کیا عمران خان استعفیٰ دیں گے؟

751

چینی اسکینڈل کی رپورٹ سامنے آگئی اور بڑے بڑے ذمے داروں میں جہانگیر ترین، شریف خاندان، اومنی گروپ اور عمر شہریار کے نام آئے ہیں۔ مونس الٰہی کو بھی فائدے پہنچانے کا الزام ہے۔ رپورٹ کے مطابق ترین گروپ کی شوگر ملز ڈبل بلنگ اوور انوائسنگ اور کارپوریٹ فراڈ میں ملوث ہیں۔ شہباز شریف کی کمپنی کی ڈبل رپورٹنگ کا ثبوت رپورٹ میں آگیا ہے۔ رپورٹ کا اصل نکتہ یہ ہے کہ ملز مالکان نے 100 ارب روپے سے زیادہ کا منافع کمایا ہے۔ اب جو کچھ ہوگا وہ بالکل اسی طرح ہوگا جس طرح حکومت اور اپوزیشن کے ایک دوسرے پر الزامات اور حملے کا کھیل جاری ہے۔ چنانچہ عمران خان نے کہا ہے کہ چینی چور خواہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ لیکن فوری ردعمل کے طور پر جہانگیر ترین نے کہا کہ الزامات پر حیران ہوں سن کر دھچکا لگا جواب دوں گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ہمیشہ شفاف کاروبار کیا ہے۔ پورا ملک جانتا ہے کہ میں نے ہمیشہ گنا اگانے والوں کو پوری قیمت دی ہے۔ جہانگیر ترین، شہباز شریف اور مونس الٰہی نے رپورٹ پر تحفظات کا اظہار کیا بلکہ رپورٹ ہی کو مسترد کر دیا۔ دوسری طرف وزیراعظم کے مشیر شہزاد اکبر نے پورے زور و شور سے رپورٹ پیش کی ہے اور پریس کانفرنس میں یہ ظاہر کیا ہے کہ ان سارے چینی چوروں کو سزا مل جائے گی۔ تجاویز اچھی دی گئی ہیں کہ فوجداری مقدمات درج کرکے رقم وصول کی جائے اور کسانوں میں تقسیم کر دی جائے۔ لیکن اس رپورٹ کا کیا کیا جائے کہ اہم شوگر ملز کی پیداوار کے بارے میں اعداد و شمار فارنزک رپورٹ سے غائب ہو گئے ہیں۔ ابھی یہ معاملہ نیب جائے گا۔ وہاں بھی اخبارات کے ذریعے اسے خوب اچھالا جائے گا۔ لیکن معاملہ تو یہ ہے کہ 100 ارب روپے ہڑپ ہو چکے اور اب صرف بیانات اور الزامات کا کھیل چلے گا۔ جن لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس سے وفاق اور پنجاب میں حکومتوں کی تبدیلی والے معاملے کا بھی تعلق ہے۔ اب شہباز شریف، چودھری برادران اور جہانگیر ترین ایک طرف ہوں گے اور وفاق میں پی ٹی آئی حکومت اور پنجاب میں بزدار حکومت دوسری طرف ہوں گے۔ عوام کے جو اربوں روپے کھا لیے گئے ان کا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ اگر حکومت کی تبدیلی سے توبہ کر لی گئی تو نئی رپورٹ آئے گی اور نیب کی تحقیقات کا رخ بھی تبدیل ہو جائے گا۔ تحقیقاتی رپورٹوں کا انبار تو وزیراعظم ہائوس میں لگا ہی ہوا ہے لیکن یہ معاملہ براہ راست پی ٹی آئی اور وزیراعظم عمران خان سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ یہ ان ہی کے دور کا اسکینڈل ہے کسی اور زمانے کا نہیں۔ عمران خان تو سب کے لیے ایک قانون کی بات بھی کرتے تھے اور حکومت میں چوروں کی موجودگی پر وزیراعظم کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے تھے تو کیا اب وہ استعفیٰ دیں گے کیونکہ اب تو سارے ہی ان کے اردگرد کے لوگ ہیں یا ان کے حلیف ایسے ہی ان سے یہی مطالبہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے وہ استعفیٰ دیں۔ چینی برآمد کرنے کی اجازت دینے کا جواز پیش کریں اور نیب کو آزادانہ کام کرنے دیں۔ اب وزیراعظم اور جہانگیر ترین کو اچھی طرح پتا چل چکا ہوگا کہ حکومتیں وہ نہیں بناتے کوئی اور بناتا ہے۔ شہباز شریف اور مونس الٰہی یہ بات اچھی طرح سمجھ چکے ہیں۔ سارا ملبہ سیاستدانوں اور حکومت اور اپوزیشن پر ہی ڈالا جاتا رہے گا۔ ملک میں حکومتیں بنانے اور توڑنے والوں کا کوئی ذکر نہیں ہوتا۔