عمران خان صوبائی خود مختاری تو دیں

635

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ کراچی کا مسئلہ بلدیاتی خود مختاری تک حل نہیں ہو گا ۔اس اعلان کا مطلب اہل کراچی بلکہ تمام اہل وطن اچھی طرح سمجھتے ہیں ۔اس کا یہی مطلب ہے کہ کراچی کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور ان دونوں سے نکل کر پی ٹی آئی میں آنے والے تمام سیاستدان وہی لوگ ہیں جو کسی کو کسی قسم کی خود مختاری دینے کو تیا رنہیں کیونکہ وہ خود بھی خود مختار نہیں ہوتے کسی کے مرہون منت ہوتے ہیں لہٰذا وہ خود مختاری کسی کو نہیں دے سکتے ۔ پیپلز پارٹی صوبائی خود مختاری کی دعویدار ہے لیکن ذوالفقار علی بھٹو ، بے نظیر بھٹو کے دو ادوار ، آصف زرداری کا ایک دور براہ راست پیپلز پارٹی کے ادوار تھے جبکہ جنرل پرویز مشرف کی ق لیگ کو پیپلز پارٹی کے دس منتخب ارکان اور کئی لوٹوں کا تحفہ الگ ملا تھا ۔ لیکن انہوں نے صوبائی سمیت کسی قسم کی خود مختاری کسی بھی سطح پر نہیں دی۔ البتہ ہر فوجی آمر کو جمہوریت کا چہرہ درکار ہوتا ہے تو جنرل پرویز مشرف نے بھی بلدیاتی نظام دیا اور اس کے ذریعے صرف ایک دور کے لیے بلدیات کو خود مختاری ملی ،اس حد تک ملی کہ لاہور ، کراچی اور پشاور کی بلدیات نے اپنے اپنے شہروں کی شکل بدل کررکھ دی ، نعمت اللہ خان کا نام پورے پاکستان بلکہ پوری دنیا میں ایک سند کا درجہ رکھتا ہے ۔ انہوں نے یہ خودمختاری حاصل کرنے کے لیے بہت جدو جہد بھی کی ۔اپنے دور کے ڈیڑھ سال تو مختلف ادارے کراچی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے حوالے کرانے یا ان کا کنٹرول حاصل کرنے میں لگائے اور جب وہ پانچ سال بعد گئے تو ایک خود مختار سٹی گورنمنٹ چھوڑ کر گئے لیکن ان کی جگہ جنرل پرویز نے اپنا پٹھو بٹھا دیا جو کسی صور ت خود مختارنہیں تھا ۔اسے اپنے لیڈر کی خواہشات بھی پوری کرنی تھیں اور لانے والوں کے مطالبات بھی ۔آج وہ خود کہہ رہے ہیں کہ صوبائی اور بلدیاتی حکومتوں نے کراچی کو تباہ کر دیا ۔ یہ تباہی ان کی پارٹی کی شراکت میں صوبائی حکومت نے اور بلا شرکت غیرے ان کی اپنی سٹی نظامت میں ہوئی ۔ آج اہل کراچی اسی تباہی کا سامنا کر رہے ہیں ۔ اب عمران خان نے کہا ہے کہ بلدیاتی خود مختاری تک کراچی کامسئلہ حل نہیں ہو گا۔ اس کے لیے انہیں پہلے صوبائی خود مختاری تو دینی ہو گی ۔ وہ صوبائی خود مختاری دینے کو تیار نہیں بلدیاتی خود مختاری کی بات کر رہے ہیں ۔ بلدیاتی خود مختاری دینے کے بجائے وہ کراچی کی بلدیہ پر قبضہ کرنے یا اس پر اختیار حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں ۔ غالباً پی ٹی آئی کے نزدیک ایسی بلدیہ کو خود مختاری دی جانی چاہیے جس پر ان کا کنٹرول ہو ۔ آج کل یہ کنٹرول حکومت سندھ کو حاصل ہے ۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے پورے ملک میں صرف لوٹ مار کرنے والوں کو مکمل خود مختاری اس شرط پر دی ہوئی ہے کہ لوٹ مار کے مال میں سے ان کا حصہ بھی ملتا رہے ۔ فی الوقت حکومت اور اپوزیشن نیب ترامیم کے مسئلے پر ایک دوسرے سے اُلجھے ہوئے ہیں اور مقصد نیب کی خود مختاری ختم کرنا ہے ۔ اگرچہ نیب اب بھی خود مختار ہے نہ آزاد ادارہ ۔صرف خود مختاری کی قیمت لینے بیٹھا ہے ۔ اپوزیشن نے35 ترامیم پیش کر دیں اور ایک خبر کے مطابق یہ70ترامیم ہیں جن کو حکومت نے نیب کے خاتمے کی تجاویز قرار دیا ہے اور حکومت نیب کے چیئر مین ،ڈپٹی چیئر مین اور پراسیکیوٹر کی مدت ملازمت میں توسیع چاہتی ہے یعنی دونوں طرف نیب یا ادارے کی خودمختاری کی خواہش نہیں ہے بلکہ ایک طرف پر قینچنے کی خواہش ہے تو دوسری طرف چیئر مین کو مستقل مسلط رکھنے کی کوشش ۔ ایسے میں عدالتیں کہاں ہیں جو گریڈ18 کے عام افسر کو دوبارہ مقرر کرنے پر سب کو طلب کر لیتی ہیں ۔ یہ تو پہلے سے ریٹائرڈ جج کو ایک دفعہ پھر ریٹائرہونے کے بعدمقرر کرنے کی کوشش ہے ۔ وزیر اعظم نے کراچی کے نالوں کے بارے میں رپورٹ بھی بنانے کی ہدایت کی ہے ۔ لیکن مسئلہ رپورٹ بنانے کا نہیں ہے ۔کراچی مسئلہ خود کراچی کے لوگ بھی ہیں ۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور دیگر ادارے پہلے بھی مداخلت کرتے تھے اور جب گرفت کمزور ہو جائے تو سرپر سوار ہو جاتے ہیں لیکن جب عوام نکل کر اپنے حقیقی نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں ان کے ووٹ بھی چوری نہیں ہونے دیتے تو پھر اسٹیبلشمنٹ ادارے اور حکومتوں کے اعصاب بھی جواب دے جاتے ہیں ۔پھر وہ اچھے بن کر تعاون کی راہ اختیار کرتے ہیں لیکن اس میں بھی سازشیں کرتے ہیں ۔کراچی کے لوگ اگر آنکھیں کھول کر دیکھیں ان کے کس مسئلے میں کون ان کے ساتھ اور کون ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے ۔ کے الیکٹرک کو پی ٹی آئی ، پیپلزپارٹی ، متحدہ اوراِ دھر اُدھر بکھری ہوئی ایم کیو ایم سب کی مدد حاصل ہے لیکن صرف جماعت اسلامی ان کے مسائل کے لیے میدان میں ہے ۔ ملک بھر میں وبائی صورتحال ہو یا سیلاب اور زلزلہ جماعت اسلامی ہی میدان میں نظرآئے گی ۔ واٹر بورڈ کا مسئلہ ہو یا پارکوں پر قبضہ اس کے خلاف بھی جماعت اسلامی نظر آئے گی ۔ اب تومیڈیا پر بھی نامعلوم کس طرح یہ اعتراف آگیا کہ بہتے اور ڈوبتے کراچی میں ریلیف کے لیے صرف الخدمت اور جماعت اسلامی کے کارکن نظر آئے ۔ کیا عوام کو یہ نظر نہیںآتا ۔