وا رے بے حسی

سڑک کنارے بوڑھا اور بڑھیا ایک ہاتھ میں لاٹھی اور دوسرے میں چھوٹی چھوٹی گٹھڑیاں بوسیدہ سے لباس میں چلتے جا رہے تھے۔ کچی سڑک پر چلتے ہوئے کبھی دھکا کھا کر گرنے لگتے تو ایک دوسرے کے سہارے پر پھر سنبھل جاتے۔ ایک دوسرے کو سہارا دیتے ہوئے گرتے سنبھلتے مسلسل چل رہے تھے۔ پھر انہیں بھوک نے ستایا تو ایک کھیت میں سایہ ڈھونڈ کر مختصر سے سامان سے روٹی کے چند ٹکڑے نکالے اور کھانے بیٹھ گئے۔ اپنی خستہ حالت دیکھ کر بڑھی اماں کی آنکھوں سے آنسو امڈ آئے۔ مگر کمزور جسم بوڑھے نے ان کا حوصلہ بڑھایا کہ روئیں نہیں بلکہ ہمت سے کام لیں، اور پھر وہ بھی خاموش ایک طرف کو تکنے لگا۔ شاید وہ بھی یہ سوچ رہا تھا کہ ہمت سے کام کیسے لیں اب تو سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔
محمد اسلام اور ان کی شریک حیات خیراں کی شادی فیصل آباد کے ایک نواحی گاؤں میں بڑے دھوم دھام سے ہوئی۔ شادی کے بعد اﷲ نے دونوں کو چاند جیسے چار بچوں سے نوازا۔ گھر میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ محمد اسلام نے بیوی کے کہنے اور اپنی خواہشات سے مجبور ہوکر بڑے بیٹے اور بیٹی کو اسکول پڑھنے کے لیے چھوڑ آئے۔ پرائمری اور پھر ہائی کلاسوں کے بعد بچوں نے ضد کی کہ وہ اب شہر کے کالج یا پھر کسی اچھی سی یونیورسٹی میں اپنی تعلیم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ تعلیم کا شوق دل میں لیے کسان اور مزدور محمد اسلام نے انہیں اجازت دی اور پھر خود باقی اولاد کے ساتھ مل کر سخت محنت مشقت کرتے ہوئے ان کی فیسوں اور بھاری اخراجات کو ادا کرنے لگے۔
رفتہ رفتہ وہ تعلیم مکمل کرنے لگے مگر محمد اسلام اور ان کی اہلیہ خیراں اب بہت بوڑھے ہوچکے تھے۔ اب ان میں سکت نہیں رہی تھی کہ وہ مزید محنت کر سکیں۔ اب تو دونوں بیمار بھی رہنے لگے تھے۔ دونوں بچوں کی تعلیم مکمل ہوگئی اور پھر ان کی شادیاں بھی کردی گئیں۔ چاروں کی شادیاں بھی محمد اسلام نے اپنی محنت سے کرائیں ۔ بیماری اس قدر بڑھ گئی تھی کہ اب مزید ان کے لیے گھر سے باہر جاکر کھیتوں میں کام کرنا بہت مشکل ہوگیا تھا۔ اس لیے اب چارپائی سے دل لگا بیٹھے تھے۔
دوسری جانب بچے جو کہ اب بڑے ہوکر کڑیل جوان ہوچکے تھے ان کو ماں اور باپ گراں گزرنے لگے تھے۔ جس کی وجہ سے اب ایک دوسرے پر اور دوسرا تیسرے پر ماں باپ کی خدمت کا حق جتانے لگا۔ یہ صورت حال ایسی تھی جس نے ان دونوں کو مزید پریشان کردیا، اور ایک وقت آیا کہ ان دونوں کو کوئی بھی اپنے گھر پر رکھنے کے لیے آمادہ نہیں تھا۔ نا چاہتے ہوئے بھی ان دونوں کو گھر سے جانا پڑا۔ محمد اسلام اور خیراں جو کہ اب بوڑھے ہوچکے تھے، لاٹھی ٹیکتے، گرتے پڑتے درخت کے سائے کے نیچے زندگی کے تلخیوں کا سامنا کر رہے تھے۔
مزدور طبقہ ماں باپ اپنے زندگی بھر کی کمائی اپنے بچوں پر نچھاور کر کے ان کے ہر سکھ کا خیال رکھتے ہیں مگر جب وہ بچے ناتواں سے توانا ہو جاتے ہیں تو پھر اس قسم کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ لاہور کے ایک مخلوط میوزک شو میں یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات جلتی بجھتی لائٹوں میں رقص کناں تھے۔ عجیب صورت حال تھی کہ کون کس کو کہاں چھوڑ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے، کسی کو اپنی اس حالت پر شاید کوئی اعتراض بھی نہیں تھا۔ میری آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ کیا یہ وہیں لوگ ہیں جن کے والدین نے اتنی مشقت اور مشکلات کے بعد ان کو پڑھنے کے لئے یہاں بھیجا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ہو نہ ہو بوڑھے محمد اسلام اور ان کی اہلیہ کو یوں گھر سے نکلنے پر مجبور شاید رقص و سرور کی ان مخلوط محافل میں آئے ثبوتوں کو مغربی ثقافت نے کیا ہے۔
وہاں بھی یہیں کچھ ہوتا ہے اور یہاں بھی اس کے مناظر دیکھے جاتے ہیں، وہاں بھی کتوں کو پاس سلایا جاتا ہے جبکہ والدین اولڈ ہوم یا پھر سڑکوں پر نظر آتے ہیں تو یہاں بھی کچھ ایسے نظر آنے لگا ہے۔ ہماری تہذیب، ہمارا کلچر اور ثقافت ہمیں والدین کی عزت کرنے کا حکم دیتی ہے۔ ہمارا مذہب ہمیں بد بخت قرار دیتا ہے کہ اگر ہمارے والدین بوڑھاپے میں پہنچ جائیں اور ہم ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کرپائیں۔ ماں کے قدموں کو جنت قرار دے دیا۔
میں نے یہ منظر کتنی با ردیکھا کہ جب شام کے سائے لمبے ہونے لگتے ہیں تو والدہ اکثر دروازے پر کھڑی اپنی اولاد کو خیر مقدم کر رہی ہوتیں ہیں۔ بے قرار سی بے چین سے ماں کے اکثر فون آتے ہیں کہ میرا بیٹا پانچ لیٹ ہوگیا ہے کہ کیا آپ کو معلوم ہے وہ کہاں ہے․․․․․․؟ نمبر کیوں بند ہے․․․․․؟ وغیرہ وغیرہ۔
مگر ایک طرف محمد اسلام اور خیراں ہیں جو اب بھیک مانگیں گے، رلتے رہیں گے اور در در بھٹکتے پھریں گے جبکہ دوسری جانب ان کی اولادیں جن کے نخرے پورے کرنے کے لئے انہوں نے ناجانے کتنے جتن کیے ہیں۔
اے بد بخت اولاد کیا تو اپنی ماں کی اس رات کو بھول گیا جب اس نے تمہیں پیدا کیا۔ درد کی وہ رات زندگی میں اس نے پہلے کبھی نہیں سہی تھی۔ جب پوری رات تیرے والد نے آنکھوں پر کاٹ کر اسپتال کی تنگ سی کرسی پر گزاری تھی۔ کیوں بھول گیا جب تو گرتا تھا تو تیرا والد وہ سب کچھ تیری ماں کو کہہ دیتا تھا جو اس نے آج تک نہیں کہا ہوتا کہ تم نے اس کو سنبھالا کیوں نہیں اور وہ تیری ماں کہ جو تڑپ جایا کرتی تھی اور خود کو برا بھلا کہنا شروع کردیتی تھی کہ میں نے ایسا کیوں کیا کہ میرے بچے کو تکلیف پہنچی۔
ہم سوچیں! کہیں ہم اپنے والدین کو تکلیف تو نہیں پہنچا رہے۔ ہم سے ہمارے والدین نا خوش ہیں۔ کہیں خیراں اور محمد اسلام ہمارے اپنے گھروں میں تو نہیں رہتے۔ بس تھوڑی سی توجہ کریں وہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں۔ اب ان کی عقل کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے۔ اب ان کی سوچ بچوں کی طرح ہورہی ہے، وہ اسی طرح ضد بھی کریں گے۔ وہ آپ کو تنگ بھی کریں گے مگر ان کے تنگ کرنے میں بھی ایک محبت ہوگی تو خدارا اپنے والدین کو وہ عزت دیں جو انہوں نے تمہیں پوری زندگی دی۔ اگر کہیں کوئی والدین سے غلطی ہوگئی ہے اور وہ بھولے سے کچھ کر بیٹھے ہیں تو اس رات کو یاد کر کے جب تو پیدا ہوا تھا وہ درد کی رات بھی تو تیرے والدین نے صرف تیری لیے کاٹی تھی۔ خود سے وعدہ کریں کہ ہم کبھی اپنے والدین کو محمد اسلام اور خیراں نہیں بننے دیں گے اور نہ ہی ہم ان کی بد بخت اولادوں کی جگہ پر خود لائیں گے۔

 

حصہ
mm
عارف رمضان جتوئی روزنامہ جسارت میں نیوز سب ایڈیٹر اور نیوز کلیکشن انچارج ہیں ،مضمون و کالم نگاری بھی کرتے ہیں،مختلف رسائل و جرائد میں ان کے مضامین شایع ہوتے رہتے ہیں۔۔کراچی اپڈیٹس ڈاٹ کام کے بلاگ اور میگزین ایڈیٹر بھی ہیں۔

جواب چھوڑ دیں