ایک کروڑ نوکریوں کا خواب

675

قاسم جمال
تحریک انصاف کی حکومت جب سے اقتدار میں آئی ہے روز بروز اس کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ اور بات کہ ان مشکلات میں اضافہ اپوزیشن کی جانب سے نہیں بلکہ خود ان کے وزراء اور قریبی ساتھیوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ وزیر ٹیکنالوجی فواد چودھری کی جانب سے بیان داغا گیا جس میں انہوں نے فرمایا کہ حکومت عوام کو نوکریاں دینے کی پابند نہیں ہے اور نوکریں فراہم کرنا حکومت کا کام نہیں ہے۔ حکومت تو پہلے ہی چارسو سے زائد ادارے بند کرنے جا رہی ہے۔ تحریک انصاف کو حکومت میں آئے ابھی ایک سال کا عرصہ ہوا ہی چاہتا ہے اور عوام کا حافظہ بھی اتنا کمزور نہیں کہ وہ ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں کے نعرے، وعدے اور اعلان کو بھول جائیں۔ عوام کو معاشی ترقی کے سنہرے خواب دکھانے والے حکمران چار سو سے زائد اداروں کو بندکر کے پاکستان میں بے روزگاری مہنگائی اور غربت کا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں فیکٹریوں میں تالے لگ رہے ہیں۔ صنعت کار اور سرمایہ دار طبقہ موجودہ حکومت سے مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات میں ملک بھر کے اہم اور بڑے تاجروں نے کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ آرمی چیف نے انہیں حل کرانے کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن ہنوز تاجروں اور سرمایہ دار طبقے میں مایوسی برقرار ہے۔ حکمرانوں نے ملک کو معاشی اقتصادی سطح پر کئی سال پیچھے دکھیل دیا ہے۔ سرمایہ دار اپنا کاروبار اور کارخانے بنگلا دیش، دبئی اور سری لنکا منتقل کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ حکومتی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے چالیس لاکھ لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ وزیرسائنس وٹیکنالوجی فواد چودھری فرماتے ہیں کہ تحریک انصاف نے ایک کروڑ سرکاری نوکریاں کا کہا تھا اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں ہے کہ ایک کروڑ سرکاری نوکریاں فراہم کی جائیں۔ وفاقی وزیر صاحب ایک سال میں ہی اپنے نعروں کے آگے ڈھیر ہوگئے ہیں۔ انہیں یہ خبر نہیں کہ تباہ حال قومی ادارے ملازمین کی تنخواہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی لوٹ مار کرپشن اقربا پروری اور ناہلی و بدانتظامی کی وجہ سے تباہ و برباد ہوئے ہیں۔
گزشتہ نوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے حکام نے وزیر سائنس ٹیکنالوجی فواد چودھری کے بیان کی تصدیق کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ اس حوالے سے ری اسٹرکچرنگ پر کام ہورہا ہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ سیکرٹریٹ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محمد طلحہ محمود کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایجنڈے میں تھا کہ عوام کو ایک کروڑ نوکریاں دیں گے اور پھر وزیر سائنس ٹیکنالوجی نے خوفناک بیان دیا کہ چار سو محکموں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ جس سے ہزاروں افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کون سے ادارے بند کیے جا رہے ہیں۔ کسی ایک ملازم کو بھی بغیر قانون نکالا گیا تو کمیٹی ان کے حق میں کھڑی ہو گی۔ ہم حکومت کو یہ ظلم نہیں کرنے دیںگے۔ ہمیں اس معاملے پر تفصیلی بریفنگ دی جائے۔
پاکستان کے حکمرانوں کی یہ قلابازیاں عوام کے لیے کوئی نئی نہیں ہیں۔ ۷۰ سال سے اس ملک میں اشرافیہ کی حکمرانی ہے اور دونوں ہاتھوں سے اس ملک کی دولت کو لوٹا گیا ہے۔ غریبوں کے نعرے لگانے والے غربت کے خاتمے کے بجائے غریبوں کو ختم کرنے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ عمران خان جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے بھی غربت کے خاتمے کا نعرہ لگایا لیکن ان کی حکومت بھی تمام تر دعوں کے باوجود آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہوچکی ہے۔ ٹھنڈے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر غریبوں کے لیے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو انصاف پروگرام کا نام دے یا گیا ہے کہ شاید اس سے غربت کے خاتمے میں بڑی مدد مل سکے۔ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہوں میں دس فی صد اضافہ کر کے دو سو گنا مہنگائی میں اضافہ اور ہر دو ماہ کے بعد عوام کی کمر پر مزید مہنگائی کے چھتر لگائے جارہے ہیں اور تبدیلی کا خواب دیکھنے والے عوام کی بوٹی بوٹی اب ہری ہو چکی ہے۔ بجلی گیس پٹرول آٹا چینی دودھ سب مہنگا ہو چکا ہے۔ یہاں تک کہ اب سبزیاں بھی سو روپے سے ڈیڈھ سو روپے تک فروخت کی جا رہی ہیں۔ عوام کی چیخیں آسمان والا تو سن رہا ہے لیکن اقتدار میں بیٹھے حکمراں عوام کی یہ آہ وبکا سننے سے قاصر ہیں۔
مدینے کی ریاست کے دعویداروں تمہیں معلوم ہے کہ مدینے کی ریاست کے امیرالمومنین دریائے فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کی ذمے داری بھی خود قبول کرتے تھے۔ آج جس ملک کی پچاس فی صد آبادی کو صاف پانی بھی میسر نہیں۔ جس ملک کی پچھتر فی صد آبادی بے روزگار ہو۔ جس ملک کے نوے فی صد عوام غریب ہوں۔ جس ملک کے پانچ فی صد لوگ حکمرانی کریں۔ جس ملک کے حکمراں فائیو اسٹار ہوٹلوں میں بیٹھ کر غریبوں کے لیے خوشحالی کے خیالی پلائو پکائیں وہ ملک کیسے خوشحال ہوسکتا ہے۔ ایوب خان سے لے کر بھٹو، ضیاء الحق اور پھر بے نظیر، نواز شریف، جنرل شرف اور اب عمران خان تک جتنے بھی حکمران آئے سب نے غریبوں کے ہی نعرے لگائے۔ ان کی تقریریں غریبوں سے شروع ہو کر غریبوں پر ختم ہوتیں۔ سب غریب سے ہی ووٹ لیتے لیکن پھر بھی وہی وڈیرے، جاگیردار، خان، سرمایہ دار ہم پر مسلط ہیں۔ غریب جہاں سے چلے وہی پر کھڑے ہیں اور انہیں تبدیلی کی بتی کے پیچھے لگا دیا گیا ہے۔ لیکن اب تبدیلی کا نعرہ لگانے والو نے تھوڑی سی تبدیلی پیدا کی ہے اور کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ اب غریبوں کے لیے سوچا جا رہا ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ مکانات کے دعوے ان کا پیچھا نہیں چھوڑے گے۔ وزیراعظم اور ان کے وزراء یہ کہہ رہے کہ ابھی تو ہماری حکومت کو ایک سال کا عرصہ ہوا ہے اگلے چار سال بھی ایسے ہی گزر جائیں گے اور اگلے باری میں عوام کے حالات میں بہتری آئے گی اور غربت کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔
فواد چودھری اور ان جیسے وزیر با تدبیر کی باتیں سن کر تو اب تو پختہ یقین ہوگیا ہے کہ اگر اگلے چار سال میں نہ سہی تو اگلے بیس سال میں تو یقینا غربت کا اس ملک سے مکمل خاتمہ ہوجائے گا اور اگر خدانخواستہ اگلے بیس سال میں نہ ہوسکا تو پھر اگلے پچاس سال میں تو یقینا اس کا خاتمہ ہو ہی جائے گا۔ اقتدر کے نشے میں چور فواد چودھری جیسے افراد جنہوں نے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کا ڈنکا بجانا اپنا فریضہ سمجھا ہوا ہے۔ اقتدار کے گھمنڈ میں یہ بھول بیٹھے ہیں کہ اقتدار تو آنی جانی چیز ہے جو عوام اور مقتدر قوتیں انہیں آج اقتدار میں لائے ہیں کل انہیں دودھ میں مکھی کی طرح نکال پھینکے گے۔ اس ملک میں بھٹو اور نواز شریف جیسے طاقت ور حکمرانوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ سب پر عیاں ہیں۔ تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والو اللہ کے غیظ وغضب سے ڈر و۔ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے اس کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں ہے۔ چار سو اداروں کو بند کرنے کا مطلب ہے کہ اس سے وابستہ ایک کروڑ افرا د کے گھروںکا چولہا بجھانا۔ عمران خان صاحب آپ تو ایک کروڑ افراد کو نوکریاں دے رہے تھے لیکن اب تو ایک کروڑ افراد کو بھوک غربت افلاس کی لدل میں دکھیلا جا رہا ہے۔ لوگ تعلیم علاج کو ترس رہے ہیں۔ ٹرانسپورٹ کا ملک میںکوئی نظام نہیں ہے۔ پی آئی اے کے ہیڈ آفس کو اسلام آباد منتقل کر کے تباہ حال ادارے کو مزید برباد کرکے اس کا دیوالیہ نکالا جا رہا ہے۔ قومی اداروں کو نج کاری کی بھینٹ چڑھا کر قومی معیشت کو مفلوج کر یا گیا ہے۔ عوام کو بھی اب شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اپنی طاقت اور قوت کے ذریعے ملک میں حقیقی تبدیلی لانی ہوگی۔ چہروں کے بجائے نظام کو تبدیل کرنا ہوگا۔ اگر ہم زمین میں ببول کا بیج ڈالیں گے تو پھر اس سے انگور نہیں ببول ہی نکلے گے۔