ٹماٹر کی قیمت اور حکومتی اطمینان

343

 کئی ہفتوں سے ٹماٹر کی قیمتیں پورے پاکستان میں حکومتی ایوانوں میں، میڈیا کی خبروں اور ٹاک شوز میں اور عام لوگوں کی گفتگو کا مرکز بنی ہوئی ہیں، موسم سرما کی آمد آمد ہے جس میں ٹماٹر 240 روپے سے ساڑھے 3 سو روپے کلو تک مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے اور تاحال ایران سے درآمد کے باوجود قیمت کم ہونے میں نہیں آرہی۔ دوسری طرف حکومتی وزرا اور مشیران کرام کی طرف سے غیر سنجیدہ بیانات کا سلسلہ جاری ہے جس کا آغاز مشیر خزانہ حفیظ شیخ کی جانب سے اس اعلان سے ہوا کہ کراچی میں ٹماٹر کی قیمت منڈی میں 17 روپے کلو ہے، جس کا بہت مذاق اُڑایا گیا، ایک دوسرے وزیر نے مشورہ دیا کہ ٹماٹر مہنگا ہے تو دہی استعمال کریں۔ یہ بات بھی عوام کو سمجھائی گئی کہ ٹماٹر کا استعمال چھوڑ دیں قیمتیں خود کم ہوجائیں گی، ایک اور مفت مشورے سے عوام کو نوازا گیا کہ بہت سی زمین فالتو پڑی ہے اس پر آپ خود ٹماٹر اُگائیں۔
مسئلہ صرف ٹماٹر تک محدود نہیں ہے پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس (PBS) کے مطابق نومبر کے تیسرے ہفتے میں ٹماٹر کے علاوہ آلو، دالیں، کوکنگ آئل اور چینی کی قیمتوں میں بھی 10 سے 12 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ایک طرف مہنگائی کا یہ عالم ہے دوسری طرف وزیراعظم عمران خان نے اپنی معاشی ٹیم کو پاکستان میں معاشی استحکام لانے، کرنٹ اکائونٹ خسارہ ختم ہونے اور روپے کی قدر میں اضافہ ہونے پر مبارک باد دی ہے اور خوشی و اطمینان کا اظہار کیا ہے کہ ملکی معیشت ٹھیک سمت میں جارہی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ کرنٹ اکائونٹ خسارے میں 73 فی صد کمی ہوئی ہے، روپے کی قدر میں 1.8 فی صد اضافہ ہوا ہے، اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے اور انڈیکس پوائنٹس میں 10 ہزار پوائنٹ کا اضافہ ہوا ہے، لیکن دوسری طرف معیشت کا پہیہ آہستہ ہوتے ہوتے تقریباً رُک گیا ہے، لوہے اور فولاد کے 60 فی صد کارخانے بند ہیں، سیمنٹ کے کارخانے اپنی پیداواری صلاحیت کے صرف 30 فی صد پر چل رہے ہیں، آٹو موبائل انڈسٹری اپنی پیداواری قوت سے 40 فی صد پر کام کررہی ہے، بجلی اور گیس کی پیداوار اور رسد ان کی طلب سے بہت کم ہوگئی ہے کیوں کہ صنعتی و تجارتی استعمال مختلف انڈسٹریز کے بند ہونے سے کم ہوگیا ہے، صنعتی و تجارتی گراوٹ کے علاوہ زرعی شعبے کی کارکردگی بھی بہتر نہیں رہی۔ کپاس کی فصل بہت خراب رہی، گنے اور مکئی کی پیداوار کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ ہے کیوں کہ کئی شوگر ملز عدالتوں میں کیسز چلنے کی وجہ سے بند پڑی ہیں۔
اس پر مزید مرے پر سو درے کے مصداق اسٹیٹ بینک کی حالیہ مانیٹری پالیسی میں شرح سود جو اس وقت 13.25 فی صد ہے اس کو آئندہ دو ماہ کے برقرار رکھا ہے۔ ایسے حالات میں جب معیشت سست روی کا شکار ہے، کاروبار بند ہوا، تجارتی و صنعتوں کی سرگرمیاں کساد بازاری کا شکار ہوں، شرح سود کم کی جاتی ہے تا کہ نجی شعبہ آسان شرح سود پر قرضہ لے کر معاشی سرگرمیوں میں حرارت پیدا کرے، لیکن یہاں معاملہ اُلٹا ہے، ملک میں کاروبار، صنعت و تجارت کی نمائندہ تنظیم فیڈریشن آف پاکستان کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) میں بے تحاشا اضافہ ہوگیا ہے، نیا کاروبار شروع کرنا تو درکنار پرانے چلتے ہوئے کاروبار کو برقرار رکھنا مشکل ہے۔ نجی شعبوں کو دیے جانے والے قرضوں میں نمایاں کمی واقع ہوگئی ہے، بلند شرح سود کا مقصد اگر مہنگائی کم کرنا تھا تو وہ مقصد پورا نہیں ہورہا ہے، فیڈریشن نے مطالبہ کیا ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے شرح سود میں کمی کی جائے اور یہ ایک معقول مطالبہ ہے، کیوں کہ موجودہ حالات میں اتنی اونچی شرح سود کی دنیا بھر میں مثال نہیں ملتی۔ مثلاً اس وقت بھارت میں 5.15 فی صد، چین میں 4.35 فیصد، سری لنکا میں 8 فی صد، ملائیشیا میں 3 فی صد، تھائی لینڈ میں 1.25 فی صد اور انڈونیشیا میں 6.5 فی صد شرح سود چل رہی ہے۔
ان ہی وجوہات کی بنا پر شرح نمو جو پہلے 5.8 فی صد تھی رواں مالی سال کے لیے 3.5 فی صد کا تخمینہ لگایا جارہا ہے۔ معاشیات کے نکتہ نظر سے شرح نمو میں ایک فی صد کمی سے کئی لاکھ افراد بے روزگار ہوجاتے ہیں اور ہزاروں لوگ غربت کے اندھیرے میں چلے جاتے ہیں، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کے معاشی مسائل میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث کتنا اضافہ ہورہا ہے اور حکومتی وزرا اور مشیران کرام اُلٹے سیدھے بیانات دے کر عوام کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔