یوم عاشور کا اصل پیغام

1332

آج یوم عاشور ہے۔ دس محرم الحرام کو کربلا میں ہمارے پیارے نبیؐ کے نواسے حضرت امام حسینؓ کو شہید کردیا گیا۔ اس واقعے کی یاد ہم ہر سال مناتے ہیں۔ اس بات سے قطع نظر کہ شہادت کی یاد منائی جائے یا شہادت کا غم منایا جائے۔ یہ بات زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ حضرت امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے اہلخانہ کی جان کیوں پیش کردی۔ کس بات پر وہ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ انہوں نے کیا محسوس کیا تھا۔ امام حسینؓ کی یاد مناتے ہوئے ہمیں یہ مقصد بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ سید مودودیؒ نے اس حوالے سے لکھا ہے کہ امام عالی مقام اقتدار کے لیے اپنے استحقاق کا دعویٰ لے کر نہیں گئے تھے بلکہ امام کی مستقبل بین نگاہیں مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور نظام میں کسی بڑے تغیر کو آتا دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک بہت ضروری تھا۔ تو پھر ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے، آج امام کی یاد مناتے ہوئے ان کے قتل کا غم منا کر قاتلوں کو بُرا کہہ کر شام کو گھروں کو واپس آجائیں، اگلے روز سے پھر اسی نظام کے تحت کام کرنے لگیں جس کے خلاف امام نکلے تھے، اپنی اور گھر والوں کی جان نثار کردی تھی۔ آج کل کے مسلمانوں کی یہ مشکل ہے کہ وہ دین کی اصل کو بھول کر افراد اور رہنمائوں کی یاد منانے، ان کی تعریفوں کے پل باندھنے میں مسابقت کرتے ہیں لیکن اس مقصد کی خاطر جدوجہد نہیں کرتے جس کی خاطر ہمارے اکابر اور اسلاف نے جانیں قربان کردیں۔ امام عالی مقام نے اسلام کے سیاسی نظام میں بنیادی خرابی خاندانی بادشاہت کو روکنے اور اسے غلط ثابت کرنے کے لیے قربانی دی۔ امام حسینؓ کی قربانی نے رہتی دنیا تک حق و باطل میں فرق کردیا ہے۔ اب کوئی خاندانی بادشاہت کو درست نہیں کہتا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسی خاندانی بادشاہت کے ماتحت زندگی گزار رہی ہے۔ مزید افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی جماعتیں جو دین کے احیا، انقلاب اور امام کے مشن کی دعویدار ہیں ان میں بھی خاندانی اور موروثی قیادت کی بیماری در آئی۔ جس کے نتیجے میں وہ اپنے اصل مقصد سے ہٹ گئیں۔ دینی جماعتوں میں یہ بیماری بڑے پیمانے پر نظر آئی۔ جس کی وجہ سے ان جماعتوں میں اکابر کا وقت اپنی قیادت بچاتے اور اپنی مرضی کا قائد لانے کی جدوجہد میں گزرتا ہے جب کہ اب تک اللہ کی رحمت سے صرف جماعت اسلامی ہے جس کے کسی امیر کے بیٹے، بھتیجے، بھانجے کو امیر بنانے کی کبھی کوشش بھی نہ کی گئی۔ ان سے باتوں کے باوجود پوری امت کے لیے عاشورہ محرم کا پیغام یہی ہے کہ جس نظام کی تبدیلی کو روکنے کے لیے امام حسینؓ نے قربانی دی تھی۔ آج کل وہ نظام پوری امت پر مسلط ہے اس کو ختم کرکے وہ نظام قائم کرنے کی جدوجہد کریں جس کو اما حسینؓ بچانا اور نافذ رکھنا چاہتے تھے۔ استعداد زمانہ نے زمام کار سے دینی قیادتوں کو مکمل بے دخل کردیا ہے اور جو سیاسی جماعتیں پاکستان میں اقتدار میں آتی رہتی ہیں وہ اس نظام کا پونو ہیں جو یزید کی صورت میں قائم ہونے جارہا تھا۔ امام عالی مقام نے تو گھر سے نکل کر قربانی سے ثابت کردیا کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے اب ہمارا امتحان ہے جو باطل قوتیں امت مسلمہ کے اقتدار پر قابض ہیں ان سے زمام کام چھین کر مومنین اور صالحین کے ہاتھ میں دے دی جائے۔ اس کام کے لیے سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ دیگر وہ جماعتیں جو اس مشن کو حق سمجھتی ہیں سب مل کر یا الگ الگ اس راستے میں جدوجہد کریں۔ ایک دوسرے کی مددگار بنیں اور رائج الوقت طریقوں کو اختیار کریں۔ امام نے بھی ہتھیار نہیں اٹھائے تھے بلکہ وہ بغیر ہتھیار اٹھائے یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوئے تھے کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا۔ اب دین کے علمبرداروں اور تبدیلی کے خواہشمندوں پر دوہری ذمے داری ہے، انہیں پہلے باطل نظام کے پرستاروں کو اقتدار سے بے دخل کرنا ہوگا پھر اسلام کا حقیقی نظام رائج کرنا ہوگا، اگر اب تک اس نہج پر منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے تو اب کرلی جائے لیکن تبدیلی اور نجات کا راستہ بھی یہی ہے۔ امام کی تعریفوں، ان کے مرثیے، ان کی یاد میں محفلیں سجا کر ہم اللہ کے سامنے سرخرو نہیں ہوسکتے بلکہ اللہ کے سامنے سرخرو ہونے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ ہم اس نظام کے لیے جدوجہد کریں جس کو بچانے کے لیے امام نے جان دے دی۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہماری کامیابی یقینی نہیں صرف جانیں جائیں گی۔ تو اس مقصد کی خاطر جان جانے دیں۔ لیکن کفر کے نظام کے ماتحت زندگی گزار کر بھی جان ایک نہ ایک دن تو جائے گی۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ امام کی یاد منانے کے لیے پورے شہر بند کردیے جاتے ہیں، راستے بند کرنے سے امام کی یاد تو آتی ہے کیوں کہ راستہ تو امام کا بھی روکا گیا تھا۔ حکومت وقت اور شہری انتظامیہ کو اس حوالے سے خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ ایک اور بات یہ کہ شہری انتظامیہ 9 اور خصوصاً 10 محرم کو رات کے وقت پورے پورے شہر کی اسٹریٹ لائٹس بند کرکے شہر میں کربلا کا سا اندھیرا کردیتی ہے۔ اس سے بھی امام کی یاد آتی ہے، ان کی 9 اور 10 محرم کی راتیں اندھیرے میں گزریں تو یہ اندھیرا کرنے والے کس کی سنت پر عمل کرتے ہیں۔ امام حسین کا سبق یاد کریں اس کی پیروی کریں آخرت کی فلاح تو یقینی ہے۔