عدالتوں کے تبصرے، فیصلے کیوں نہیں؟

489

عدالتیں انتظامی معاملات میں بے تدبیری پر کڑی گرفت کر رہی ہیں اور تبصروں میں برہمی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن تبصرے فیصلے نہیں ہوتے اور ماضی میں بارہا یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ فیصلے تبصروں کے برعکس ہوتے ہیں، تاہم عوام ان تبصروں ہی پر خوش ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو عدالت عظمیٰ نے وزیر ریلوے شیخ رشید کے اس دعوے پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ریلوے میں مزید ایک لاکھ افراد بھرتی کیے جائیں گے۔ اگلے دن شیخ رشید نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک لاکھ کیا، ہم ڈیڑھ لاکھ افراد بھرتی کریں گے۔ یہ دعویٰ بالکل عمران خان کی نقل میں ہے کہ لاکھوں افراد کو نوکریاں دیں گے اور ان دو برسوں میں اس کے برعکس متعدد افراد کو بے روزگار کر دیا گیا اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اتنی ملازمتیں نکلیں گی کہ لوگ کم پڑ جائیں گے، باہر سے لوگوں کو لانا پڑے گا۔ کہاں گئیں وہ نوکریاں؟ عمران کے درباریوں نے تاویل پیش کی کہ عمران خان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ نوکریاں نجی ادارے دیں گے۔ لیکن عمران خان کی بڑھک میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔ ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اب شیخ رشید ایک لاکھ اور ڈیڑھ لاکھ نوکریاں دے رہے ہیں۔ ان سے ریلوے تو سنبھل نہیں رہی۔ آئے دن حادثات ہو رہے ہیں اور وہ ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب گلزار احمد نے کہا ہے کہ ریلوے کا پورا ڈھانچہ ناکارہ ہے اور تمام ٹریک ’ڈیتھ ٹریک‘ یا ہلاکت کے راستے بن گئے ہیں۔ سیکرٹری ریلوے، سی ای او اور تمام ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ فارغ کرنے پڑیں گے، تمام شعبوں میں اوور ہالنگ کی ضرورت ہے۔ سماعت کے دوران میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عذر پیش کیا کہ ’’شیخ رشید سے شاید الفاظ کے چنائو میں غلطی ہو گئی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ ریلوے ملازمین کی تعداد 56 ہزار تک لائی جائے‘‘۔ اس وقت ریلوے میں 77 ہزار ملازمین ہیں۔ اگر ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا موقف درست ہے کہ شیخ رشید کی زبان بھی پھسل گئی تو اگلے دن ہی شیخ رشید نے اس موقف پر پانی پھیر دیا کہ ہم تو ڈیڑھ لاکھ افراد بھرتی کریں گے۔ اس کا کیا جواب ہے؟ لاہور کی عدالت عالیہ نے پیٹرول بحران پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور اسے وفاق کی خراب کارکردگی کی انتہا قرار دیا ہے۔ لیکن اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہی۔ دو برسوں میں قدم قدم پر اس کا مظاہرہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ پیٹرول بحران مخصوص مافیا کو اربوں کا فائدہ پہنچانے کے لیے پیدا کیا گیا۔ عدالت عالیہ لاہور کے چیف جسٹس جناب قاسم خان نے بھی پیٹرولیم بحران سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیٹرول کمپنیوں کو 4 کروڑ روپے جرمانہ کیا گیا جب کہ انہیں 7 ارب روپے کا فائدہ پہنچا۔ بعض اطلاعات کے مطابق تو پیٹرول کمپنیوں نے پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر 33 ارب روپے سمیٹ لیے۔ اب اس پر بھی تحقیقاتی کمیشن بنے گا۔ شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ کا کیا بنا؟ کیا چینی کی قیمتیں کم ہوگئیں، کیا یہ عوام کی دسترس میں ہے۔ ایک اور کمیشن بنا لیں۔ عدالت عالیہ اسلام آباد کا تبصرہ ہے کہ زلفی بخاری قائم مقام چیئرمین ہے، وہ ملازمین کو نوکری سے نہیں نکال سکتا۔ اس نے پاکستان ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن سے سیکڑوں ملازمین کو فارغ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ عدالتیں تبصروں اور اظہار برہمی سے بڑھ کر دو ٹوک فیصلے کیوں نہیں کر رہیں۔ حکومتوں کی بیڈ گورننس مسلّمہ لیکن عدالتیں بھی دو ٹوک اور فوری فیصلے کریں ورنہ مقدمے برسوں چلتے رہیں گے۔