قلم کے آنسو

’’مسلمان ایک جسم کے ماند ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو جسم کے دوسرے حصے اس تکلیف کو برابر محسوس کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات شاید کہنے کی حد تک رہ گئی۔ جب معاملہ ہماری عملی زندگی کا آیا تو ہمیں یہ بات بھول گئی۔ مسلم تو مسلم ہوتا ہے وہ چاہیے فلسطین کا ہو یا کشمیر کا، افغانستان کا ہو یا پھر شام، مصر، عراق ، یورپ کا یا پھر ایشیاء کا کیا فرق پڑتا ہے تکلیف تو تمام جگہ یکساں ہی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہ تکلیف بہت شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ رواں ہفتہ امت مسلمہ کے لیے جس قدر تکلیف دہ رہا اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ اس تکلیف میں ٹرائیکا کا کردار بہت اہم ہے۔ یہ ٹرائیکا ہمیشہ ہی امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے کے لیے متحد اور تیار رہا ہے۔ یہ بات بھی اسی ہفتے ثابت ہوگئی کہ یہودی، عیسائی اور ہندو اسلام کو برداشت نہیں کرسکتے۔
30 اپریل 2018ء کو فلسطین پر اسرائیل نے بمباری کردی، 15 نہتے، معصوم اور کمزور شہریوں کی لاشیں بچھادی گئیں۔ 1400 سے زائد زخمی ہوئے۔ جن کی اگلے روز تعداد ڈبل ہوگئی۔ 1 اپریل 2018ء ہندو نے سر اٹھایا، کشمیر میں سرعام گولیاں برسادی گئیں۔ تڑتڑاہٹ کی آوازیں سرحد پارتک سنائی دیں۔20 معصوم جانیں خاک و خون میں تڑپا دی گئیں۔ 2اپریل 2018ء یہودیوں اور ہندؤں کے بعد نصاریٰ کی کمی رہ گئی تھی۔ امریکا نے بھی افغانستان پر حملہ کردیا۔ ایک دینی مدرسے پر حملہ کیا گیا۔ حملے میں معصوم بچے آسمانی کتاب ،القرآن الکریم کی تکمیل پر دستاربندی کے لیے موجود تھے۔ حملے میں 101 معصوم کلیاں مسل دی گئیں، 150 اموات ہوئیں۔200 سے زائد زخمی ہوئے۔
صرف 3روز میں امت مسلمہ پر ایسے ایسے وار کیے گئے کہ روح تک کانپ اٹھی۔ دل دہل گیا۔ مگر حیرت کہ کسی بھی انسانی حقوق کی تنظیم کو محسوس تک نہیں ہوا۔ امت مسلمہ کی تکلیف شاید بین الاقوامی مسئلہ تھا ہی نہیں۔ دو روز بیت گئے۔ پھر کہیں تکلیف کی ٹھیس محسوس ہونا شروع ہوئی۔ سوشل میڈیا پر کچھ درد دل رکھنے والوں نے صدائے احتجاج بلند کیا۔ کچھ نے حمایت کرتے ہوئے احتجاج کا سہارا بھی لیا۔ میڈیا کو جگایا گیا۔ میڈیا نے بھی کہیں جزوی تو کہیں کلی اپنا کردار ادا کیا۔
پھر بھی شاید کمی رہ گئی، جہاں کچھ لوگ اس مسئلے پر احتجاج کررہے تھے وہی کچھ اپنی ذاتی مصروفیات میں غرق تھے۔ کس قدر حیرت کی بات تھی کہ پوری دنیا عالم اسلام پر بھیڑیے کی طرح حملہ آور ہے اور ہم کھیل تماشوں میں گم ہیں۔ پورا پاکستان میچ دیکھنے میں وقت ضائع کررہا تھا جب دشمن کشمیر پر حملہ آور تھا۔ کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر آخر کب تک چلا جاسکتا ہے۔ ہمارے پڑوس میں ہم پر نشتر چلتے ہیں اور ہم انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں پر پھولے نہیں سماتے۔ قبلہ اول کی حرمت کو پامال کیا جاتا ہے اور ہماری ہنسی رکنے کا نام نہیں لیتی۔ یہ جذباتی باتیں ضرور ہیں مگر حقیقت بھی کہ آیا ہم اپنے فرائض منصبی درست انداز سے سر انجام دے رہے ہیں یا نہیں۔
امت مسلمہ کے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کو ان زاویوں سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ایک تو حکومت کو امت کا درد سمجھتے ہوئے ریاستی سطح پر کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے سفارت کاری کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی فورمز پر بھرپور احتجاج کیا جانا چاہیے۔ ممالک سے اتحاد کرکے منظم مہم کے ذریعے ایسے واقعات کے سدباب کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہئیں۔ جب ایک بات طے ہے کہ دنیا میں کسی بھی معصوم اور بے گناہ کا قتل انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے تو اس کے لیے سب کو ہی احتجاج کا حق ہے۔ نہ صرف احتجاج کا حق ہے بلکہ اس پر عملی اقدامات کروانے کا بھی مکمل حق ہے۔ وہ چاہیے اقوام متحدہ کے ذریعے ہو یا پھر کسی دوسرے اتحاد کے ذریعے۔ اس کے لیے حکومتی سنجیدگی دور دور تک بھی نظر نہیں آرہی۔ اسے یقیناً بے حسی کی انتہا ہی کہا جائے گا۔
ہماری بے حسی کی انتہا تو یہ ہے کہ ہم دیگر ممالک کے حقوق کے لیے کیا بات کریں گے کشمیر کہ جو طے شدہ پاکستان کا حصہ ہے اس کے لیے بنائی گئی کمیٹی تک فعال نہیں۔ کشمیر کمیٹی کو تو گویا پتا ہی نہیں کہ کشمیر میں اموات ہورہی ہیں۔کشمیر کے مظالم پر پاکستان کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا مذاق ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ لاشیں گرتی رہتی ہیں اور ان کے قہقہے بلند ہوتے رہتے ہیں۔ میڈیا پر چلنے والی خبروں کے تناظر میں مولانا فضل الرحمن کو کمیٹی کا چیئرمین منتخب کیا گیا۔ چار برسوں کے دوران موصوف نے چار اجلاس کیے جس میں وہ خود تھے ہی نہیں۔
کسی بھی چیز کے اچھے برے یا اسے اجاگر کرنے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ امت مسلمہ کے حوالے سے عالمی میڈیا کی بے حسی پر بات کرنا شاید بڑی بات ہوگی یہاں تو اپنا میڈیا ہی منافقت کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ میڈیا اپنا کردار ادا کر تو رہا ہے مگر شاید پھر بھی کمی رہ گئی ہے۔ افغانستان کے مدرسے پر حملہ ہوا مگر الیکٹرانک میڈیا اس پر خاموش رہا۔ ناجانے کیا مصلحت تھی کہ کوئی بولنے کی جرات نہیں کرپایا۔ ایسے میڈیا کو یک طرفہ کہا جائے گا نہ غیر جانب دار۔ جس میڈیا کو 150اموات محسوس تک نہیں ہوں اس پر کیا کہا جائے؟۔ تیسری جگہ عوام ہیں۔ عوام تو گویا حکمرانوں کے آرڈر لینے کے لیے بنے ہیں۔ ایسے میں عوام کیا کرسکتے ہیں۔
ایسے میں جہاں حکومتیں خاموش ہیں وہاں عوام کی آواز کوئی معنی نہیں رکھتی مگر پھر بھی ایک عذر کے طور پر ہمیں صدائے احتجاج بلند کرنا چاہیے۔ یہ وہ عذر ہے کہ جو روز محشر ہمیں پیش کرنا ہوگا۔ اس کا جواب دینا ہوگا کہ ہم سے جو کچھ ہو پایا کیا ہم نے وہ کیا تھا یا نہیں۔ کمزور مومن کی مثال ہے کہ جب اسے کچھ برا دیکھائی دے تو وہ یا تو روکے اگر نہیں روک سکتا تو کم از کم اس کے خلاف آواز ضرور بلند کرے اور کمزور ترین ایمان کا حصہ یہ ہے کہ وہ بس دل میں برا سمجھے اور آنکھیں بند کرلے۔ اس لیے ضروری ہے کہ تمام مسلم متحد ہوں اور جہاں جہاں وہ ہیں آواز بلند کریں۔
سوشل میڈیا پر جو مسلم کشی کے خلاف صدا بلند کرسکتے ہیں لازمی اس مہم کا حصہ بنیں۔ ایسے میں سوشل میڈیا پر جاری کچھ چھوٹے بڑے گروپس جیسا کہ ’’رائٹرز کلب‘‘ ہے مہم چلا رہے ہیں ان کا ساتھ دیا جاسکتا ہے۔ اپنے قلم سے بھی اس آواز کو اٹھایا جاسکتا ہے۔ اگر آپ گرافکس جانتے ہیں تو اس پر پوسٹس بنا کر مہم کا حصہ بنا جاسکتا۔ کچھ نہیں کرتے تو کم از کم احتجاجی مظاہرے کیے جارہے ہیں ان میں شامل ہو کر اس آواز کا حصہ بنا جاسکتا ہے۔ آنے والوں دنوں میں احتجاج کی کال دی گئی ہے اس میں شامل ہوں، الغرض خود کو کم نہیں سمجھیں اور نہ خود کو پیچھے رکھیں۔ یاد رکھیں آپ ایک مسلمان ہیں اور اس ناطے آپ کا فرض اور ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ اپنے مسلم بہن بھائیوں پر ہونے والے مظالم کیخلاف آواز بلند کریں۔ اگر آپ خاموش رہے تھے تو کل قیامت کے روز آپ کو اس کا جواب ضرور دینا ہوگا۔

حصہ
mm
عارف رمضان جتوئی روزنامہ جسارت میں نیوز سب ایڈیٹر اور نیوز کلیکشن انچارج ہیں ،مضمون و کالم نگاری بھی کرتے ہیں،مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔۔کراچی اپڈیٹس ڈاٹ کام کے بلاگ اور میگزین ایڈیٹر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں