شیطان کو فرشتہ بنانے والے

969

ایک زمانہ تھا کہ اردو صحافت کی سرزمین پر دیوقامت لوگ ’’واک‘‘ کرتے تھے۔ مثلاً ابوالکلام آزاد، مولانا مودودی، مولانا محمد علی جوہر، حسرت موہانی، مولانا ظفر علی خان۔ مولانا ابوالکلام آزاد ایک طرف مفسر قرآن تھے اور دوسری طرف وہ الہلال میں فکاہیہ کالم لکھا کرتے تھے۔ مولانا مودودی بھی مفسر قرآن اور بالآخر مجدد وقت بن کر سامنے آئے۔ اس صورت حال کا نتیجہ یہ تھا کہ اردو صحافت کی فکری اور علمی سطح بلند تھی۔ اس کے دائرے میں مذہب زیر بحث آتا تھا۔ فلسفے پر گفتگو ہوتی تھی۔ شعر و ادب کی تفہیم کی صورتیں سامنے آتی تھیں۔ خیر یہ تو اردو صحافت کا ’’گولڈن پیریڈ‘‘ تھا۔ ہم نے 1981ء میں اخبارات پڑھنے شروع کیے۔ ہمارے گھر دو اخبارات آتے تھے جسارت اور ڈیلی ڈان۔ باقی اخبارات ہم لائبریری میں جا کر پڑھتے تھے۔ اس وقت جسارت میں سلیم احمد اور مشفق خواجہ کے کالم معرکے کی چیز تھے۔ سلیم احمد کے کالموں کی فکری سطح بلند تھی۔ مشفق خواجہ کے کالم کراچی سے دہلی تک مار کررہے تھے۔ نوائے وقت میں واصف علی واصف کے غیر معمولی کالم شائع ہوا کرتے تھے۔ ڈان میں معروف کمیونسٹ دانش ور صفدر میر ’’زینو‘‘ کے نام سے عمدہ کالم لکھ رہے تھے۔ ڈان ہی میں امجد صاحب جدید مصوری پر معرکہ آرا کالم لکھ رہے تھے۔ روزنامہ جنگ میں ارشاد احمد حقانی کے سیاسی تجزیے خاصے کی چیز تھے۔ ان تمام کالموں میں مذہب، فلسفہ، عمرانیات، نفسیات، ادب اور معاشیات پر سیر حاصل گفتگو ہورہی تھی۔ مگر ہمارے زمانہ تک آتے آتے صحافت خزاں رسیدہ ہوگئی ہے۔ اب کالموں میں کہیں نہ مذہب زیر بحث ہے، نہ فلسفے پر گفتگو ہورہی ہے، اب کالموں میں نہ عمرانیات کا ذکر خیر ہورہا ہے، نہ شعر و ادب پر گفتگو ہورہی ہے۔ اب 99 فی صد کالموں میں صرف سیاست زیر بحث ہے۔ ہنگامی سیاست۔ بدقسمتی سے کالم نویسوں کی اکثریت نے ’’سیاسی شیاطین‘‘ کو فرشتہ بنانے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ اس کا ایک حالیہ ثبوت فاروق عادل کا کالم ’’ضرورت ہے ایک مہربان تھپکی کی‘‘ ہے۔ اس کالم میں فاروق عادل نے نواز شریف جیسے سیاسی شیطان کو فرشتہ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ فاروق
عادل نے اس کالم میں کیا لکھا ہے۔ انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ لکھتے ہیں۔
’’وہ خورشید محمود قصوری کا گھر تھا جہاں میری نواز شریف صاحب سے ملاقات ہوئی۔ کوئی چاہے تو اسے ملاقات تسلیم کرنے سے انکار کر دے لیکن میرے لیے تو وہ ایک یاد گار ملاقات تھی جس میں مجھے ایک شخص کے مزاج کی وہ جھلک دیکھنے کو ملی جس تک پہنچنے کے لیے بعض لوگوں کا سفر کبھی ختم ہی نہیں ہوتا۔ یہ ملاقات کیسے اہم تھی؟ یہ سمجھنے کے لیے پہلے دو واقعات کا ذکر خاص طور پر ضروری ہے۔ ایک واقعہ فیصل آباد کا ہے اور ایک لاہور کا۔ کسی نا گہانی اور درد ناک موت پر اہل سیاست لواحقین کو پرسہ دینے جایا ہی کرتے ہیں۔ یوں اگر میاں صاحب بھی گئے تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں لیکن ان کا یہ پرسہ معمول سے بڑھ کر انسانی سطح پر ایک خاص احساس کا قائم مقام دکھائی دیتا ہے۔ یہ سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ منظر دل کی آنکھ سے دیکھا جائے جب وہ جوان بیٹے کی موت پر ایک دکھی ماں کے سر پر دست شفقت رکھ رہے تھے۔ اس موقع پر درد مندی کی جو کیفیت اِن کے چہرے پر تھی، اسے صرف اہل دل ہی پہچان سکتے ہیں۔ دوسرا واقعہ لاہور کے ایک اسپتال کا ہے جہاں وہ دل کی مریض ایک کم سن بچی کی عیادت کو پہنچے تھے۔ یہاں یہ اہم نہیں ہے کہ اس بچی کا علاج میاں صاحب نے اپنے خرچ پر کرایا، اہم شفقت کا احساس ہے۔ میاں صاحب نے جس پدرانہ شفقت کے ساتھ اس معصوم بچی کے گال تھپتھپائے، کوئی باپ ہی اس پیار کو محسوس کر سکتا ہے۔ ایسے ہی پیار اور شفقت کا تجربہ ایک بار خود مجھے بھی ہو چکا ہے۔ یہ مارچ 1995ء کی بات ہے، اللہ بخشے بھائی جی یعنی مشاہد اللہ خان مرحوم سے میں نے ضد کی کہ وہ میاں صاحب سے میرا انٹرویو کرا دیں۔ مشاہد بھائی زندہ دل اور یار باش آدمی تھے، کہنے لگے کہ پھر چل اور میں ان کے ساتھ چل دیا۔ ہم کراچی سے چلے اور لاہور میں خورشید محمود قصوری صاحب کے گھر پہنچے جہاں مسلم لیگ ن کی مجلس عاملہ کا اجلاس تھا۔ اجلاس ختم ہوا تو میاں صاحب ساتھیوں سے بات چیت کرتے ہوئے اْن کے گھر سے نکلے۔ ساتھ چلتے چلتے اچانک کچھ ایسا ہوا کہ ایک آدھ قدم میں کچھ آگے نکل آیا۔ اسی دوران میں اچانک کسی نے میرے کاندھے پر شفقت سے ہاتھ رکھا۔ لمس کی زبان نہیں ہوتی لیکن لمس جیسا بھی ہو، اپنا آپ بتاتا ہے۔ وہ ایک مہربان لمس تھا، بالکل ویسا جیسے کوئی بڑا بھائی یا والد زندگی کے کسی خاص یادگار موقع پر آپ کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کرسوال کرے کہ بیٹا! خیریت تو ہے۔ میاں صاحب نے نہایت شفقت کے ساتھ میرے کاندھے پر ہاتھ رکھا پھر سوال کیا کہ صلاح الدین صاحب کی شہادت کے بعد اہل ’تکبیر‘ کے حالات کیسے ہیں؟ یہ کسی سیاست دان کا کسی صحافی کے ساتھ غرض بھرا مکالمہ نہیں تھا، ایک مہربان کی تھپکی، شفقت، پرسہ اور محبت سب کچھ تھا۔ یہ واقعہ تھا جب میں نے پہلی بار محسوس کیا کہ یہ شخص صرف سیاست دان نہیں، اس سے کچھ بڑھ کر ہے۔ یہ ایک ایسا شخص ہے، احساس جس کے سینے میں دل بن کر دھڑکتا ہے۔ لاہور پہنچنے کے بعد ایک بار پھر حیرت نے مجھے آ لیا۔ یہ قافلہ وہاں وہاں بہ شمول میاں صاحب کے پہنچا جہاں جہاں جس کو جانا تھا۔ مشاہد حسین سید کا تو مجھے خاص طور پر یاد ہے کہ میاں صاحب نے انہیں ان کے والد یا کسی عزیز کے گھر ڈراپ کیا جب کہ میری رہائش کے بارے میں انہوں نے طارق عزیز مرحوم (نیلام گھر والے) کی ڈیوٹی لگائی۔ یوں میں نے یہ جانا کہ یہ ایک ایسا سیاست داں ہے جو ساتھ چلنے والوں کے ساتھ چلتا ہے۔ سیاسیات کا کوئی سنجیدہ طالب علم کبھی اس سوال پر ضرور غور کرے گا کہ میاں صاحب کے ہاتھ میں ایسی کیا گیدڑ سنگھی تھی کہ محلاتی سازشوں کی عادی جماعت ان کے ہاتھ میں آکر ایک مقبول عوامی جماعت ہی نہیں بلکہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گئی؟ اس کا جذبہ تحقیق اسے میاں صاحب کی شخصیت کا یہ پہلو ضرور دکھائے گا‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس یکم اپریل 2024ء)
فاروق عادل ہمارے دوست اور یونیورسٹی میں ہمارے کلاس فیلو تھے۔ ہم نے ان کے ساتھ مل کر جامعہ کراچی کے طلبہ کا ترجمان رسالہ الجامعہ نکالا تھا۔ یونیورسٹی کے زمانے میں فاروق اسلامی جمعیت طلبہ کے رفیق تھے۔ وہ مولانا مودودی سے متاثر تھے اور اُن کی طرح قرآن کی تفسیر لکھنا چاہتے تھے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ آج وہ میاں نواز شریف جیسے سیاسی شیطان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں۔ فاروق عرصے سے کالم لکھ رہے ہیں۔ مگر ہم نے آج تک انہیں سید مودودی، میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمد، سید منور حسن اور سراج الحق پر کالم لکھتے اور ان کی تعریف کرتے نہیں دیکھا۔ انہیں پاکستان کی پوری سیاسی تاریخ میں اگر کوئی ’’محبوب‘‘ نظر آیا ہے تو وہ میاں نواز شریف ہیں۔
فاروق عادل کی میاں صاحب اور نواز لیگ سے محبت اور مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ انہیں میاں نواز شریف سیاست دان کے بجائے ’’کچھ اور‘‘ اور نواز لیگ سیاسی جماعت کے بجائے ایک ’’تحریک‘‘ نظر آتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میاں نواز شریف کے ’’کچھ اور‘‘ اور نواز لیگ کے ’’تحریک‘‘ ہونے کی ’’دلیل‘‘ کیا ہے؟۔
میاں نواز شریف کی ’’عظمت‘‘ کا کیا عالم ہے اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ ان سے بڑا احسان فراموش اور جاہل شخص پاکستان کی سیاست میں کوئی اور نہیں ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ میاں نواز شریف آج جو کچھ ہیں جنرل ضیا الحق کی وجہ سے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک جنرل ضیا الحق کو اپنا ’’روحانی باپ‘‘ کہتے تھے مگر آج وہ جنرل ضیا الحق کو ایک ’’فوجی آمر‘‘ کہتے ہیں۔ بلاشبہ جنرل ضیا الحق ایک فوجی آمر ہی تھے مگر یہ بات تو اس وقت بھی عیاں تھی جب جنرل ضیا الحق کے زیر سایہ میاں نواز شریف پنجاب کی کابینہ میں وزیر بنے۔ جب وہ پنجاب کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ جب انہوں نے پہلی بار ملک کے وزیراعظم کے عہدے کا حلف اٹھایا۔ انہیں جنرل ضیا الحق کو فوجی آمر کہنا ہی تھا تو ان ادوار میں کہتے۔
میاں نواز شریف ایک زمانے میں قاضی حسین کو بھی اپنا محسن سمجھتے تھے۔ ان کے قاضی صاحب پر اعتماد اور اعتبار کا یہ عالم تھا کہ وہ قاضی صاحب کو گھریلو جھگڑوں میں ثالث بناتے تھے مگر پھر ایک وقت آیا کہ انہوں نے قاضی حسین احمد پر یہ رکیک الزام لگایا کہ وہ کشمیر کاز کے لیے میاں صاحب سے ملنے والے دس کروڑ روپے کی خطیر رقم کھا گئے ہیں۔ جماعت اسلامی کی تاریخ یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا امیر کیا جماعت اسلامی کا کوئی کونسلر بھی کبھی کرپشن میں ملوث نہیں پایا گیا مگر میاں صاحب اس حقیقت کے برعکس قاضی صاحب پر کرپشن کا الزام لگادیا۔ میاں نواز شریف ایک زمانے میں طاہر القادری سے بھی بے انتہا متاثر تھے اور وہ معصومیت کے ساتھ قادری صاحب سے پوچھا کرتے تھے کہ آپ کہیں ’’امام مہدی‘‘ تو نہیں۔ مگر اب میاں صاحب طاہر القادری کو ’’شعبدے باز‘‘ سمجھتے ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اگر اسلامی جمہوری اتحاد نہ بنتا تو میاں نواز شریف کبھی ملک کے وزیر اعظم نہ بنتے اور جمہوری اتحاد کی سب سے اہم پارٹی جماعت اسلامی تھی۔ اسلامی جمہوری اتحاد کی موثر انتخابی مہم چلی تو جماعت اسلامی کی وجہ سے لیکن میاں نواز شریف کی ’’رحم دلی‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو پاکستان کے دورے پر بلایا تو جماعت اسلامی نے اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے واجپائی کی آمد پر احتجاج کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نواز شریف اور شہباز شریف نے پنجاب پولیس کو بھوکے کتے کی طرح جماعت اسلامی کے دفتر پر چھوڑ دیا۔ پنجاب پولیس نے جماعت کے والٹن روڈ والے دفتر کا محاصرہ کرکے اتنی آنسو گیس پھینکی کے قاضی حسین احمد اور سید منور حسن نے ہمیں بتایا کہ اگر آنسو گیس کی شیلنگ مزید دس پندرہ منٹ جاری رہتی تو جماعت اسلامی کی پوری قیادت دم گھٹنے سے ہلاک ہوجاتی۔ نواز شریف نے اس پر بس نہیں کیا۔ انہوں نے جماعت اسلامی کے بوڑھے کارکنوں تک کو نہ بخشا۔ پنجاب پولیس نے انہیں مار مار کر ادھ موا کردیا۔ میاں نواز شریف نے طاہر القادری کی جماعت کے دفتر پر بھی حملہ کردیا اور ایک درجن سے زیادہ کارکنوں کو مار ڈالا۔
میاں نواز شریف کی پوری سیاسی تاریخ یہ ہے کہ وہ کبھی پنجابیت سے اوپر نہیں اُٹھ سکے۔ وہ خود کو پورے پاکستان کا رہنما کہتے ہیں مگر ان کا پاکستان پنجاب سے شروع ہوتا ہے۔ پنجاب میں آگے بڑھتا ہے اور پنجاب میں ختم ہوجاتا ہے۔ ان کی پنجابیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کی سیاست کے دور میں پنجاب کے اندر جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگوادیا۔ آج ان کی بیٹی مریم نواز فرماتی ہیں کہ اہل پنجاب نے ’’پنجاب کی دھی‘‘ یعنی ’’پنجاب کی بیٹی‘‘ کو پنجاب کا وزیر بنادیا ہے۔ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ اسد درانی نے اپنی کتاب اسپائی کرونیکلز میں لکھا ہے۔ میاں شہباز شریف ایک زمانے میں پاکستانی پنجاب اور بھارتی پنجاب کو ایک کرنے کے لیے بھارتی پنجاب کے وزیراعلیٰ راجا امریندر سنگھ کے ساتھ بات چیت کررہے تھے۔ فاروق عادل کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف سیاست دان سے بڑھ کر کچھ اور ہیں۔ کیا وہ کوئی مدبر ہیں؟ کیا وہ قائداعظم ثانی ہیں؟ فاروق عادل کا اصرار ہے کہ نواز لیگ ایک تحریک ہے۔ ارے بھائی پہلے تم نواز لیگ کو جمہوری پارٹی تو بنالو، نواز لیگ اس وقت تک تو شریف خاندان کے اشاروں پر ناچنے والی ایک سیاسی طوائف ہے اور بس۔