شہر سے بارہ میل پَرے اِک بستی تھی

1209

 

 

اُس روز مدتوں بعد جامعہ کراچی کو دیکھا تو جی دھک سے رہ گیا۔ یہ جگہ تو کسی ’بچہ جیل‘ کے بیرون کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ۱۹۷۴ء میں جب ہم نے پہلی بار جامعہ کراچی میں داخلہ لیا تھا تویہاں ’داخل‘ ہونے کی راہیں ہر طرف سے کھلی تھیں۔ کہیں کوئی چار دیواری کھنچی ہوئی تھی نہ دولتِ علم پر ’سرحدی دربان‘ بٹھائے گئے تھے۔ علم کی راہ کے یہ حاجب جو Rangers کہے جاتے ہیں… بلکہ ‘Rangers of Pakistan’ … انہیں پاکستانی سرحدوں پر دشمن کے لیے ’حاجب‘ بن جانے کو مقرر کیا گیا تھا۔ مگر اب دشمن سے شاید ہمیں خود ’حجاب‘ آنے لگا ہے۔ زمانہ ہم سے دشمنی کرتا رہے، مگر ہم دُم دباکر بیٹھے رہیں گے۔ دشمن کو ’محبوب ترین قوم‘ کا درجہ دینے لگیں گے اور خود ’محجوب ترین قوم‘ بن کر اور ریت میں گردن داب کر یہ تصور کرلیں گے کہ ہم نے دُشمن کا خاتمہ بالخیر کردیا ہے۔ کسی زمانے کا شاعر کہتا تھا:
’بھائیوں میں جنگ ہو گی، گر عدو باقی نہیں‘
مگر اب تو کھلا عدو بھی موجود ہے اور ملک بھرکے ’بھائیوں میں جنگ‘ بھی جاری ہے۔
ہم عرض کر رہے تھے کہ پہلے جامعہ میں داخل ہونے کی راہیں ہر طرف سے کھلی تھیں۔ آپ کسی طرف سے بھی ’داخل‘ ہوسکتے تھے۔ گوکہ داخلہ کا سب سے بڑا راستہ وہی تھا جہاں اب ’سلور جوبلی مینار‘ کھڑا ہے۔
یہ جگہ بھی، جہاں اب ’سلور جوبلی مینار‘ کھڑا ہے، جامعہ کی تاریخ میں ایک ’’تاریخی اہمیت‘‘ رکھتی ہے۔ جامعہ کراچی کا افتتاح ہوا تو یہیں سے تیس حُفاظِ قرآن صاحبان کے جلو میں شیخ الجامعہ (ابوبکر عبدالحلیم جو اپنا نام A.B.A Haleem لکھا کرتے تھے اور جن کو جامعہ کے شوخ و شنگ طالب علم’’ابّا حلیم‘‘ کے نام سے یاد کیا کرتے تھے) اور تمام اساتذہ، جامعہ کراچی کے استادوں کا سبز گاؤن پہنے، ایک قافلے کی صورت میں پاپیادہ اور نرم روی سے ’ایڈمنسٹریشن بلڈنگ‘ کی طرف روانہ ہوئے۔ ہر حافظِ قرآن کے ذمے ایک سیپارہ تلاوت کرتے ہوئے چلتے چلے جانا تھا۔ ’ایڈمنسٹریشن بلڈنگ‘ تک پہنچتے پہنچتے پورے قرآنِ کریم کی تلاوت مکمل ہوگئی۔
ایسا منفرد و ممتاز افتتاح ہمارے علم میں نہیں کہ کسی اور عمارت، ادارے یا یونیورسٹی کا ہوا ہو۔
جامعہ کراچی اُس زمانے میں ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ کہلاتا تھا۔ نیو ٹاؤن پولیس اسٹیشن اور پرانی سبزی منڈی کے بعد سے نیپا چورنگی تک کچھ بھی نہیں تھا۔ بس سڑک کے دونوں طرف ببول کے جھاڑ جھنکار سے بھرا، ایک سنسان، ویران اور بیابان راستہ تھا، جس پر گھڑر گھڑر کرتی جامعہ کے پوائنٹ کی بس آدھے گھنٹے تک چلا کرتی تھی۔ ڈاکٹر افضال قادری صاحب کی صاحبزادی راشدہ افضال (جو ڈاکٹر نثار احمد زبیری سے شادی کے بعد راشدہ نثار ہوگئیں) ہر ہفتے جامعہ کراچی کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں پر اخبار میں ایک کالم لکھا کرتی تھیں۔ اُس کالم کا مستقل عنوان بھی ’’شہر سے بارہ میل پرے‘‘ ہی تھا۔
ہر روشن اور چمکیلی صبح ’پوائنٹ‘ کی بسیں طلبہ و طالبات سے لدی پھندی جامعہ کراچی میں داخل ہوتیں۔ ’پوسٹ آفس‘ والا بس اسٹاپ جامعہ کراچی کا پہلا بس اسٹاپ تھا۔ بسوں کے طویل قافلہ کی پہلی بس ہی رُکتی تو وہاں رنگ ونور اور خوشبوؤں کی ایک بہار اُتر کر بسوں سے جامعہ کراچی کی رہ گزاروں پر پھیل جاتی۔ بوگن ویلیا کے پھولوں سے پٹی ہوئی یہ رہ گزاریںکسی خواب آگیں دُنیا کا منظر پیش کرتی تھیں … وہ دُنیا بھی عجب دُنیا تھی … داخلہ کے موسم میں انھی رہ گزاروں پر رنگا رنگ بینر لہرایا کرتے تھے جو… ’’نوواردانِ جامعہ کو خوش آمدید‘‘ … کہا کرتے تھے۔ سڑک کے کنارے مختلف طلبہ تنظیموں کے خوبصورت اور رنگین اسٹالز ساتھ ساتھ اور ایک قطار میں سجے ہوئے عجب دِل فریب ’جمہوری منظر‘ پیش کرتے تھے۔ تمام تنظیموں کے رضاکار ’نوواردانِ جامعہ‘ کو داخلہ فارم کے حصول، فارم پُر کرنے میں معاونت اور فارم جمع کرنے کے مراحل میں مدد کرکے گویا اُن کو اپنی تنظیم کی طرف راغب کیا کرتے تھے۔ کوئی مار نہ کُٹائی۔ جھگڑا نہ لڑائی۔ ہاں نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ جب تک جامعات میں یونین کے انتخابات ہوتے رہے، طلبہ و طالبات کو اس قسم کی سیاسی و جمہوری تربیت کے مواقع میسر رہے۔ ان تعلیمی اداروںسے ہمیں جاوید ہاشمی، لیاقت بلوچ، احسن اقبال اور رضا ربانی جیسے سیاسی قائدین ہی نہیں ادب، صحافت اور دانشوری کے شعبہ میں بھی بہت سے مشاہیر میسر آئے۔ ضیاء الحق کے زمانے میں طلبہ یونینوں کے انتخابات پر پابندی لگی جو اب تک برقرار ہے۔ ہر حکومت یہ پابندی اُٹھانے کا اعلان کرتی ہے۔ مگر کوئی نادیدہ طاقت اُسے قدم نہیں اُٹھانے دیتی۔ پاؤں پکڑ لیتی ہے۔
ہم جامعہ کے جس زمانے کا ذکر کر رہے ہیں، اُس زمانے میں ’مرکزی جامع مسجد‘ کی جگہ تو مختص تھی، مگر یہاں ایک خالی میدان پڑا ہوا تھا۔ ایک سادہ و پُرشکوہ مسجد کانووکیشن گراؤنڈ کے ایک گوشے میں نیشنل بینک کی عمارت کے سامنے واقع تھی، جو اَب بھی ہے۔ اُس کی سادگی میں بڑی کشش تھی، جو اَب بھی ہے۔ ایک ہال، ایک صحن اور ایک مینار۔ مسجد کے (اُس وقت کے) امام صاحب غالباً فلسطینی تھے۔ ان کی مشابہت بھی بہت حد تک مفتی اعظم فلسطین مرحوم امین الحسینی سے تھی۔ اُن کی دُعاؤں کا لہجہ آج تک حافظے میں گونج رہا ہے۔ ہم سب روزانہ ظہر کی نماز میں ضرور اُس مسجد میں جمع ہوتے تھے۔ نماز کے بعد ’عید ملن‘ کا سا سماں پیدا ہوجاتا۔ جامعہ کے مختلف شعبوںکے طالب علم اور اکثر اساتذہ سے یہاں ملاقات ہوجاتی۔ دیر تک مسجد میں چہل پہل رہتی۔
غالباً وہ اسّی کی دہائی کے ابتدائی برس تھے۔ ہم نوجوان تھے اور جامعہ کراچی ماشاء اللہ خوب جوان ہو چکی تھی۔ اب جامعہ میں داخل ہونے والی مرکزی شاہراہ کے آغاز پر ’سلور جوبلی مینار‘ نصب ہوچکا تھا۔ اُنھی دنوں کی ایک دوپہر کا قصہ ہے۔ دونوںجانب بوگن ویلیا کی سبز ڈالیوں اور سُرخ پھُولوں سے پٹی ہوئی اُس سڑک پر ہم خراماں، خراماں چلے جارہے تھے، جس کے ایک جانب کانووکیشن گراؤنڈ اور دوسری جانب سائنس فیکلٹی کے متعدد شعبہ جات ہیں۔ اتنے میں عقب سے چلتی موٹر سائیکل کی پھٹ پھٹ کی گونج میں ایک گرج دار آواز نے ہمیں پکارا:
’’احمد حاطب!‘‘
مڑ کر دیکھا تو عرفان الحق موٹر سائیکل چلارہے تھے۔ شفیع نقی اُن کے پیچھے بطور ’ڈبل سواری‘ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہی عرفان الحق جو اُس زمانے میں انجمن طلبہ کے جنرل سیکرٹری تھے، جب شفیع نقی جامعی صدر تھے۔ شفیع نقی اب لندن پہنچ کر بی بی سی کی اُردو سروس کو پیارے ہوچکے تھے۔ موٹر سائیکل ہم سے آگے جاکر رُکی۔ ہم نے اُنہیں دیکھتے ہی مارے خوشی کے بی بی سی کے مخصوص لہریے دار لہجے میں نعرہ مارا:
’’ارے؟ … کیا یہ بی بی سی لندن ہے؟‘‘
شفیع موٹر سائیکل سے کود کر اُترے اور کلیجے سے لگا لیا۔ دل کو کئی کہانیاں یاد سی آکے رہ گئیں۔
شفیع نقی صاحب … ’جامعی‘ … یوں کہے جاتے تھے کہ ڈاکٹر محمود حسین والے ’جامعہ ملّیہ‘ سے فارغ التحصیل تھے۔ جب شفیع نے جامعہ ملّیہ کالج سے جامعہ کراچی میں قدم رکھا تو اتفاق دیکھیے کہ ڈاکٹر محمود حسین ہی شیخ الجامعہ تھے۔ شفیع نقی کو ہماری نظر میں سب سے بڑا اعزاز یہ حاصل تھا کہ وہ ڈاکٹر محمود حسین کے چہیتے اور لائق شاگرد تھے۔ ڈاکٹر صاحب بھی شفیع کو کسی لاڈلے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ شفیع نقی جامعی ابتدائی جماعتوں سے لے کر جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہونے تک اوّل بدرجہ اوّل ہی پاس ہوتے رہے۔ بعد کو کیمبرج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ شفیع نے فن خطابت میں وہ کمال پیدا کیا کہ شہر بھر ہی میں نہیں ملک بھر میں دھوم مچادی۔ بحیثیت مقرر وہ اپنے ساتھی طالب علموں ہی میں نہیں اپنے اساتذہ میں بھی مقبول تھے۔ ہم نے اُن کے ’انتخابی جلسوں‘ میں بھی دیکھا کہ اساتذۂ کرام دور کھڑے ہوکر شفیع کے خطاب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
شفیع نقی جامعی طالب علم مقررین کے ایک منفرد سلسلے کی آخری کڑی تھے۔ متاثرکن اندازِ خطابت کے حامل مقررین کا ایک سنہرا دور تھا جو گزر گیا۔ اعجاز شفیع گیلانی، ضیاء الاسلام زبیری، ظہور الحسن بھوپالی، دوست محمد فیضی، خوش بخت عالیہ (جو آج کل خوش بخت شجاعت کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں)، فائزہ صدیقی، جاوید ہاشمی، تنویر عباس تابش، زاہد حسین بخاری، عبدالملک مجاہد اور شفیع نقی جامعی کے علاوہ ہم جیسے بہت سے ’کَم نام مقررین‘ بھی اس صف میں شامل تھے۔ بعد کے لوگوں میں سید عمر ناظم اور حسین حقانی نے کسی حد تک اپنے پیشروؤں کے معیار کو نباہا، مگر سلیم مغل اور محمود غزنوی کے بعد حاضر دماغ اور حاضر جواب مقررین کا خاتمہ بالخیر ہوگیا۔
یادوں کا ہجوم تو اُمڈا چلا آرہا ہے۔ مگر ایک کالم میں پوری جامعاتی زندگی کا تو احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ یوں سمجھ لیجیے کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ ہے۔ اگر کبھی برسات ہوئی تو موسلا دھار ہوگی۔ کیا عجب کہ یہ کالم پڑھ کر کچھ اور بادلوں کو بھی برسنے کا خیال آجائے!