جنگ بندی کی کوشش یا حمایت کا اظہار؛ امریکی وزیر خارجہ اسرائیل پہنچ گئے

369

واشنگٹن:امریکی وزیر خارجہ  انٹونی بلنکن اسرائیل پہنچ گئے، ان کے اس دورے کو بظاہر جنگ بندی کی کوششوں کا سلسلہ قرار دیا جا رہا ہے، جب کہ امریکی تاریخ اور ماضی کے اہم فیصلوں کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ امریکا فلسطین کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں پر اسرائیل کے لیے اپنی پشت پناہی ظاہر کررہا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اسرائیل فلسطین تنازع اور غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے مشرق وسطیٰ کے دورے کے  سلسلے میں اسرائیل پہنچے جہاں صہیونی ریاست کی جانب سے ان کا بھرپور استقبال کیا گیا۔

امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیلی صدر اسحق ہرزویوگ سے ملاقات کی ہے، جس میں انہوں نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کے ہاتھوں یرغمال اسرائیلیوں کی جلد رہائی کی یقین دہانی کرواتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کا عزم ظاہر کیا۔اسرائیلی صدر نے جنگ بندی کے لیے  امریکی کوششوں پر کہا کہ امید ہے حماس کے ہاتھوں یرغمال اسرائیلی جلد اپنے گھروں کو پہنچیں گے۔

انٹونی بلنکن کا کہنا تھا کہ ہمیں جنگ بندی کی کوششوں اور بات چیت کے دوران ایسے لوگوں کے بارے میں سوچنا ہوگا جو اس جنگ کی وجہ سے مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور تباہی کے نتیجے میں بے گھر ہو چکے ہیں۔

میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اپنے اسرائیلی دورے میں صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو سے بھی  ملاقات کریں گے، اس کے علاوہ ان کی خطے کی دیگر رہاستوں میں مختلف رہنماؤں سے بھی ملاقات کا امکان ہے، جس میں غزہ جنگ بندی کے حوالے سے کوششوں پر بات چیت کی جائے گی۔

واضح رہے کہ امریکا  عالمی دباؤ اور اندرونی طور پر اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف احتجاجی لہر کی وجہ سے  بظاہر جنگ بندی کا خواہاں ہے، امریکا کی جانب سے اسرائیلی حملوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ قابض صہیونی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے واقعات  کے خلاف بھی بات کی جا رہی ہے، تاہم تاریخ کو دیکھا جائے تو واشنگٹن حکومت نے ہر دور میں اسرائیلی دہشت گردی کا ساتھ دیتے ہوئے نہ صرف اقوام متحدہ میں اسرائیلی مذموم عزائم کو قوت فراہم کی ہے بلکہ  فلسطینیوں پر زمین تنگ کرنے اور ان کے قتل عام کے لیے صہیونی حکومت کو ہتھیاروں اور فنڈز سمیت ہر سطح پر ہمیشہ اپنی پشت پناہی کا کھلم کھلا اظہار کیا ہے۔

عالمی ماہرین خصوصاً مشرق وسطیٰ کے حالات پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کی جانب سے جنگ بندی کے لیے کی جانے والی کوششیں بظاہر سود مند ثابت نہیں ہو سکتیں تاوقتیکہ وہ اسرائیلی دہشت گردی کو لگام ڈالے اور عالمی سطح پرصہیونی ریاست کے جنگی جرائم کے خلاف جاری مہم میں شامل ہوکر اسے فلسطینیوں کا قتل عام کرنے کے جرم میں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کرے۔