پاکستان کے خلاف جراثیمی جنگ

603

ابھی تک پولیو ویکسین کے مسائل سے چھٹکارا حاصل نہیں کرسکے تھے کہ اب ٹائیفائیڈ کی ویکسین سے درجنوں بچوں کی حالت خراب ہوگئی ۔ اس وقت پاکستان میں ٹائیفائیڈ، ڈینگی ، گیسٹرو ، ہیپا ٹائٹس اے ، بی اور سی کے علاوہ ذیابطیس اور کینسر نے وبائی صورت اختیار کی ہوئی ہے ۔ فلو ،نزلہ اور زکام جیسے موسمی امراض اس کے علاوہ ہیں۔ بین الاقوامی تحقیق کے مطابق یہ سب کے سب امراض جس پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں ، وہ حیاتیاتی جنگ کا شاخسانہ معلوم ہوتے ہیں ۔ یہ چند دن پہلے ہی کی خبر ہے کہ امریکا سے کراچی پہنچنے والے سویابین کے بیجوں میں ٹائیفائیڈ کے جراثیم موجود ہیں اور وفاقی حکومت کے زیر انتظام ادارے پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ نے اس کنسائنمنٹ کو کلیئر کردیا ہے ۔ماہرین کے مطابق حیاتیاتی جنگ میں جراثیم کے ذریعے دشمن کا حملہ پہلا مرحلہ ہوتا ہے ۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ علاج یا بیماری کی روک تھام کے نام پر ویکسین کا استعمال ہے ۔جس مرض سے بچاؤ مطلوب ہو، ویکسین میں اسی بیماری کے جراثیم جسم میں داخل کیے جاتے ہیں جو اکثر بیماری کے مزید پھیلاؤ کا موجب ہوتے ہیں ۔یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ افریقی ممالک میں ڈینگی ، ملیریا ، ایبولا اورزیکا کے وائرس ایک منصوبہ بندی کے تحت پھیلائے گئے ۔ اب کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی کارگزاری پاکستان کے ساتھ بھی کی گئی ہے ۔ جس طرح سے ڈینگی اور ٹائیفائیڈ بے قابو ہوا ہے ، اور امریکی سویابین کے بیجوں میں ٹائیفائیڈ کے جراثیم کی موجودگی کی خبریں آئی ہیں ، اس سے معاملات سادا معلوم نہیں ہوتے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انسانی جانیں ٹائیفائیڈ، ڈینگی ، گیسٹرو ، ہیپا ٹائٹس اے ، بی اور سی کے علاوہ ذیابطیس اور کینسر جیسے امراض سے جارہی ہیں ۔ریکارڈ کے مطابق کراچی کے صرف دو اسپتالوں میں سگ گزیدگی کے دو سو کے قریب کیس یومیہ رپورٹ ہورہے ہیں مگر حکومت کی ساری توجہ پولیو کے قطرے پلانے پر ہے ۔ پولیو سے کسی انسانی زندگی کو خطرہ لاحق نہیں ہوتا مگر مذکورہ بالا بیماریوں سے لوگ روز جان سے ہاتھ دھو رہے ہیں ۔ حکومت مرض کے خلاف متنازع ویکسین لگانے کے بجائے مرض کے خاتمے پر توجہ دے ۔جب ا س امر کا علم کے کہ پولیو کے جراثیم پھیلنے کی وجہ پینے کے صاف پانی کی عدم فراہمی ہے تو پینے کے صاف پانی کی فراہمی پر کیوں توجہ مرکوز نہیں کی جاتی ۔ اگر صاف پانی پینے کے لیے فراہم کردیا جائے تو گیسٹرو، ہیپاٹائٹس اے ، بی اور سی اور پولیو سمیت کئی امراض سے عوام کو چھٹکارا مل جائے گا اور ان کا معیار زندگی بھی بہتر ہوگا ۔ اسی طرح بیرون ملک سے آنے والی غذائی اشیاء کی سختی سے جانچ پڑتال کی جائے تو ٹائیفائیڈ ، ذیا بطیس اور کینسر جیسے امراض میں کمی ممکن ہے ۔ اگر ایک دفعہ پورے ملک میں کیڑے مار اسپرے جامع طریقے سے کردیا جائے تو انفلوئنزا اور ڈینگی سے چھٹکار ا پایا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح کتا مار مہم چلالی جائے تو کتا کاٹے کی دوا کی اس پیمانے پر ضرورت بھی نہیں رہے گی اورانسانی جانیں بھی محفوظ رہیں گی۔