مالی خسارے میں بے تحاشا اضافہ

466

اس سے پہلے اِن صفحات پر پاکستان کی معاشی صورتِ حال، معیشت اور کاروبار کے مسائل اور معاشی بحرانوں کا تذکرہ ہوتا رہا ہے لیکن اس وقت پاکستان کو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ امن و سلامتی، سیفٹی اور سیکورٹی کے مسائل کا بھی سامنا ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ انڈیا نے جموں اور کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اپنے ساتھ ضم کرلیا ہے اس اقدام پر پاکستان اور کشمیر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے اور کشمیریوں کے احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے وہاں کرفیو لگا دیا گیا ہے اور آج 24، 25 دن ہوگئے ہیں کشمیری بوڑھے، بچے اور جوان مرد و خواتین اپنے اپنے گھروں میں قید ہیں۔ پانی، خوراک اور ادویات تک اُن کی رسائی ناممکن بنادی گئی ہے ایسے میں ان کشمیریوں کی زندگی کتنی اذیت ناک ہوگئی اس کا اگر احساس کیا جائے تو انسان کی نیند اُڑ جاتی ہے اور بھوک ختم ہوجاتی ہے۔ ہندوستانی حکومت اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، عالمی لیڈروں اور انسانی حقوق کے اداروں کی اپیل کے باوجود ٹس سے مس نہیں ہوئی اور لاک ڈائون ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ اللہ تعالیٰ کشمیریوں کی زندگیوں میں آسانی پیدا کرے اور انہیں آزادی کی نعمت سے ہمکنار کرے۔
جہاں تک معیشت کا معاملہ ہے پچھلے ہفتے حکومت اس پر خوشیاں منارہی تھی کہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہم نے بہت کم کردیا ہے جو پہلے بہت زیادہ تھا لیکن اس ہفتے جو خوفناک خبر آئی ہے وہ پاکستانی معیشت کے لیے ایک دھماکے سے کم نہیں اور وہ یہ ہے کہ سال 2018-19 میں ملک کا مالیاتی خسارہ 3444 ارب روپے ہوگیا جو پاکستان کی جی ڈی پی کا ہے 8.2 فی صد کے برابر ہے۔ گزشتہ پچیس برسوں میں مالیاتی خسارہ (Fiscal Deficit) اتنا نہیں ہوا اور یہ خسارہ اس کے باوجود ہے کہ حکومت نے ترقیاتی اخراجات میں 25 فی صد کمی کردی تھی۔ اس افسوسناک صورتِ حال کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں ریونیو میں اضافے کے بجائے 6 فی صد کمی ہوگئی، دوسری طرف شرح سود جو پچھلے سال تقریباً 6 فی صد تھی وہ بڑھتے بڑھتے 13.25 فی صد تک پہنچ گئی۔ اس طرح قرضوں اور ان پر سود کی ادائیگی میں اضافہ ہوگیا۔ گزشتہ سال حکومت نے بیرونی قرضوں کی مد میں 11.5 ارب ڈالر ادا کیے جس میں 8.6 ارب ڈالر قرضے اور 2.9 ارب ڈالر سود کی مد میں ادا کیے گئے۔ شرح سود میں اضافے کا دوسرا نقصان یہ ہوا کہ معاشی سرگرمیاں سست ہوگئیں، کاروبار ٹھنڈا ہوگیا، آٹو انڈسٹری پوری پیداوار کے لحاظ سے کام نہیں کررہی، کنسٹرکشن انڈسٹری کا کام ہلکا ہوگیا، ٹیکسٹائل انڈسٹری پہلے ہی بحران کا شکار ہے، ان وجوہات کے باعث ٹیکسوں کی وصولی کم ہوگئی۔ جب کہ بے روزگاری میں اضافہ ہوگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پیداواری اخراجات کم کرنے کے باعث عوام کی فلاح وبہبود کے کام مثلاً تعلیم و صحت، غریب لوگوں کی مالی امداد، سڑکوں، پلوں اور پارکوں کی تعمیر وغیرہ جیسے کام بُری طرح متاثر ہوئے۔ اسی طرح آپ نے دیکھا ہوگا کہ سرکاری اسپتالوں میں مختلف قسم کے چارجز میں اضافہ ہوگیا۔ غریب لوگ جو سرکاری اسپتالوں میں سستا علاج ہونے کے باعث ان کا رُخ کرتے تھے وہاں علاج مہنگا ہوگیا، اسی طرح سرکاری یونیورسٹیاں جہاں تعلیمی اخراجات نجی یونیورسٹیوں کے مقابلے میں کم تھے وہاں بھی تعلیم بہت مہنگی ہوگئی۔ اسی طرح آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے سے ضروریات زندگی کی تمام اشیا مہنگی ہوگئیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے صرف ایک سال میں غریب اور متوسط طبقے کا کیا حال ہوگیا ہے۔ حکومت کے لیے بہت ضروری ہوگیا ہے کہ شرح سود میں کمی کی جائے، انڈسٹری کے لیے پیداواری لاگت میں کمی ہونی چاہیے، اسی طرح پیداواری اخراجات میں اضافہ بھی ضروری ہے تا کہ معیشت کا پہیہ چلنا شروع ہوجائے اور اگر حکومت جس سمت میں جارہی ہے اس سمت میں چلتی رہی پالیسیاں جو بنائی گئی ہیں ان کو تبدیل نہ کیا گیا تو عوام کا غیظ و غضب حکومت کو بہا کر لے جائے گا۔