جموں وکشمیر کی کشیدہ صورتحال

412

بھارت کی ہندو انتہا پسندحکومت کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 370 کو آئین سے حذف کرتے ہوئے مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق اس آئینی ترمیم کے بعد مقبوضہ جموں کشمیر اب ریاست نہیں کہلائے گی بلکہ اسے بھارتی یونین کا علاقہ تصور کیا جائے گا اور اس کی علیحدہ اسمبلی ہو گی۔ اس دفعہ کی تنسیخ کا مقصد کشمیر میں غیر کشمیریوں کو بڑے پیمانے پربسا کر کشمیری مسلمانوں کو اقلیت میں بعینہ اسی طرح تبدیل کرنا ہے جس طرح مقبوضہ عرب علاقوں میں فلسطینیوں کو اقلیت میں تبدیل کر کے یہودیوں پر مشتمل اسرائیل کی صہیونی ریاست قائم کی گئی۔ یاد رہے کہ دفعہ 370 کی وجہ سے جموں کشمیر کو خصوصی ریاست کا درجہ حاصل تھا جسے اب ختم کردیا گیا ہے جب کہ آرٹیکل 35 اے کے مطابق کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا ہے اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائداد نہیں خرید سکتا اور نہ ہی یہاں کا مستقل شہری بن سکتا ہے نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا ہے لہٰذا اب اس دفعہ کے خاتمے سے بھارت کی ہندو جنونی حکومت نے نریندر مودی کی قیادت میں کشمیر کے خصوصی ریاست کے درجے کو ختم کر دیا ہے جس کا وعدہ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا۔ آرٹیکل 370 کی موجودگی میں صرف تین ہی معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس تھے جن میں دفاع، خارجہ امور اور کرنسی شامل تھے جب کہ باقی تمام اختیارات جموں و کشمیر حکومت کے پاس تھے جو اب اس سے متذکرہ دفعہ کے خاتمے کی صورت میں چھین لیے گئے ہیں۔ مودی سرکار کے اس انتہا پسندانہ اقدام کے بعد پورے مقبوضہ جموں کشمیر میں نہ صرف کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے بلکہ مقبوضہ کشمیر میں انٹرنیٹ، ٹیلی فون اور موبائل فون سروس کی بندش کے علاوہ میڈیا سمیت تمام تعلیمی اداروں کو تاحکم ثانی بند کرنے کے علاوہ بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کردیا گیا ہے۔ مودی سرکار نے حریت قیادت سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کے علاوہ بھارت نواز سمجھے جانے والے قائدین محبوبہ مفتی، عمر عبداللہ اور سجاد لون سمیت کئی سیاسی لیڈروں کو گھروں میں نظربند کرنے کے علاوہ جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ کے راہنما یاسین ملک کو تہاڑ جیل میں قید کر دیا ہے۔ جب کہ دہلی حکومت نے مزید 70 ہزار تازہ دم فوجی وادی میں بھیج کر ریاستی دہشت گردی کی ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔
دوسری جانب وزیراعظم عمران خان جو کل تک بھارت سے دوستی اور مذاکرات کی بھیک مانگ رہے تھے نے مودی سرکار کا حقیقی چہرہ دیکھنے کے بعد کہا ہے کہ اگر جنگ ہوئی تو ہمارے پاس دو راستے ہوں گے، ایک راستہ ٹیپو سلطان اور دوسرا بہادر شاہ ظفر والا ہوگا، یہ ہو نہیں سکتا کہ بھارت ہم پر حملہ کرے اور ہم جواب نہیں دیں گے۔ ہم یہ جنگ خون کے آخری قطرے تک لڑیں گے۔ یہ جنگ کوئی نہیں جیت سکتا، اس کے اثرات دنیا پر پڑیں گے، دنیا سے اپیل ہے ابھی کچھ کرے، ورنہ ہاتھ سے سب کچھ نکل جائے گا۔ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کورکمانڈرز کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک فوج، حق خودارادیت کے لیے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑی ہے اور ہم اس ذمے داری کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہرحد تک جائیں گے۔ اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان، کشمیر پر شرمناک قبضے کو آرٹیکل 370 یا 35 اے کے ذریعے قانونی بنانے کی بھارتی کوششوں کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔
تیسری جانب ان ویڈیو کلپس اور میڈیا رپورٹس نے ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی کا پول ان اطلاعات کی صورت میں کھول کررکھ دیا ہے جن میں اسلام آباد کے مختلف علاقوں بالخصوص ریڈ زون میں ایسے بینرز ٹھیک اس دن آویزاں دکھائی دیے جس دن یہ متنازع بل راجیا سبھا میں پیش کیا جارہا تھا جن پر انڈیا کی ہندو انتہا پسند تنظیم شو سینا کے رہنما سنجے راوت کا یہ بیان لکھا تھا کہ آج جموں وکشمیر لیا ہے کل بلوچستان اور آزاد کشمیر لیں گے اور مجھے وشواس ہے کہ وزیر اعظم اکھنڈ ہندوستان کا سپنا پورا کریں گے۔ سوال یہ ہے کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں جو اپنی سہولت اور ضرورت کے مطابق پاتال سے بھی مجرموں اور ملزموں کا سراغ لگانے کا دعویٰ اور شہرت رکھتی ہیں اس دن آخر ایسی کیا افتاد پڑی تھی کہ یہ ایجنسیاں اور ان کے اہلکار وفاقی دارالحکومت میں پاکستانیوں کے دلوں پر مونگ دلنے اور ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے پر مبنی ان بینرز کا سراغ نہیں لگا سکے جو یقینا ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے۔
اسی طرح بھارت کے حالیہ جارحانہ اور انتقام پر مبنی اقدام کا پاکستان کے حوالے سے ایک افسوس ناک پہلو اس اہم قومی ایشو پر حکومت اور اپوزیشن کا قومی یکجہتی کے بجائے اپنی اپنی سیاست کی دکان چمکانا ہے جس کا اظہار پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف نازیبا جملوں کے تبادلے اور الزامات کی صورت میں دیکھنے کو ملا ہے۔ مسئلہ کشمیر جیسے حساس قومی ایشو پر بھی سیاستدانوں کا ایک پیج پر اکٹھا نہ ہونے سے عوام میں حکومت اور اپوزیشن کے حوالے سے یکساں طور پر مایوسی کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ قوم ان کھوٹے سکوں کو مزید برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ لہٰذ مسئلہ کشمیر جیسے زندگی اور موت کے حامل مسئلے پر بھی اگر پاکستان کی سیاسی قیادت کی جانب سے سنجیدگی دکھاتے ہوئے کوئی مشترکہ موقف نہ اپنایا گیا تو پھر تاریخ ایسے خود غرض اور نااہل رہنماؤں کو ہرگز معاف نہیں کرے گی۔