جھوٹی قسم

 قسم کھانا آج کل ہمارے معاشرے میں بہت عام سی بات ہوگی ہے ، ہر دوسرا آدمی خاص طور پر دکاندار اپنی اشیاء بیچنے کیلیے قسم کھانا شروع کر دیتے ہیں ۔  “کہ بہن یہ کپڑا تو بہت اچھا ہے،  اللہ کی قسم رنگ تو ایک دم  پکا ہے بالکل نہیں اترے گا”۔ یہ بات تو تھی اس طبقے کی جو کہ عام لوگ کہلاتے ہیں اور اتنے تعلیم یافتہ بھی  نہیں ہوتے ۔ لیکن اب آتے ان پڑھے لکھے طبقے کے افراد کی طرف جو بہت ہی اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود جھوٹی قسم کا سہارا لینے سے نہیں گھبراتے۔  اب اسے کیا کہیں عادت یا فطرت ،یہ پڑھا لکھا طبقہ بھی بلاجھجک قسم کھانے سے گریز نہیں کرتا۔

کاش یہ جھوٹی قسم کھانے والے پہلے اس کی سزا کے بارے میں ایک بار پڑھ لیں۔ تو شاید یہ کبھی بھی قسم کھانے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ کچھ لوگوں کو تو  بات بات پر قسم کھانے کی عادت ہوتی ہے  اوروہ بلا جھجک اللہ کی قسم کھا لیتے ہیں، یہ گناہ ہے۔اللہ کی جھوٹی قسم کھانے والوں پر توبہ بھی لازمی ہے اور کفارہ بھی۔ کفارہ اس لیے لازم ہے کہ انھوں نے جھوٹی قسم کھائی اور توبہ اس لیے مانگنی چاہیے کیونکہ انھوں نے اللہ کے نام پر جھوٹی قسم کھائی۔

انسان قسم کا سہارا اس وقت لیتا ہے جب وہ اپنی کہی ہوئی بات پر یقین کرانا چاہ رہا ہو۔ جب وہ یہ ثابت کرنا چاہتا ہو کہ وہ سچ ہے۔ لوگ اب اپنا گھر بچانے کیلیے قرآن پاک کی جھوٹی قسم بھی کھا لیتے ہیں۔ قسم کھانے کا یہ معیار گواہوں کیلیے اور ان بے گناہ لوگوں کی وجہ سے رکھا گیا ہے جو اپنی صفائی میں کچھ کہنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ اپنی پاکیزگی کو ثابت کرنے کیلیے قسم کھاتے ہیں یا قسم کھانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

عدالت  میں گواہوں سے بیان لینے سے پہلے ان سے حلف اٹھوایا جاتا ہے۔ قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر کہ وہ جو کہیں گے سچ کہیں گے۔ قرآن کی قسم کھائی جاسکتی ہے اور یہ جائز عمل ہے عدالتوں میں یہی عمل کیا جاتا ہے۔

لیکن اللہ اور قرآن پاک کے سواہ کوئی قسم اٹھائی نہیں جاسکتی ہے۔اگر کوئی اٹھا بھی لے گا مثلاً نبی کی ، کسی شخص کی یا اولاد کی، ماں کی یا اپنی یا اپنی کوئی بھی محبوب ہستی کی تو وہ پڑے گی نہیں۔ اور اگر کسی نے اللہ کے سواہ کسی اور کی قسم کھائی تو اس نے شرک کے برابر کا گناہ  کیا کیونکہ اس نے قسم کھا کر اللہ کے برابر کسی کو لاکھڑا کیا۔

قسم کھانا ایک انتہائی نازک معاملہ ہے اور ہمارے یہاں لوگ اپنی لاعلمی کےسبب ایسے بہت ہی معمولی بات سمجھتے ہیں۔اور بہت ہی چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر قسم کھاتے ہیں۔ قسم کو کھیل نہ سمجھا جاے۔ قسم کھانا اس وقت جائز ہے، جب کسی کا گھر بچانا ہو یا کوئی ایسا معاملہ ہو جس میں قسم  کھائے بغیر گزارا نہ ہو تو ایسی قسم کھائی جاسکتی ہے۔

مجبوری میں یا کسی بھی پریشر اور زور زبردستی  میں آکر جو قسم کھائی جاتی ہے، اس پر پکڑ نہیں ہے۔ اور جو قسم ان شاء اللہ کہہ کر کھائی جائے تو اس پر بھی پکڑ نہیں ہے۔ کیونکہ ایسی قسم سچیوشن سے تعلق رکھتی ہے کہ حالات کیسے ہیں ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ  جس نےقسم اٹھا لی اور کہا ان شاء اللہ ، ان شاء اللہ کہہ دیا اور اسے پورا نہ کر سکا تو وہ قسم توڑنے والا نہیں ہوگا۔ یعنی اس نے یہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا۔

 ایک قسم موجودہ حالات اور دوسری مستقبل سے تعلق رکھتی ہے، کہ اللہ کی قسم کہ آئندہ میں یہ کام نہیں کروں گا۔ایسی قسم کے بارے میں آپﷺ نے فرمایا ہے کہ قسم پوری کرو۔ اگر کسی کام میں قسم کھانے سے بہتری ہے تو ایسی قسم کو پورا کیا جائے۔ اور اگر وہ قسم کسی خلاف شریعت بات کی طرف ہو تو اسے توڑ دینا بہتر ہے پھر اسکا کفارہ ادا کیا جائے۔

قسم کھا کر توڑنے کے بعد جو کفارہ ادا کیا جاتا ہے اسکی تین صورتیں بیان کی گئی ہیں۔ اس میں ایک غلام آزاد کرانا،یا دس مساکین کو پیٹ بھر کر دو ٹائم کھانا کھلانا ، انھیں افراد کو جنہیں صبح کھلایا ہو یا دس مساکین کو اوسط درجہ کا کپڑا پہنانا۔اگر یہ نہ ہوصدقہ فطر جو عید پر دیا جاتا ہے اسکے حساب سےدس افراد کے دو وقت کے کھانے کے  پیسے تین افراد میں تقسیم کردیے جائیں۔

اب یہ بات ہمارے معاشرے کے لوگوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے، کہ قسم کا معاملہ کتنا نازک اور حساس ہے اسی لیے اسے کھانے سے جہاں تک بچا جاسکتا ہو گریز کیا جائے۔ کیونکہ اسکی اللہ کہ یہاں سخت پکڑ ہے۔ “حضرت ابو امامہ ایاس بن ثلبہ حارثی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنی جھوٹی قسم کے ذریعے سے کسی مسلمان کا حق لے لے تو جنت اس پر حرام کر دیتا ہے،ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ چاہے وہ تھوڑی چیز ہو؟ آپﷺ نے فرمایا چاہے وہ پیلو کی درخت کی ایک شاخ ہی ہو”۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں