کیا ہم آزاد قوم ہیں؟

اے سرزمین تیری عظمت کو سلام ، تیرے  دلیر جواں سال نوجوانوں کو سلام ، اس دھرتی پہ جاں نثار کرنے والوں تمہاری قربانیوں پہ سلام، اے عظیم جاں نثاروں کی ماں تم پر سلام ، اے خداے ذولجلال تیری اس عطا پہ لاکھوں  شکر وسجود  جو تو نے نوازا اس پاک سر زمین سے ، ترقی  کر دے منزل مقدر اس سر زمین کو، جو لے جائے شاہین کو بلندیوں کی پرواز تک، 23 مارچ 1940 یہ وہ دن تھا جس دن دو قومی نظریہ کی بنیاد کو تقویت ملی اور باقاعدہ طور پر دو قومی نظریہ وجود میں آیا ۔

کیا آج بھی یہ دو قومی نظریہ زندہ ہے ؟ کیا آج بھی یہ نظریہ ہماری ثقافت میں موجود ہے؟

کیا واقعی یہ دو قومی نظریہ  بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ   رخصت ہوگیا ؟ کیا آج بھی ہم میں اوران میں یہ نظریہ کا فرق باقی ہے؟ یا ان دونوں ملکوں کا کلچر آج بھی ایک جیسا ہے، کیا اب بھی ہم ان کی روایات کو اپنے تہذیب و تمدن سے نہ نکال سکے؟ اور ان کا کلچر ہمارے ڈراموں، ہماری فلموں اور ہمارے رسم و رواج ، ہماری روایات میں نظر آتا ہے ، جیسے یہ ہماری رگوں میں خوں کی طرح رستا ہو۔

دو قومی نظریہ مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔ یہ ایک ساتھ رہ کر بھی کبھی  ایک جیسی نہیں ہوسکتی ، اتنا عرصہ ایک ساتھ رہنے کے باوجود یہ ایک دوسرے میں نہ ڈھل سکی تو آج کیوں ہم میں اب  بھی  یہ روایات باقی ہیں ۔ آج بھی ہم نا دانستہ طور پر ان کی روایات پر عمل کررہے ہیں ۔ بلکہ اس طرح سے ایڈپ کررہے ہیں، جیسے یہ ہماری ثقافت کا حصہ ہوں ۔ کیا ان سے الگ ہو کر بھی ہم ان جیسے ہیں ؟ ہم ایک نہیں ہیں،ہم ایک الگ تہذیب وثقافت رکھتے ہیں ،کیونکہ ہمارا مذہب الگ ہے، اسی لیے ہماری رویات، ہمارے رسم ورواج الگ ہے، سب کچھ الگ ہے لیکن ہم ان سے الگ ملک حاصل کرنے کے باوجود  ان کی رسموں کو اپناۓ ہوے ہیں۔

کیا یہ علیحدہ مملکت ہی  حاصل کرنا ہمارا مقصد تھا، نہیں ہمارا مقصد صرف زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنا نہیں تھا۔ بلکہ ایک ایسا ملک بنانا، جہاں ہم اپنے مذہب، اپنی رویات اوراپنے رسم ورواج کو کھل کر آزادی کے ساتھ اپنا سکیں، آزادی کے ساتھ ان کی تقلید و تبلیغ کر سکیں۔ لیکن ان لوگوں نے اپنے میڈیا کے ذریعے ہماری نوجوان نسل کے ذہنوں کو یرغمال بنا رکھا ہے، کہ آج ہم آزاد ہوکر بھی انکی تقلید کرتے ہیں،اور شرم کا مقام تو یہ ہے، کہ اسلام کے نام پر حاصل کیے جانے والے ملک میں ہی اسلام کی تبلیغ سب سے زیادہ مشکل بنا دی گی ہے، اپنے ہی لوگ شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں ،جس مذہب پر عمل کرنے کیلیے ہم نے یہ وطن حاصل کیا آج ہم اس ہی سے بہت دور نظر آتے ہیں، اپنے مذہب کی پیروی کرنے کو ہی  شرمندگی کا باعث سمجھتے ہیں۔ان لوگوں کو کم تر سمجھتے ہیں جو اپنے دین پر عمل کرتے ہیں۔

 انھوں نے ہم میں اس سوچ کو پروان چڑھایا جس سے نجات کیلیے ہم نے وطن حاصل کیا تھا ۔ کسی نے سہی کہا ہے کہ اگر کسی قوم کو برباد کرنا چاہتے ہو تو اس کی نوجوان نسل کو تباہ کردو، وہ قوم خود بخود برباد ہوجائیگی اور کسی بھی نسل کو تباہ کرنا ہو تو ایسے بے حیا کردو اور انھوں نے یہی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے، جو آج ہمارا معاشرہ بے راہروی کا شکار ہے۔

ہم ایک ہیں  لیکن کیا یہ سچ ہے ، کیا ہمیں صرف جنگ اوربرے ملکی حالات ہی ایک کردیتے ہیں۔ جب حالات صحیح ہوجاہیں گے، تو پھر ہم ویسے ہی ہوجاہیں گے۔ ان ہی ملکوں کی فلمیں ،ڈرامے،کھیل ایسے دیکھیں گے جیسے کچھ  ہوا ہی نہیں تھا۔ کسی نے ہم پر حملہ کیا تھا غیرت جگائی تھی لیکن افسوس یہ غیرت پھر سے سو گئی۔آخر کب تک، انھوں نے ہماری جڑیں ہی کمزور کردی ہیں ۔ ہماری بنیاد جو ایک اللہ ایک رسول پر ہے ایک مذہب پر ہے وہ ہلا دی ہے۔

   آج ہمیں اس دو قومی نظریے کو پھر سے زندہ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اپنی تہذیب، اپنی ثقافت ، اپنے رسم و رواج  کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنے آپ کو اس قابل بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ دنیا ہماری تقلید کرے ، نہ کہ ہم اس دنیا کی۔

حصہ

جواب چھوڑ دیں