کشمیر بزور شمشیر

453

عنایت علی خان

ہمارے گزشتہ کالم کا اختتام علامہ اقبالؒ کی نظم ’’ٹیپو سلطان کی دعا‘‘ کے آخری شعر پر ہوا تھا جو یہ ہے۔
عزائم کو سینوں میں بیدار کردے
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردے
انسان اپنے ارادوں اور عزائم کا اظہار کرتا تو الفاظ ہی کے ذریعے ہے کہ بیان کی صلاحیت بھی خدائے رحمن کی خوئے رحمانی کی علامت ہے جیسا کہ سورۃ رحمن کی دوسری آیت میں ارشاد ہوا ہے ’’انسان کو تخلیق کیا اور اسے بیان کی صلاحیت بخشی‘‘۔ لیکن بیان کو تقویت اس لہجے سے ملتی ہے جس میں الفاظ ادا کیے گئے ہوں۔ بقول شاعر۔
کبھی اک بات بہت تلخ کہی تھی اُس نے
بات تو یاد نہیں، یاد ہے لہجہ اُس کا
لیکن اگر مخاطَب کہنے والے کا لہجہ سننے کے ساتھ ساتھ اس کی نظر سے نظر ملائے ہو تو کہنے والے کے الفاظ معنوی اعتبار سے دو آتشہ ہوجاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو ادائے مطلب کے حوالے سے الفاظ کی سرے سے ضرورت ہی باقی نہیں رہتی کہ۔
اُس کی آنکھوں میں ذرا جھانک کے دیکھے کوئی
جس کی نظروں میں کہانی ہے نہ افسانہ ہے
اس طرح علامہ اقبال کا نگاہِ مسلمان کے لیے ’’تلوار‘‘ کا استعارہ استعمال کرنے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح تلوار فتح و کامرانی کی علامت ہے اسی فتح و کامرانی کا اظہار عزم بالجزم کی صورت میں مرد مسلماں کی نظر سے ہوتا ہے۔ اب جس شخص کی نظر تلوار کا کام کررہی ہو کیا یہ ممکن ہے کہ وہ تلوار ہاتھ میں لیتے ہوئے کسی قسم کے تذبذب کا شکار ہو۔ ہمارے وزیراعظم کشمیر کے مسئلے پر اسی تذبذب کا شکار ہیں خاص طور سے جب فوجی قیادت نے یہ بیان دیا کہ وہ حکومت کے ہر قسم کے احکام کی بجا آوری کے لیے تیار ہے گویا فیصلے کی ذمے داری اس لاچار پر لاد دی گئی جس کو اس کے منصب کا یقین اُس کی اہلیہ کی تلقین کا مرہون منت ہو۔ اس سے ڈھلمل یقینی کے سوا کس چیز کی توقع کی جاسکتی ہے چناںچہ بحیثیت وزیر اعظم ان کا بیان ہندوستان کی ننگی جارحیت کے باوجود یہ تھا کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں پھر ٹرمپ کے مکارانہ مصلحتی بیان نے تو اس مخمصے سے کلّی طور پر نچنت کردیا کہ جو مسئلہ سلامتی کونسل کے فیصلے کے ذریعے سترسال میں حل نہیں ہوا تھا وہ ٹرمپ کا بّیہ کرتے ہی حل ہوجائے گا۔ گو مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ٹرمپ کی کھلی اسلام دشمنی سامنے آچکی تھی اور اس کی ذات سے پاکستان کے لیے کسی خیر کی توقع ببول کے پیڑ سے آم حاصل کرنے کے مترداف تھی لیکن بھارت کی جانب سے اس پر فریب پیش کش کو بھی رد کردینے اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کی طوالت اور نہتے مسلمانوں پر تشدد کی خبروں نے جب پاکستانی باغیرت مسلمانوں کے حکومت پر دبائو کے نتیجے میں روایتی یوٹرن لیتے ہوئے انہیں بیان دینا پڑا کہ اب مذاکرات کا آپشن ختم ہوچکا ہے۔ اس دوران بین الاقوامی اور سوشل میڈیا پر بھارت کے غاصبانہ قبضے سے صرفِ نظر کرتے ہوئے گویا اصل مسئلے کو پس پشت ڈالتے ہوئے محض انسانی ہمدردی کے تحت مقبوضہ کشمیر کے باشندوں کی کرفیو کی طوالت سے حالتِ زار کی بات پھیلی تو عمران نیازی نے پھر خوئے نیازی و نیاز مندی کے تحت ’’مُڑ کے‘‘ پھر وہ متروکہ بیان اپنالیا کہ جنگ کسی کے مفاد میں نہیں۔
نگاہِ مسلماں کو تلوار کردینے کی جس آرزو کا علامہ اقبالؒ نے ذکر کیا ہے میری خوش قسمتی کہ مجھے وہ منظر بچشم سر اس موقع پر دیکھنے کا اتفاق ہوا جب روس نے افغانستان پر غاصبانہ قبضہ کیا ہوا تھا اور ہمارے ملک کے سرخ سویرے کے متمنی پرامید نظر یں ڈیورنڈ لائن پر لگائے بیٹھے تھے۔ اور تنظیم اساتذہ کا ایک وفد افغانستان کے واحد آزاد اور برسر جہاد صوبے جمال الدین افغانی کے وطن نورستان المعروف بہ ’’کنڑ‘‘ گیا تھا۔ زمین کی حالت تو یہ تھی کہ ہر سڑک روسی بمباری سے ادھڑی ہوئی نظر آتی تھی، ہر بستی شکستہ گھروں پر مشتمل تھی لیکن ہر غُنڈ (لشکر گاہ) سے نکلنے والی سوزوکیوں پر لدے ہوئے مجاہدین کے بے تکلفانہ قہقہے اور چہلیں تو یہ باور کرانے پر تُلی ہوئی تھیں کہ یہ سوزوکی خط اول (محاذ جنگ) کی نہیں کسی پکنک اسپاٹ کی جانب رُخ کیے ہوئے ہے۔ ہمارا وفد جس غنڈ پر پہنچتا وہاں کے ناظم کو ہمارا ترجمان اس کے ساتھیوں کی شہادتوں پر مبارکباد دیتا اور پھر ہم اُن کی کامیابی اور دشمن کی بربادی کے لیے دستِ دعا بلند کرتے۔
مذکورہ دورے کے ایک منظر اور ایک کیفیت کو تو بیان میں لانا ممکن ہی نہیں۔ منظر وہ جب ہمارے افسر مہمان داری (وزیرتعلیم نورستان) ہمیں ایک بڑے ہال میں لے گئے جہاں بیسیوں چھوٹے بڑے بچے موجود تھے وہاں ایک دو ڈھائی سال کے مرجھائے ہوئے پھول جیسے روتے ہوئے بچے کو میزبان نے محبت سے گود میں اُٹھایا ہوا تھا اور کہہ رہے تھے۔ ’’ڈیرمَرد سڑے‘‘ تُو تو بہادر انسان ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ جب روسیوں نے اس بستی پر قبضہ کیا تھا تو اس کے جملہ رہائشیوں مردوزن کو گھروں سے باہر میدان میں جمع کرکے فائر کرکے بھون دیا تھا۔ یہ اُن کے یتیم بچے ہیں جن کی سرپرستی مجاہدین کررہے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ آج وہ بچہ بچپن اور لڑکپن کی سرحدیں طے کرتا ہوا اس قابل ہوچکا ہے کہ یک قطبی ریچھ اس سے جان کی امان طلب کررہا ہے اور یہ سب کچھ اس کے بزرگوں کے دیے ہوئے اسی نعرہ لاتذر کا ثمرہ ہے جس کی بیداری کی علامہ اقبال نے ان الفاظ میں دعا کی تھی۔
دل مرد مومن میں پھر زندہ کردے
وہ بجلی کہ تھی نعرۂ ’’لاتذر‘‘ میں
(خدا کے سوا ہر خوف سے بے نیاز ہوجائو) اور وہ ’’کیفیت‘‘ جس کا اعادہ تو کیا کماحقہ بیان بھی ممکن نہیں ہے راقم پر اس وقت طاری ہوئی تھی جب میزبان مذکور نے جنگ زدہ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر جیپ ڈرائیو کرتے ہوئے ایک نسبتاً ہموار زمین پر ہمیں جیپ سے اُترنے کو کہا کہ نمازِ مغرب ادا کرلی جائے۔ خیال تھا کہ جن وزیر تعلیم نے کچھ دیر قبل رکی ہوئی جیپ کے نیچے لیٹ کر اپنے اوزاروں کے ذریعے اسے دوبارہ رواں کیا تھا وہی امامت کا فریضہ بھی ادا کریں گے لیکن انہوں نے دینی روایت کے مطابق مسافروں کی جانب نظر کی پھر راقم کو ان میں معمر ترین دیکھ کر آگے بڑھادیا۔ ثنا اور سورئہ فاتحہ کے بعد اچانک سورئہ صف کی آیات 10 تا 13 القائی انداز میں زبان پر جاری ہوگئیں۔
اے اہل ایماں! میں تمہیں ایسا کاروبار نہ بتلائوں جو تمہیں (دنیا و آخرت) کے گھاٹے سے محفوظ کردے (وہ کاروبار یہ ہے) کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائو اور اللہ کی راہ میں اپنے اموال اور جانوں سے جہاد کرو کہ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم جانو (اس کے ذریعے) وہ تمہارے قصور معاف فرما دے گا اور تمہیں ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی‘ اور ابدی قیام کی جنتوں میں بہترین گھر تمہیں عطا فرمائے گا۔ یہ ہے بڑی کامیابی اور دوسری چیز جو تم چاہتے ہو وہ بھی تمہیں دے گا، اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح۔ (اے نبیؐ) اہل ایمان کو خوش خبری سنادو‘‘۔
جہاد فی سبیل اللہ کے اُس ماحول میں جس سودے کی دعوت دی گئی تھی اور جن انعامات کا ذکر تھا الحمدللہ وہ یقینا آخرت میں بھی انہیں ملے ہوں گے اور دنیا میں بھی وہ خوش خبری پوری ہوئی اور اس منفعت بخش کاروبار کے منافع کا وعدہ تو ابدی ہے بقول علامہ اقبالؒ۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
مذکورہ ایمان افروز دورے کا دورانیہ ختم ہونے کو تھا کہ راقم نے وزیر صاحب سے کہا کہ پشاور تک کے لیے سوزوکی کا انتظام کرادیجیے کیوں کہ وہاں سے کراچی کی بکنگ ریل سے کرائی ہوئی ہے۔ موصوف نے مسکرا کر کہا ’’حضرت یہاں تو آنے والے کہیں اور کی بکنگ کراکے آتے ہیں۔ یہ سن کر جو کیفیت ہوئی اس کا اظہار میں نے اپنے افغانستان جانے والے بیٹے کی نظم کے دو تین بندوں کی صورت میں کیا تھا جو یہ ہیں۔
بشر اس راہ سے جب عازم فردوس ہوتا ہے
فنا کے کھیت میں جب یوں بقا کا بیج بوتا ہے
شہادت کا لہو سب معصیت کے داغ دھوتا ہے
تو جا کر دامن رحمت میں بے فکری سے سوتا ہے
شہید حق جو زیر عرش قندیلوں میں بستے ہیں
بہت خوش ہیں مگر کیفِ شہادت کو ترستے ہیں
تمہیں معلوم ہے اس راہ کا عازم ہوا میں بھی
غُبارِ کاروانِ جادئہ عظمت بنا میں بھی
گیا اُس گلشنِ بے خار میں مثل صبا میں بھی
لگا آیا درِ ساقی پہ مدھم سی صدا میں بھی
نہ میرے ہاتھ کیف بادئہ سرمد کا جام آیا
کہ میں کم ظرف تھا یوں میکدے سے تشنہ کام آیا
مرے بیٹے تمہیں یہ کامرانی گر میسر ہو
تمہاری روح کو یہ شادمانی گر میسر ہو
تمہیں یہ مژدہ جنت مکانی گر میسر ہو
یہ تمہید حیاتِ جاودانی گر میسر ہو
تو میں بھی اس طرح امیدوارِ آبرو ٹھیروں
سر افرازی میسر ہو تمہیں میں سرخرو ٹھیروں
اسی کے ساتھ ’’کشمیر بزور شمشیر‘‘ کا یہ مضمون اختتام کو پہنچتا ہے۔