کراچی لاوارث ہے

842

کراچی کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس شہر سے ضلعی وصوبائی حکومت سے لے کر وفاقی حکومت تک سب ہی فیضیاب ہوتے ہیں مگر کوئی بھی اس شہر کا والی وارث بننے کو تیار نہیں ہے ۔ کراچی سے کچرا اٹھانا ہی ایک اہم مسئلہ بن گیا ہے ۔ اسی کا تعین نہیں ہوپارہا کہ کراچی سے کچرا اٹھانا کس کی ذمہ داری ہے ۔ کراچی سے کچرا اٹھانے کے لیے باقاعدہ سندھ سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ بنایا گیا اور اسے کروڑوں روپے کے فنڈز بھی دیے گئے ۔ اب پتا چلا ہے کہ کچرا اٹھانے کے نام پر لی گئی گاڑیاں ناکارہ بنادی گئی ہیں مگر ان گاڑیوں کے ایندھن اور مرمت کے نام پر کروڑوں روپے کے فنڈز کی وصولی جاری ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ کراچی کی ہر سڑک پر کچرے کے ڈھیر نظر آرہے ہیں اور ہر سو کچرا تیز ہوا کے ساتھ اڑتا نظر آتا ہے ۔ سڑکوں اور گلی کوچوں کی جاروب کشی بلدیاتی اداروں کی ذمہ داری ہے مگر بلدیاتی اداروں کے ملازم ہزاروں خاکروب گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کررہے ہیں اور کہیں پر بھی صفائی ستھرائی پر مامور عملہ نظر نہیں آتا ۔ سڑک پار کرنے کے لیے جتنے بھی آہنی پل نصب کیے گئے ہیں ، ان پر کچرے کے ڈھیر کے ساتھ ساتھ ریت بھی نظر آتی ہے جو ان قیمتی پلوں کو زنگ آلود کرنے کا سبب بن رہی ہے مگر کسی ادارے کو کوئی ہوش نہیں ہے ۔ ہر سُو گٹر کا پانی بہ رہا ہے ، اس میں گلی کوچے یا بڑی شاہراہ کی کوئی تخصیص نہیں ہے ۔ اس بارے میں معلوم کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ گلی کوچوں کے گٹر کی ذمہ داری بلدیاتی اداروں کی ہے جبکہ بڑی شاہراہوں کے گٹر کی ذمہ داری واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ہے ۔ سارے ہی ادارے کہیں سو رہے ہیں اور شاہراہ و گلی کوچے گٹر کے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اب تو بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے والی ہے اور بلدیاتی اداروں میں براجمان ایم کیو ایم کی قیادت بھی چور مچائے شور کے مصداق مطالبات لے کر مظاہرے کرنے شہر کی سڑکوں پر آگئی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ پوری مدت گزارنے والی ایم کیو ایم کی بلدیاتی قیادت نے کراچی کی کیا خدمت کی ۔ کیا اس نے پانی کی فراہمی کے لیے کسی منصوبے کا آغاز کیا ، کیا شہر میں صفائی کی صورتحال بہتر بنائی ، کیا بلدیہ کے زیر انتظام تعلیمی اداروں میںسہولیات میں کوئی بہتری آئی ، کیا بلدیہ کے زیر انتظام اسپتالوں میں صفائی کی صورتحال بہتر ہوئی اور کیا وہاں پر مریضوں کے ٹیسٹ ہورہے ہیں اور ادویات میسرہیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان تمام سوالوں کے جوابات نفی میں ہیں ۔ آئندہ سال کے بجٹ میں بھی بلدیہ نے کراچی کے باسیوں کو سہولیات کی بہتری کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا ۔ بجائے شرمسار ہونے کہ ایم کیو ایم کی قیادت الٹا کراچی میں بینر لگارہی ہے کہ کراچی کو اس کا حق دو ۔ تو یہ حق کون دے گا ۔ کیا بلدیاتی اداروں کے ذمے جو وظائف ہیں وہ کوئی اور ادا کرے گا ۔ اس وقت صوبائی حکومت اور بلدیاتی حکومت میں ایک ہی مسئلے پر رسہ کشی جاری ہے کہ کراچی کے ترقیاتی کاموں کے لیے مختص بجٹ اس کے حوالے کیا جائے ۔ سندھ حکومت نے کراچی میں جتنے پروجیکٹ مکمل کیے ہیں ، انہیں دیکھ کر اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان پروجیکٹوں میں کس پیمانے پر کرپشن کی گئی ہے ۔ اس کی ایک مثال حسن اسکوائر تا نیپا اور کراچی یونیورسٹی تا صفورہ چورنگی یونیورسٹی روڈ کی تعمیر ہے ۔ ان دونوں پروجیکٹوں کی مجموعی مالیت تقریبا دو ارب روپے تھی ۔ یونیورسٹی روڈ کے یہ دونوں ٹکڑے پورے بھی تعمیر نہیں کیے گئے اور تقریبا ایک ایک کلومیٹر ٹکڑا صرف تارکول پھیر کر شمار میں لے لیا گیا ۔ ان دونوں ٹکڑوں کی تعمیر کو ایک برس بھی مکمل نہیں ہوا ہے اور یہ ابھی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی روڈ تا صفورہ چورنگی سڑک کی تعمیر میں برساتی نالوں کی تعمیر کے نام پر محض مین ہول بنا کر رقم خورد برد کرلی گئی اور لائن ڈالی ہی نہیں گئی ۔ اسی طرح ایک بڑے ٹکڑے پر سروس روڈ تعمیر ہی نہیں کی گئی اور اس کی رقم بھی خورد برد کرلی گئی ۔ کچھ یہی صورتحال فٹ پاتھوں کی ہے ۔ اب مون سون کی بارشیں ہونے کو ہیں ، اس کے بعد ان سڑکوں کی تعمیر کے معیار کی مزید قلعی کھل جائے گی مگر سارے تحقیقاتی ادارے کہیں چین کی بانسری بجا رہے ہیں ۔ کراچی کے سارے نالے چائنا کٹنگ کا شکار ہوکر انتہائی تنگ ہوگئے ہیں ، اس پر مزید کچرے سے اٹے پڑے ہیں ، مگر بلدیاتی ادارے خوابیدہ ہیں ۔ پورے کراچٍی خاص طور سے ضلع جنوبی کو تجاوزات کے نام پر آپریشن توڑ پھوڑ کی نذر کردیا گیا ۔ اب یہ ٹوٹی گلیاں کھنڈرات کا منظر پیش کررہی ہیں ۔ اکثر مقامات پر سے تو مسماری کے بعد سے ملبہ بھی نہیں ہٹایا گیا ہے ۔ بارش کے بعد یہ علاقے مزید ابتری کا منظر پیش کررہے ہوں گے ۔ ضلعی قیادت ہو یا صوبائی قیادت ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مقصد صرف اور صرف بھتے کی وصولی ہے ۔ اس سے بھی زیادہ مزید حیرت کراچی کے شہریوں پر ہوتی ہے کہ صوبائی اور بلدیاتی اداروں پر قابض لٹیروں کو کچھ کہنے کے بجائے اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہیں ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے کہ ظالم کا سب سے بڑا مددگار ظلم سہنے والا ہوتا ہے ۔