ضیوف الرحمن کی خدمت ایک اعزاز

450

ڈاکٹر پیر نور الحق قادری
وفاقی وزیر مذہبی امور

الیکشن 2018 میں کامیابی اور اس کے بعد وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کا قلمدان ملنا اللہ پاک کا فضل اور بے پاپاں کرم اور رسولؐ کی ذات با برکات سے محبت اور عقیدت کا مظہر تھا۔وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی طرف سے اعتماد کا اظہار میرے لیے حوصلے اور اعتماد کا سبب بنا۔کیوں کہ یہ وزارت اور ذمے داری جہاں بہت بڑا اعزاز تھا وہاں پر یہ ایک بہت بڑی ذمے داری بھی تھی۔گویا دنیا کے اندر پل صراط عبور کرنا تھا۔یہ سوچ کر روح کانپتی تھی کہ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ ذرا بھی اونچ نیچ ہو گئی تو اس کا حساب مشکل ہو گا۔اللہ کریم کے کرم اور آقائے دوجہاں ختمی مرتبت نبی کریمؐکی ذات عالیہ کے ساتھ محبت کے سرمائے کے ساتھ کام کا آغاز کیا اور پھر قدم آگے بڑھنے لگے۔حج 2019 کی پہلی اہم بات پاکستان کے حج کوٹے میں اضافہ تھا۔جبکہ دوسری اور اہم ترین پیش رفت پاکستان کو روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ میں شامل کرنا تھا۔جو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے نتیجہ میں ایک اہم بریک تھرو تھا۔ حجاج کرام کی امیگریشن جو جدہ اور مدینہ منورہ ائر پورٹ پر ہوتی تھی وہ اسلام آباد ائر پورٹ پر ہونے لگی۔ اس طرح حاجی صاحبان کو سعودی ائر پورٹس پر انتظار کی جو زحمت اور کوفت اٹھانا پڑتی تھی اس سے بچ گئے۔ سامان بھی براہ راست ان کی رہائش گاہوں پر پہنچنا تھا۔ اس خوشی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو ان تکالیف سے گزر چکا ہو۔ روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ کے تحت اس دفعہ 22 ہزار پاکستانی مستفید ہوئے۔ابتدائی طور پر یہ سہولت اسلام آباد ائرپورٹ سے شروع ہوئی ہے۔اگلے مراحل میں ان شاء اللہ پورے پاکستان کے حاجی اس سے فیض یاب ہو سکیں گے۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی چالیس رکنی ٹیم سارے عرصے کے دوران سیرینا ہوٹل میں اپنے خرچ پر ٹھیری رہی۔اور یہ اضافی اخراجات سعودی حکومت نے خود برداشت کیے۔ حج پیکیج 2019 میں اضافہ نہ کرنا میری، آپ کی اور حکومت کی مشترکہ سوچ تھی لیکن امر مانع یہ تھا کہ روپے کی قدر میں کمی اور کچھ سعودی ٹیکسوں کی وجہ سے یہ اضافہ ناگزیر تھا۔جو بادل نخواستہ کرنا پڑا۔ماہرین جانتے ہیں کہ قیمت روپوں میں بڑھی ریالوں میں فرق نہیں آیا۔اس کا جو حل ہم سے ہو سکتا تھا وہ یہ کیا کہ میں نے خود سعودی عرب کا دورہ کیا۔عمارتوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ریٹس چیک کیے۔ ٹرانسپورٹ کا جائزہ لیا۔ ماضی میں جن کمپنیوں کی شکایات تھیں ان سے اجتناب کیا۔اور یہ کوشش کی کہ یہاں سے جو ممکن ہو سکتا ہے ضیوف کرام کو فائدہ پہنچایا جائے۔بہتر سے بہتر تر رہائش گاہوں کا انتخاب کیا۔اس کے دو فائدے ہوئے۔ایک معیاری انتخاب اور دوسرا پیسوں کی بچت اور یہ بچت کسی فرد، افراد یا حکومت کے بجائے براہ راست اللہ کے مہمانوں کو ہوئی۔چنانچہ ہر حاجی کو اس کی رہائش گاہ کے حساب سے پیسے واپس کیے گئے۔جو پچیس ہزار روپے سے ساٹھ ہزار روپے تک بنتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اتنی بڑی رقم اس سے پہلے واپس نہیں کی گئی۔یہ ایک احسن اقدام ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ یکم اگست کو اللہ کی تائید و نصرت سے براہ راست حج آپریشن کی نگرانی کے لیے پہنچ گیا۔
آقا کے در پر حاضر ہوا۔ سلام اور درود کے نذرانے پیش کرنے کے بعد ایک نیا ولولہ اور جوش تازہ لے کر پھر کام کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ پاکستان ہائوس مدینہ منورہ میں تمام ذمے داران کا اجلاس بلایا اور شروع سے آخر تک تمام انتظامات اور عملی آپریشن کا ازسرنو جائزہ لیا۔یہ کہنا کہ ہم معیار مطلوب کو پہنچ گئے شاید ٹھیک نہ ہو کیوں کہ بہتری کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے۔لیکن انسانی حد تک ہم نے بھرپور جائزہ لیا اور عملی آپریشن کے تمام حصوں کا قدم بقدم جائزہ لیا۔ اس دفعہ کی ایک اور اہم ترین کامیابی یہ تھی کہ انتہائی کم ترین ریٹس میں 112000 حجاج کرام مدینہ منورہ کے اعلی ترین ہوٹلوں میں قیام پزیر ہوئے یہ پاکستان کی طرف سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ صرف دس ہزار کے قریب حاجی مرکزیہ سے باہر تھے۔لیکن ان کو بھی تین سو ریال تک واپس کیے گئے۔اس دفعہ سیزنل اسٹاف کی تعداد 338 تھی۔میڈیکل مشن میں 614 لوگوں نے خدمات سرانجام دیں۔میں نے خود میڈیکل مشن کا دورہ کیا۔لیکن قابل ستائش بات یہ ہے کہ ہمارے میڈیکل مشن کی تعریف خود سعودی حکام نے کی جو ہمارے لیے خوشی کا امر تھا۔معاونین حجاج جو مختلف محکموں سے جاتے ہیں ان کی تعداد 655 تھی۔جبکہ مقامی طور پر انتظام چلانے کے لیے 1403 افراد کی خدمت حاصل کی گئی۔یہ زیادہ تر سعودیہ میں مقیم پاکستانی ہوتے ہیں۔ان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ مقامی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور راستوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ جس کا دہرا فائدہ ہوتا ہے۔اسی طرح 402 پرائیویٹ حج گروپس کو مکہ جبکہ 104 کو مدینہ میں سرپرائز وزٹ کیا گیا۔مکہ مکرمہ میں 28 جبکہ مدینہ منورہ میں شکایات ملیں اور ان کا فوری طور پر ازالہ کروایا گیا۔راستوں سے لا علمی کی وجہ سے 281 لوگ گم ہوئے اور الحمدللہ ہماری ٹیم نے 281 گم شدہ لوگوں کو واپس ان کے خیموں میں پہنچایا۔
اسی طرح 591 لوگوں کا سامان گم ہوا اور وہ ہمارے رضاکاروں نے تلاش کر کے ان تک پہنچایا۔ وزارت کی طرف سے ایک ٹول فری نمبر دیا گیا تھا جس پر حجاج کرام اپنی شکایات اور مسائل بیان کر سکتے تھے۔چناچہ اب تک کی رپورٹس کے مطابق 730 لوگوں کی فون پر مختلف طرح کی شکایات ملیں اور ان کا فوری طور پر ازالہ کیا گیا۔ہمارے میڈیکل مشن میں 18650 مریضوں نے وزٹ کیا اور ان کا علاج معالجہ ہوا۔ 106 لوگ داخل ہوئے۔جن کا بہترین طریقے سے علاج کیا گیا۔مدینہ پاک سے حاضری کے بعد احرام باندھا اور سوئے حرم ہوئے۔
یہ دو کپڑوں والا سفید لباس پہن کر کیا کیفیت ہوتی ہے۔بس بندہ اور اس کا رب، کوئی فاصلہ نہیں درمیان میں۔
مکہ مکرمہ کی عظمت اور رفعت کیا بیان ہو جہاں پر اللہ کا گھر ہے۔نبی کریمؐ کی جائے پیدائش، جہاں سے لا الہ کا نور پھیلا اور پوری دنیا کو منور کیا۔ طواف کے سات پھیرے اور سعی کے چکر جہاں مائی حاجرہ علیہ السلام، سیدنا اسماعیلؑ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد دلاتے ہیں۔وہاں بندے کا رب سے تعلق بھی مضبوط کرتے ہیں۔
احرام اتار کر ایک بار پھر حج آپریشن کے آخری مراحل کا جائزہ لیا۔ اور پھر احرام پہن کر منی پہنچے۔اپنے خیمے میں آرام کرنے کے بجائے ایک ایک خیمہ کا دورہ کیا۔جہاں تک بس چلا چلتا گیا۔ اور پھر عرفات کا تاریخی دن جن اللہ کی رحمت نے جوش مارا اور اگست کے مہینے میں جب گرمی شدید ہوتی ہے۔اور ہلکا سا سایہ بھی ایک نعمت معلوم ہوتا ہے۔وہاں پر موسلا دھار بارش ہوئی۔اور اللہ کے فضل سے اس بارش میں بھی اپنے حجاج کرام کو نہیں بھولے۔جہاں تک ٹانگوں نے ساتھ دیا وہاں تک چلتے گئے اور ہر ایک کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی۔الحمدللہ کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔اب آتے ہیں معروف پروپیگنڈا کی طرف کہ حج آپریشن ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا۔اس سارے افسانے کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ حج آپریشن کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک کا انتظام ہم کرتے ہیں جبکہ دوسرا حصہ سعودی معلمین کے ذمے ہوتا ہے۔مکہ اور مدینہ کی رہائش، کھانا اور ٹرانسپورٹ ہمارے ذمے جبکہ منی عرفات اور مزدلفہ سعودی معلمین کے ذمے ہوتا ہے۔
122000 حجاج کرام میں سے صرف 103 لوگوں نے کھانے کے معیار کے حوالے سے شکایت کی۔186 لوگوں نے رہائش کی شکایت کی اور صرف 24 لوگوں نے ٹرانسپورٹ کی شکایت کی۔ارباب علم و دانش اور دلچسپی رکھنے والے خود ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ان شکایات کی نوعیت یہ تھی کہ ہمارے پنجاب اور کراچی کے احباب مرچ مصالحہ زیادہ جبکہ پشتون احباب کم مصالحہ پسند کرتے ہیں۔اس بات کو بڑے سادہ اندازہ میں سمجھا جا سکتا ہے۔کہ اتنی بڑی اور مکس گیدرنگ میں ایک درمیانہ اصول اپنایا جا سکتا ہے اور وہ ہم نے اپنایا اور پوری دنیا کا یہی اصول ہے۔کھانے بنانے کے لیے جن کچنز کا انتخاب کیا گیا وہ نہایت پرکھ اور جانچ کے بعد کیا گیا۔اس کے لیے باقاعدہ اصول و ضوابط مقرر کیے گئے تھے جن پر سختی سے کاربند رہا گیا۔دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب کا محکمہ بلدیہ نہایت چوکس اور فعال ہے۔وہ صرف لائسنس جاری نہیں کرتے بلکہ ہر روز وزٹ کرتے ہیں۔اور چھوٹی سی غلطی پر پورا کا پورا کام بند کر دیتے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں سے یہ شکایت ااعشاریہ ایک فی صد سے بھی نہایت کم ہیں۔دوسرا معاملہ ہو گیا عمارت کا۔تو مدینہ منورہ مرکزیہ میں موجود ایک ہوٹل کے بارے میں ہمیں شکایت ملی۔جس کا فوری طور پر ہم نے نوٹس لیا۔چونکہ پیسے پہلے کچھ ایڈوانس دیے جا چکے ہوتے ہیںلیکن بلڈنگ کے مالک کو سخت نوٹس دیا گیا۔اور جو شکایات دور کی جا سکتی تھیں وہ دور کرنے کو کہا گیا اور آئندہ کے اس کو مکمل طور پر بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مکہ مکرمہ میں چند ایک جگہ پر لفٹ خراب ہونے یا اے سی خراب ہونے کی شکایت ملیں۔جن کا ازالہ کیا گیا۔اس دوران کچھ صاحبان نے وڈیو بنائیں اور ان کو ثواب سمجھ کر پھیلایا گیا۔ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں تھی۔جو بیان کی گئی۔اس دفعہ منی و عرفات میں 47 مکاتیب کا انتخاب کیا گیا تھا۔یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کی مشاعر میں تمام تر انتظامت اور مکمل کنٹرول سعودی کمپنیوں کا ہوتا ہے۔الحمدللہ ہمارے زیادہ تر خیمے اولڈ منی میں تھے۔اور انتظامات بھی اچھے تھے صرف دو جگہوں پر پیکنگ والے کھانے یا پاکستانی روٹی کے بجائے خبز دیا گیا۔اس طرح کی ایک بڑی شکایت مکتب نمبر 80 میں ملی۔جہاں سے پتا چلا کہ کھانا پیکنگ والا دیا جا رہا ہے۔میں نے فوری طور جنوب ایشیا موسسہ کے انچارج رافت بدر کے ساتھ بات کی اور ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر مسئلہ حل کریں۔چناچہ انہوں نے فوری ایکشن لیا۔مکتب 80 کے معلم سے بات کی اور اس کو شکایت دور کرنے کو کہا اور بقیہ وقت میں پاکستانی روٹی مہیا کرنے کو کہا۔یہ اقدامات لینے کے بعد رافت بدر نے مجھے فون کیا۔اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔جس کے بعد ہماری ٹیم نے حاجیوں کو ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔
مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، منی، عرفات اور مزدلفہ میں، میں نے خود متعدد مقامات کو دورہ کیا۔سیکڑوں لوگوں سے ملا۔اور ان سے حال احوال کیا۔اس مرتبہ مشاعر میں ہمارے 53000 حجاج کرام نے فاسٹ اسپیڈ ٹرین کی سہولت سے فائدہ اٹھایا۔گزشتہ سال کی نسبت اس دفعہ کرایہ ڈبل کر دیا گیا تھا چناچہ میں نے اس موضوع پرسعودی ذمے دار حضرات سے بات کی اور اس اضافے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔اس پر انھوں نے کہا کہ یہ چیز تحریری طور پر دیںچناںچہ ہم نے لکھ دیا ہے۔اس میں بھی جو رعایت ہوئی وہ ہم حجاج کرام کو واپس کریں گے۔ایک اور اہم بات تحدیث نعمت کے طور پر بیان کر دوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے 72 بیمار حجاج کو ایمبولنس پر منی سے عرفات، مزدلفہ اور طواف زیارت کروایا۔یہ حضرات اس کے بغیر شاید اس سعادت سے محروم رہ جاتے۔عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ہم نے تمام ممکنہ انسانی وسائل ضیوف الرحمن کی خدمت کے لیے صرف کیے۔اس میں جو کمی ہوئی اس پر معافی کے خواستگار ہیں۔اور جو اچھا ہوا اس پر اللہ پاک سے اجر کے متمنی ہیں۔اللہ کے فضل سے میں پہلے بھی ایم این اے اور وزیر رہ چکا ہے۔یہ اللہ کی کرم نوازی ہیکہ اس مرتبہ بھی قیادت نے اعتماد کیا اور مجھے وزیر بنایا۔لیکن میں اپنے پورے ایمان اور یقین سے کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑا مرحلہ میرے لیے یہ ہے کہ قیامت کے دن آقائے دوجہاں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔اس لیے یہ وزارت اہم نہیں ہے۔اہم یہ ہے کہ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ کوئی کوتاہی نہ ہو۔ان کو کوئی گلہ اور شکوہ نہ ہو۔چناچہ میرا عزم ہے کہ جو صلاحیت اللہ نے دی ہے وہ اس کے لیے صرف کرونگااور نہ خود کوئی کوتاہی کروں گا نہ کسی دوسرے کی برداشت کروں گا۔بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔اور ہم ہر اچھی بات کا خیر مقدم کریں گے.میں اس موقع پر حج کے بہترین انتظامات کرنے پر خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، وزارت داخلہ و حج گورنر مکہ اور پوری حکومت رشک کرتی ہے

الیکشن 2018 میں کامیابی اور اس کے بعد وزارت مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی کا قلمدان ملنا اللہ پاک کا فضل اور بے پاپاں کرم اور رسولؐ کی ذات با برکات سے محبت اور عقیدت کا مظہر تھا۔وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان کی طرف سے اعتماد کا اظہار میرے لیے حوصلے اور اعتماد کا سبب بنا۔کیوں کہ یہ وزارت اور ذمے داری جہاں بہت بڑا اعزاز تھا وہاں پر یہ ایک بہت بڑی ذمے داری بھی تھی۔گویا دنیا کے اندر پل صراط عبور کرنا تھا۔یہ سوچ کر روح کانپتی تھی کہ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ ذرا بھی اونچ نیچ ہو گئی تو اس کا حساب مشکل ہو گا۔اللہ کریم کے کرم اور آقائے دوجہاں ختمی مرتبت نبی کریمؐکی ذات عالیہ کے ساتھ محبت کے سرمائے کے ساتھ کام کا آغاز کیا اور پھر قدم آگے بڑھنے لگے۔حج 2019 کی پہلی اہم بات پاکستان کے حج کوٹے میں اضافہ تھا۔جبکہ دوسری اور اہم ترین پیش رفت پاکستان کو روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ میں شامل کرنا تھا۔جو وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات کے نتیجہ میں ایک اہم بریک تھرو تھا۔ حجاج کرام کی امیگریشن جو جدہ اور مدینہ منورہ ائر پورٹ پر ہوتی تھی وہ اسلام آباد ائر پورٹ پر ہونے لگی۔ اس طرح حاجی صاحبان کو سعودی ائر پورٹس پر انتظار کی جو زحمت اور کوفت اٹھانا پڑتی تھی اس سے بچ گئے۔ سامان بھی براہ راست ان کی رہائش گاہوں پر پہنچنا تھا۔ اس خوشی کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو ان تکالیف سے گزر چکا ہو۔ روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ کے تحت اس دفعہ 22 ہزار پاکستانی مستفید ہوئے۔ابتدائی طور پر یہ سہولت اسلام آباد ائرپورٹ سے شروع ہوئی ہے۔اگلے مراحل میں ان شاء اللہ پورے پاکستان کے حاجی اس سے فیض یاب ہو سکیں گے۔اس میں اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب کی چالیس رکنی ٹیم سارے عرصے کے دوران سیرینا ہوٹل میں اپنے خرچ پر ٹھیری رہی۔اور یہ اضافی اخراجات سعودی حکومت نے خود برداشت کیے۔ حج پیکیج 2019 میں اضافہ نہ کرنا میری، آپ کی اور حکومت کی مشترکہ سوچ تھی لیکن امر مانع یہ تھا کہ روپے کی قدر میں کمی اور کچھ سعودی ٹیکسوں کی وجہ سے یہ اضافہ ناگزیر تھا۔جو بادل نخواستہ کرنا پڑا۔ماہرین جانتے ہیں کہ قیمت روپوں میں بڑھی ریالوں میں فرق نہیں آیا۔اس کا جو حل ہم سے ہو سکتا تھا وہ یہ کیا کہ میں نے خود سعودی عرب کا دورہ کیا۔عمارتوں کا تفصیلی جائزہ لیا۔ ریٹس چیک کیے۔ ٹرانسپورٹ کا جائزہ لیا۔ ماضی میں جن کمپنیوں کی شکایات تھیں ان سے اجتناب کیا۔اور یہ کوشش کی کہ یہاں سے جو ممکن ہو سکتا ہے ضیوف کرام کو فائدہ پہنچایا جائے۔بہتر سے بہتر تر رہائش گاہوں کا انتخاب کیا۔اس کے دو فائدے ہوئے۔ایک معیاری انتخاب اور دوسرا پیسوں کی بچت اور یہ بچت کسی فرد، افراد یا حکومت کے بجائے براہ راست اللہ کے مہمانوں کو ہوئی۔چنانچہ ہر حاجی کو اس کی رہائش گاہ کے حساب سے پیسے واپس کیے گئے۔جو پچیس ہزار روپے سے ساٹھ ہزار روپے تک بنتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اتنی بڑی رقم اس سے پہلے واپس نہیں کی گئی۔یہ ایک احسن اقدام ہے جس کی تحسین کی جانی چاہیے۔ یکم اگست کو اللہ کی تائید و نصرت سے براہ راست حج آپریشن کی نگرانی کے لیے پہنچ گیا۔
آقا کے در پر حاضر ہوا۔ سلام اور درود کے نذرانے پیش کرنے کے بعد ایک نیا ولولہ اور جوش تازہ لے کر پھر کام کے لیے کمر بستہ ہوئے۔ پاکستان ہائوس مدینہ منورہ میں تمام ذمے داران کا اجلاس بلایا اور شروع سے آخر تک تمام انتظامات اور عملی آپریشن کا ازسرنو جائزہ لیا۔یہ کہنا کہ ہم معیار مطلوب کو پہنچ گئے شاید ٹھیک نہ ہو کیوں کہ بہتری کی گنجائش ہر وقت رہتی ہے۔لیکن انسانی حد تک ہم نے بھرپور جائزہ لیا اور عملی آپریشن کے تمام حصوں کا قدم بقدم جائزہ لیا۔ اس دفعہ کی ایک اور اہم ترین کامیابی یہ تھی کہ انتہائی کم ترین ریٹس میں 112000 حجاج کرام مدینہ منورہ کے اعلی ترین ہوٹلوں میں قیام پزیر ہوئے یہ پاکستان کی طرف سے اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ صرف دس ہزار کے قریب حاجی مرکزیہ سے باہر تھے۔لیکن ان کو بھی تین سو ریال تک واپس کیے گئے۔اس دفعہ سیزنل اسٹاف کی تعداد 338 تھی۔میڈیکل مشن میں 614 لوگوں نے خدمات سرانجام دیں۔میں نے خود میڈیکل مشن کا دورہ کیا۔لیکن قابل ستائش بات یہ ہے کہ ہمارے میڈیکل مشن کی تعریف خود سعودی حکام نے کی جو ہمارے لیے خوشی کا امر تھا۔معاونین حجاج جو مختلف محکموں سے جاتے ہیں ان کی تعداد 655 تھی۔جبکہ مقامی طور پر انتظام چلانے کے لیے 1403 افراد کی خدمت حاصل کی گئی۔یہ زیادہ تر سعودیہ میں مقیم پاکستانی ہوتے ہیں۔ان کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ یہ مقامی زبان پر عبور رکھتے ہیں اور راستوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔ جس کا دہرا فائدہ ہوتا ہے۔اسی طرح 402 پرائیویٹ حج گروپس کو مکہ جبکہ 104 کو مدینہ میں سرپرائز وزٹ کیا گیا۔مکہ مکرمہ میں 28 جبکہ مدینہ منورہ میں شکایات ملیں اور ان کا فوری طور پر ازالہ کروایا گیا۔راستوں سے لا علمی کی وجہ سے 281 لوگ گم ہوئے اور الحمدللہ ہماری ٹیم نے 281 گم شدہ لوگوں کو واپس ان کے خیموں میں پہنچایا۔
اسی طرح 591 لوگوں کا سامان گم ہوا اور وہ ہمارے رضاکاروں نے تلاش کر کے ان تک پہنچایا۔ وزارت کی طرف سے ایک ٹول فری نمبر دیا گیا تھا جس پر حجاج کرام اپنی شکایات اور مسائل بیان کر سکتے تھے۔چناچہ اب تک کی رپورٹس کے مطابق 730 لوگوں کی فون پر مختلف طرح کی شکایات ملیں اور ان کا فوری طور پر ازالہ کیا گیا۔ہمارے میڈیکل مشن میں 18650 مریضوں نے وزٹ کیا اور ان کا علاج معالجہ ہوا۔ 106 لوگ داخل ہوئے۔جن کا بہترین طریقے سے علاج کیا گیا۔مدینہ پاک سے حاضری کے بعد احرام باندھا اور سوئے حرم ہوئے۔
یہ دو کپڑوں والا سفید لباس پہن کر کیا کیفیت ہوتی ہے۔بس بندہ اور اس کا رب، کوئی فاصلہ نہیں درمیان میں۔
مکہ مکرمہ کی عظمت اور رفعت کیا بیان ہو جہاں پر اللہ کا گھر ہے۔نبی کریمؐ کی جائے پیدائش، جہاں سے لا الہ کا نور پھیلا اور پوری دنیا کو منور کیا۔ طواف کے سات پھیرے اور سعی کے چکر جہاں مائی حاجرہ علیہ السلام، سیدنا اسماعیلؑ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یاد دلاتے ہیں۔وہاں بندے کا رب سے تعلق بھی مضبوط کرتے ہیں۔
احرام اتار کر ایک بار پھر حج آپریشن کے آخری مراحل کا جائزہ لیا۔ اور پھر احرام پہن کر منی پہنچے۔اپنے خیمے میں آرام کرنے کے بجائے ایک ایک خیمہ کا دورہ کیا۔جہاں تک بس چلا چلتا گیا۔ اور پھر عرفات کا تاریخی دن جن اللہ کی رحمت نے جوش مارا اور اگست کے مہینے میں جب گرمی شدید ہوتی ہے۔اور ہلکا سا سایہ بھی ایک نعمت معلوم ہوتا ہے۔وہاں پر موسلا دھار بارش ہوئی۔اور اللہ کے فضل سے اس بارش میں بھی اپنے حجاج کرام کو نہیں بھولے۔جہاں تک ٹانگوں نے ساتھ دیا وہاں تک چلتے گئے اور ہر ایک کی خیریت معلوم کرنے کی کوشش کی۔الحمدللہ کہ کوئی نقصان نہیں ہوا۔اب آتے ہیں معروف پروپیگنڈا کی طرف کہ حج آپریشن ایسا ہو گیا ویسا ہو گیا۔اس سارے افسانے کی حقیقت بیان کرنے سے پہلے یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ حج آپریشن کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک کا انتظام ہم کرتے ہیں جبکہ دوسرا حصہ سعودی معلمین کے ذمے ہوتا ہے۔مکہ اور مدینہ کی رہائش، کھانا اور ٹرانسپورٹ ہمارے ذمے جبکہ منی عرفات اور مزدلفہ سعودی معلمین کے ذمے ہوتا ہے۔
122000 حجاج کرام میں سے صرف 103 لوگوں نے کھانے کے معیار کے حوالے سے شکایت کی۔186 لوگوں نے رہائش کی شکایت کی اور صرف 24 لوگوں نے ٹرانسپورٹ کی شکایت کی۔ارباب علم و دانش اور دلچسپی رکھنے والے خود ملاحظہ کر سکتے ہیں۔ان شکایات کی نوعیت یہ تھی کہ ہمارے پنجاب اور کراچی کے احباب مرچ مصالحہ زیادہ جبکہ پشتون احباب کم مصالحہ پسند کرتے ہیں۔اس بات کو بڑے سادہ اندازہ میں سمجھا جا سکتا ہے۔کہ اتنی بڑی اور مکس گیدرنگ میں ایک درمیانہ اصول اپنایا جا سکتا ہے اور وہ ہم نے اپنایا اور پوری دنیا کا یہی اصول ہے۔کھانے بنانے کے لیے جن کچنز کا انتخاب کیا گیا وہ نہایت پرکھ اور جانچ کے بعد کیا گیا۔اس کے لیے باقاعدہ اصول و ضوابط مقرر کیے گئے تھے جن پر سختی سے کاربند رہا گیا۔دوسری بات یہ ہے کہ سعودی عرب کا محکمہ بلدیہ نہایت چوکس اور فعال ہے۔وہ صرف لائسنس جاری نہیں کرتے بلکہ ہر روز وزٹ کرتے ہیں۔اور چھوٹی سی غلطی پر پورا کا پورا کام بند کر دیتے ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں سے یہ شکایت ااعشاریہ ایک فی صد سے بھی نہایت کم ہیں۔دوسرا معاملہ ہو گیا عمارت کا۔تو مدینہ منورہ مرکزیہ میں موجود ایک ہوٹل کے بارے میں ہمیں شکایت ملی۔جس کا فوری طور پر ہم نے نوٹس لیا۔چونکہ پیسے پہلے کچھ ایڈوانس دیے جا چکے ہوتے ہیںلیکن بلڈنگ کے مالک کو سخت نوٹس دیا گیا۔اور جو شکایات دور کی جا سکتی تھیں وہ دور کرنے کو کہا گیا اور آئندہ کے اس کو مکمل طور پر بلیک لسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔مکہ مکرمہ میں چند ایک جگہ پر لفٹ خراب ہونے یا اے سی خراب ہونے کی شکایت ملیں۔جن کا ازالہ کیا گیا۔اس دوران کچھ صاحبان نے وڈیو بنائیں اور ان کو ثواب سمجھ کر پھیلایا گیا۔ان کی حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں تھی۔جو بیان کی گئی۔اس دفعہ منی و عرفات میں 47 مکاتیب کا انتخاب کیا گیا تھا۔یہ بات ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے کی مشاعر میں تمام تر انتظامت اور مکمل کنٹرول سعودی کمپنیوں کا ہوتا ہے۔الحمدللہ ہمارے زیادہ تر خیمے اولڈ منی میں تھے۔اور انتظامات بھی اچھے تھے صرف دو جگہوں پر پیکنگ والے کھانے یا پاکستانی روٹی کے بجائے خبز دیا گیا۔اس طرح کی ایک بڑی شکایت مکتب نمبر 80 میں ملی۔جہاں سے پتا چلا کہ کھانا پیکنگ والا دیا جا رہا ہے۔میں نے فوری طور جنوب ایشیا موسسہ کے انچارج رافت بدر کے ساتھ بات کی اور ان سے کہا کہ وہ فوری طور پر مسئلہ حل کریں۔چناچہ انہوں نے فوری ایکشن لیا۔مکتب 80 کے معلم سے بات کی اور اس کو شکایت دور کرنے کو کہا اور بقیہ وقت میں پاکستانی روٹی مہیا کرنے کو کہا۔یہ اقدامات لینے کے بعد رافت بدر نے مجھے فون کیا۔اور ساری صورت حال سے آگاہ کیا۔جس کے بعد ہماری ٹیم نے حاجیوں کو ہونے والی پیش رفت سے آگاہ کیا۔
مدینہ منورہ، مکہ مکرمہ، منی، عرفات اور مزدلفہ میں، میں نے خود متعدد مقامات کو دورہ کیا۔سیکڑوں لوگوں سے ملا۔اور ان سے حال احوال کیا۔اس مرتبہ مشاعر میں ہمارے 53000 حجاج کرام نے فاسٹ اسپیڈ ٹرین کی سہولت سے فائدہ اٹھایا۔گزشتہ سال کی نسبت اس دفعہ کرایہ ڈبل کر دیا گیا تھا چناچہ میں نے اس موضوع پرسعودی ذمے دار حضرات سے بات کی اور اس اضافے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔اس پر انھوں نے کہا کہ یہ چیز تحریری طور پر دیںچناںچہ ہم نے لکھ دیا ہے۔اس میں بھی جو رعایت ہوئی وہ ہم حجاج کرام کو واپس کریں گے۔ایک اور اہم بات تحدیث نعمت کے طور پر بیان کر دوں کہ اللہ کے فضل و کرم سے ہم نے 72 بیمار حجاج کو ایمبولنس پر منی سے عرفات، مزدلفہ اور طواف زیارت کروایا۔یہ حضرات اس کے بغیر شاید اس سعادت سے محروم رہ جاتے۔عرض کرنے کا مقصد ہے کہ ہم نے تمام ممکنہ انسانی وسائل ضیوف الرحمن کی خدمت کے لیے صرف کیے۔اس میں جو کمی ہوئی اس پر معافی کے خواستگار ہیں۔اور جو اچھا ہوا اس پر اللہ پاک سے اجر کے متمنی ہیں۔اللہ کے فضل سے میں پہلے بھی ایم این اے اور وزیر رہ چکا ہے۔یہ اللہ کی کرم نوازی ہیکہ اس مرتبہ بھی قیادت نے اعتماد کیا اور مجھے وزیر بنایا۔لیکن میں اپنے پورے ایمان اور یقین سے کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑا مرحلہ میرے لیے یہ ہے کہ قیامت کے دن آقائے دوجہاں کے سامنے شرمندہ نہ ہوں۔اس لیے یہ وزارت اہم نہیں ہے۔اہم یہ ہے کہ اللہ کے مہمانوں کے ساتھ کوئی کوتاہی نہ ہو۔ان کو کوئی گلہ اور شکوہ نہ ہو۔چناچہ میرا عزم ہے کہ جو صلاحیت اللہ نے دی ہے وہ اس کے لیے صرف کرونگااور نہ خود کوئی کوتاہی کروں گا نہ کسی دوسرے کی برداشت کروں گا۔بہتری کی گنجائش ہر وقت موجود رہتی ہے۔اور ہم ہر اچھی بات کا خیر مقدم کریں گے.میں اس موقع پر حج کے بہترین انتظامات کرنے پر خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز، وزارت داخلہ و حج گورنر مکہ اور پوری حکومت رشک کرتی ہے