عوام کی عدالت نیب، ایک بار پھر جوابدہ

363

راشد منان
مسلم لیگ ن کی نائب صدر محترمہ مریم نواز کی اپنی جماعت کے صدر اور اعلیٰ قیادت کے ساتھ کی گئی پریس کانفرنس اور اس میں احتساب عدالت کے جج جناب ارشد ملک پر لگائے گئے الزامات اس اصرار کے ساتھ کہ یہ درست ہیں اور یہ کہ ان کے پاس ٹھوس شواہد موجود ہیں جو مناسب وقت پر پیش کیے جائیں گے ملک میں انصاف فراہم کرنے والے تمام اداروں کو خود انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں یہ پہلا موقع نہیں جب انصاف کرنے والوں پر انگلیاں اٹھائی گئی ہوں جسٹس منیر تا جسٹس قیوم ملک اعلیٰ عدالتوں کے جج اس کی زد میں رہے ہیں اور زیریں عدالتوں کی تو بات ہی نہ کی جائے تو بہتر ہے یہ کہنا توہین عدالت تو ہوسکتا ہے مگر غلط بالکل بھی نہیں کہ ملک کی زیریں عدالتوں میں انصاف باقاعدہ بکتا ہے۔ ہماری عدالتوں میں اپنے منصب اور خدا کی عدالت میں جوابدہی کے احساس سے عاری انصافیوں کے ناک کے عین نیچے ان سمیت ان کے اردلی تا تمام ماتحت ہر صبح خالی جیب اپنے گھر کے نکڑوں سے ادھار پان کی پڑیا یا مین پوری لیکر نکلتے ہیں اور شام گئے جب وہ گھر واپس آتے ہیں تو دن بھر کے کام کاج کی تھکن سے زیادہ ان کی جیب میں موجود رقم کا وزن ان کی طبیعت کو بوجھل کیے رکھتا ہے کون نہیں جانتا اس سچ کو؟ اور کسی کو اس کا ثبوت درکار ہے تو بس کسی ایک دن تھوڑا وقت کا ایثار کرے اور صرف چند لمحے ملک کی کسی زیریں اور سیشن عدالت کا چکر لگا آئے۔ قصہ مختصر جج ارشد ملک کے اس خوفناک وڈیو اعتراف کے بعد اب چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر لازم ہے کہ وہ عدالتوں کے خلاف ایک موثر گواہی کا بھر پور جائزہ لیں اور اپنی غیر جانبدارانہ تفتیش سے عدالتوں پر لگے اس الزام کی صفائی پیش کریں جس کی دہائی ہمارے ملک کا غریب ہمیشہ دیتا رہا ہے اور وہ بیچارہ نہ جاننے کے باوجود ان قانونی سقم پر اپنی انگلیاں اٹھاتا رہا ہے جس کا شکار وہ نہیں اس کی نسلیں نہ جانے کب سے رہی ہیں۔
مریم نواز کا تعلق چوںکہ ملک کی ایلیٹ کلاس اور فیوڈل طبقے سے ہے اس وجہ سے ان کی باتوں میں سب کو جان نظر آتی ہے جو ملک میں موجود 80 نہیں بلکہ اب 90 فی صد کو میسر نہیں اور اسی باعث ملک میں انصاف کا خون نہیں اس کا دریا بہتا رہا ہے۔ نہ جانے کتنے ان دولت کے پجاری انصافیوں کے زد میں آکر اپنی ناکردہ گناہوں کی سزا اب بھی بھگت رہے ہیں اور کتنوں کو انصاف انہیں بعد از مرگ ملا جو ان کے اہل خانہ کو دکھوں کے مزید عذاب میں مبتلا کر گیا۔ اس پریس کانفرنس سے حکومت وقت کی صفوں میں ایک عجیب سی کھلبلی اور گویا کہ ایک آگ سی بھرکتی نظر آئی اور تادم تحریر حکومت وقت کے بیسیوں وزراء، مشیران اور معاونین خصوصی اس وڈیو کے خلاف لب کشائی اور حزب اختلاف کی طرف سے اسے جھوٹ فریب اور مکر کا ایک نیا حربہ قرار دے چکے ہیں گویا کہ الزام جج پر نہیں براہ راست انہیں پر لگایا گیا ہے اور جس کے لیے وہ ماضی کے قصے بھی سناتے رہے ہیں مسئلہ یہ نہیں کہ ماضی میں یہ کام کیوں ہوا؟ اور کیا ہر بار ماضی کو حال کے لیے دلیل بنانا احسن عمل ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو لوگ ماضی میں اس گھنائونے فعل کے مرتکب ہوئے تھے اور ابھی وہ حیات ہیں انہیں ان کے اس عمل پر نشان عبرت بنا دیا جائے اور حالیہ الزامات کی شفاف تحقیقات کرا کر انہیں بھی ان ہی سولیوں پر لٹکایا جائے جس پر نہ جانے کتنے مظلوموں کو ان کے غلط فیصلوں کی بھینٹ چڑھایا گیا ہے۔
موجودہ حکومت نے ایک اعلی سطح کا تحقیقاتی کمیشن جو دس سالہ قرضوں کے کھوج کے لیے بنایا گیا ہے اسی طرح بہت پیچھے نہ جایا جائے اور بات شہباز شریف اور جسٹس ملک قیوم سے شروع کرکے ملک کے موجودہ صدر عارف علوی کے اس مبینہ آڈیو ہی سے شروع کی جائے جس میں نادیدہ طاقتوں کے خلاف واضح شواہد موجود ہیں اور اگر عادف علوی کواس بات کا احساس ہو جائے تو کیا ہی اچھا ہو کہ وہ خود کو عدالت میں پیش کرکے اپنے اپ کو آئین کی دفعہ 62 اور 63 کا اہل ٹھیرائیں اور تاریخ میں اپنا نام لکھوائیں حکومت کے وزراء اور مشیران خصوصاً فردوس عاشق اعوان اور شہباز گل کا مستقلاً یہ استدلال کہ ناصر بٹ نامی شخص مشہور زمانہ قاتل مفرور اور منشیات فروش ہے جو نواز شریف کا باڈی گارڈ بھی رہا ہے اس خائن شخص کی طرف سے کسی آڈیو وڈیو کا جاری کرنا حکومت وقت کو دبائو میں لینے اور نیب جیسے آزاد ادارے اور ان کے ججوں کی کردار کشی کے مترادف ہے جو ایک طرف تو حکومتی کیمپ میں لگی آگ اور اٹھتے دھوئیں کی نشاندہی کرتا ہے اور دوسری جانب احتساب عدالت کے جج ارشد ملک صاحب پر فرد جرم بھی کہ ان کے تعلقات ایسے عوام دشمنوں کے ساتھ کیوں ہیں؟ اور کیا ان کے حلقہ احباب میں کوئی ایک نیک نفس اور شریف ادمی ایسا نہیں جس کو وہ اپنا درد بیان کرتے؟ یہ سوال نہ صرف ارشد ملک صاحب پر بلکہ نیب کے چیئرمین جسٹس جاوید اقبال پر بھی اٹھتا ہے کہ ان کے تعلقات ایسے لوگوں سے ہیں ہی کیوں جن کی وجہ سے ان کی مبینہ آڈیو اور وڈیوز منظر عام پر آتی ہیں۔ ابھی چند دنوں کی بات ہے کہ نیب کے چیئرمین جاوید اقبال نے ایک پریس کانفرنس میں ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا تھا کہ خود ان کے یا ان کے ادارے کا کسی بھی فرد کا کسی سیاسی جماعت یا ان کے کسی بھی فرد سے رابطے کا کوئی ثبوت ملے تو وہ مستعفی ہو جائیں گے تو جناب پھر ہو جائے بسم اللہ ناصر بٹ بہت برا نہیں مگر ہے تو وہ مسلم لیگ ن لندن کا صدر تو کیا عوام الناس پھر آپ کے دعویٰ کا انتظار کریں یا پھر اسے بھی ہم شیخ رشید کی طرح کی بھڑکیوں میں شمار کریں۔