اردوان کی کامیابی مغرب کی شکست

730

ترکیہ کے صدارتی انتخابات کا دوسرا مرحلہ مکمل ہوگیا اور عالم اسلام کو ترکی سے ٹھنڈی ہوائیں ملنا شروع ہوئی ہیں۔ رجب طیب اردوان اسلامی تحریکوں کے معیار پر کس حد تک پورے اُترتے ہیں اور وہ اِس دُنیا میں حکومت الٰہیہ کے قیام میں کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں وہ الگ مسئلہ ہے لیکن ترکیہ کے حالیہ انتخابات جمہور، اتحاد اور ملت اتحاد کے درمیان مقابلہ نہیں تھا بلکہ یہ مقابلہ مغرب بمقابلہ اردوان تھا۔ اس حوالے سے مغربی اداروں نے سر دھڑ کی بازی لگادی کہ وہ کسی طرح اردوان کو بدنام کرکے غیر مقبول لیڈر ثابت کردیں۔ طرح طرح کے سروے کرائے گئے، من پسند علاقوں میں سروے کرائے گئے اور یہ نتائج جاری کیے گئے کہ اردوان کے مخالف امیدوار کمال کلیچ دار اوغلو 56 فی صد ووٹ لے کر کامیاب ہوجائیں گے۔ اگر اس قسم کے سروے پاکستان میں جاری ہوئے ہوتے تو پاکستانی قوم ان پر ایمان لے آتی لیکن ترک عوام اور ترک سیاسی پارٹیوں نے گزشتہ ایک ڈیڑھ عشرے میں سیاسی شعور پختہ کرلیا اور اس قدر پختہ کرلیا کہ جب مصطفی کمال کی باقیات نے اردوان حکومت کا تختہ اُلٹنے کی کوشش کی تو عوام کے سیاسی شعور نے اس سازش کو اُلٹ دیا اور پھر پورے ترکی سے سیکولر قوتوں کا صفایا ہوا۔ رجب طیب اردوان نے کامیابی کے بعد اپنے خطاب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ ترکی کے انتخابات میں ساڑھے 8 کروڑ عوام کامیاب ہوئے ہیں کوئی بھی ہارا نہیں ہے۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ہم نے ترک صدی کا دروازہ کھول دیا ہے۔ رجب طیب اردوان کی کامیابی دراصل مغرب کی شکست ہے۔ اس کامیابی کے بعد اس خطے میں مغرب کی سرگرمیاں مزید بڑھیں گی۔ وہ نچلے نہیں بیٹھیں گے، کوئی نہ کوئی نیا محاذ کھولیں گے۔ خطے میں اب بھی نئی صف بندیاں ہورہی ہیں جو امریکا کو ہرگز پسند نہیں۔ روس، چین، ایران، سعودی عرب اور اب شام اور یمن میں بھی قیام امن امریکا کو کیونکر پسند آئے گا۔ پاکستان کے لیے بھی ترکی کے انتخابات میں بہت سے سبق ہیں۔ کم ا زکم ایک ایسا الیکشن کمیشن جو تمام تر شدید مقابلوں، سخت ترین مخالفتوں کے باوجود ایک ایسا الیکشن منعقد کراسکتا ہے جس میں نہ حکومتی اتحاد مداخلت کرسکتا ہے نہ اپوزیشن اور نہ کسی نے ایک لفظ شکایت کی کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ اس الیکشن میں وی آئی پی کلچر بھی کہیں دیکھنے میں نہیں آیا۔ اردوان ہوں یا کمال کلیچ دار اوغلو سب نے عام افراد کی طرح لائن میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کیا اور ووٹ ڈالا۔ پاکستان میں تو یہ بات طے ہوچکی ہے کہ انتخابات میں کوئی بھی جیت جائے دوسرا فریق اسے دھاندلی سے کامیاب قرار دیتا ہے اور اس کے دعوے میں حقیقت بھی ہوتی ہے۔ ترکی نے جس ترقی کا درس دیا ہے، مغرب کو جس طرح چیلنج کیا ہے، خلافت عثمانیہ کو یاد دلایا ہے، غیر ملکی قرضوں سے جان چھڑائی ہے، پاکستانی سیاستدان، اسٹیبلشمنٹ اور مقتدر طبقات کم از کم اتنا تو کردیں کہ ملک میں صاف اور شفاف انتخابات کو یقینی بنادیں۔ لیکن کیا یہ قوتیں ایسا ہونے دیں گی۔ ترکی کے انتخابات نے امت مسلمہ میں اُمید کی نئی کرن پیدا کی ہے، جو کام کسی زمانے میں پاکستان سے متوقع تھا کہ دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی قوت، ساتویں ایٹمی قوت ہے لیکن پاکستان میں غیر ملکی سازشیں کامیاب ہوئیں اور اب تک قوم ترکی جیسے انتخابات نہیں دیکھ سکی۔ پاکستان امت مسلمہ کا لیڈر تھا اور بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے قوم کی تربیت کی ضرورت ہے۔ ایک سنجیدہ اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں شدید قسم کی اداراتی جنگ نے ملک کے ہر ادارے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ترک صدر اردوان نے ترک صدی کا دروازہ کھولنے کا جو اعلان کیا ہے وہ معنی رکھتا ہے اور اس کے پیچھے ان کی دو مدت تک کی جدوجہد ہے۔ لیکن پاکستانی قیادتیں، صدور، وزرائے اعظم اور فوجی ڈکٹیٹر ہوا میں تیر چلا چلا کر چلے جاتے ہیں۔ ملک اپنی جگہ کھڑا رہ جاتا ہے۔ اردوان کی کامیابی کے بعد اب مغرب کی سازشوں کے لیے پاکستان کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جس طرح افغانستان میں مغرب کے سردار امریکا کو شکست ہوئی تو پاک افغان تعلقات اور پاک افغان ترک اتحاد کی باتیں ہوئیں۔ لیکن چند ہی مہینوں میں پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے کے حریف بنادیے گئے۔ اب پاکستان کی قیادت کو ترکی کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر پاکستان کے لیے مواقع بہتر بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔