوتے ہی وائرل ہو جائے،اور ایسا ہی ہوتا تھا۔اس لئے ہماری نوجوان نسل بھی چین کے نقش پا پر اپنے قدم جمائے ویسی ہی مختصر ویڈیو بناتے ہیں جو وائرل ہو جائے۔مجھے حیرت یہ نہیں کہ آج کی نسل سستی شہرت کے لئے ایسا کیوں کرتی ہے۔پریشانی یہ ہے کہ انہیں شہرت مل بھی جاتی ہے۔اب تو ٹک ٹاک بھی ایک حمام سا ہی دکھائی دیتا ہے ،وہ جس کے بارے میں اکثر سیاستدان بیان بازی کیا کرتے ہیں کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں۔اب تو ٹک ٹاک دیکھ کر بھی لگتا ہے کہ اس حمام میں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ویڈیو وائرل ہونے کے بارے میں ایک دوست کی بات یاد آگئی ،اس نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ یار ابھی تک...