’’ضرورت برائے بیانیہ‘‘

379

پاکستان کے سینئر ترین سیاست دان میاں نوازشریف ایک بار پھر سیاست میں فعال کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ لندن میں مقیم کنگ میکر سے لاہور کے سیاسی عجائب خانے کا مکین بننے تک ان کا سفر بہت عجیب اور دلچسپ ہے۔ وہ سب کچھ ہوتے ہوئے کچھ بھی نہیں رکھتے اور سب کچھ پا کر بھی خجستہ پا اور خالی ہاتھ سے دکھائی دیتے ہیں۔ اب تو یہ عندیہ بھی ملا ہے کہ وہ دوبارہ مسلم لیگ ن کے صدر بھی بن سکتے ہیں۔ میاں نوازشریف کے قریبی ساتھی رانا ثناء اللہ اور جاوید لطیف جو نجانے کیوں فارم سینتالیس کی بہتی گنگا میں اشنان کرنے کے اہل نہ پائے دل کے پھپھولے جلا رہے ہیں۔ کبھی وہ میاں نوازشریف کی سرپرستی کے تاثر کے ساتھ قائم ہونے والے سسٹم کو اس لیے ڈس اون کرتے نظر آتے ہیں کہ انہیں کون سا سادہ اکثریت ملی ہے جو وہ ملک کے مسائل کی ذمہ داری اُٹھائیں۔ اس بات میں وزن ضرور ہے کہ اگر فارم سینتالیس کے مینڈیٹ پر بھی حکومتی ڈھانچہ کھڑا ہونا تھا تو پھر اس مینڈیٹ کا تھوڑا بھاری کردیتے۔ اس قدر ہلکا مینڈیٹ وہ بھی مانگے تانگے کا اس پر کوہ ہمالیہ جیسا مسائل کا بوجھ بھی ان پر لادا گیا ہے تو ایسے میں کوئی کیسے سسٹم کی اونر شپ لے سکتا ہے۔ اسی کوارٹر سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ میاں نوازشریف اب دوبارہ مسلم لیگ ن کی صدارت سنبھالنے جا رہے ہیںکیونکہ شہباز شریف کے پاس پارٹی معاملات کے لیے وقت نہیں رہا۔ جاوید لطیف ہی کے کوارٹر سے کہا جا رہا ہے کہ نوازشریف کو تو لندن ملاقاتوں میں وزیر اعظم بننے کی پیشکش کی جاتی رہی مگر انہوں نے قبول نہیں کی۔ اگر یہ بات درست ہے تو مریم نواز پوری انتخابی مہم میں نوازشریف کو وزیراعظم بنانے کا اعلان کیوں کرتی رہیں؟ اور یہ کہ الیکشن سے تین دن قبل اخبارات میں خبر کی شکل میں ’’وزیر اعظم میاں نوازشریف‘‘ کی شہ سرخی کیوں چھپوائی گئی۔ خداجانے ن لیگ اس خبر نما اشتہارکے ذریعے ووٹر کے ساتھ پرینک کررہی تھی یا خود میاں صاحب پرینک ہو رہا تھا۔
میاں نوازشریف کی پاکستان واپسی تو شاہانہ انداز لیے ہوئے تھی مگر ان کی پاکستان موجودگی ایک عجائب خانے میں رکھی ہوئی نادر ونایاب شے کا تاثر دے رہی ہے۔ وہ جن کے بغیر پاکستان کے آگے نہ بڑھنے کا تاثر ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز سے پھیلایا گیا تھا اور قوم کو باور کرایا جارہا تھا کہ ملک کے اگلے پچھلے مسائل کا منبع گزشتہ تین سال ہیں اور ملک کی گاڑی اب نوازشریف کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتی وہی ناگزیر قرار دیے جانے والے میاں نوازشریف اب ملک کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں سے الگ تھلگ تندور پر روٹیوں کے معائنے کے کام پر لگا دیے گئے ہیں وہ بھی اپنی ذمے داری کے بجائے مریم نوازشریف کے معاون اور سرپرست کی ذاتی حیثیت میں۔ نوازشریف سیاست میں فعال ہونا چاہتے ہیں مگران کے پاس بیانیہ نہیں۔ ظاہر ہے کہ ان کی بیٹی ملک کے باسٹھ فی صد عوام پر حکمرانی کر رہی ہیں ان کے بھائی پورے ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے قریبی رشتہ دار اسحاق ڈار وزیر خارجہ اور ان کے دوست خواجہ آصف وزیر دفاع ہیں اور یہ فہرست بہت لمبی ہے۔ اب حالات اس شعر کی مانند ہیں
اس نے پر کاٹ کے جب بابِ قفس کھول دیا
یاد بے حد مجھے اُڑنے کے زمانے آئے
یا پھر تصویر یوں بنتی ہے
پر کاٹ کے وہ بابِ قفس کھول رہا ہے
ایسا بھی نہیں ہے کہ رہائی نہیں دیتا
کہاں جی ٹی روڈ کے بے تاج بادشاہ، بھاری مینڈیٹ کے حامل سیاست دان اور مشرف کے مارشل لا کی تہہ میں پلتے ہوئے مقبولیت کے آتش فشاں اور کہاں آج تھکے اور بوجھل قدموں سے اقتدار کی راہداریوں میں چہل قدمی کرتے نوازشریف۔ ایک زمانہ تھا کہ جب بیانیے ان کے آگے دست بستہ کھڑے نظر آتے تھے، اینٹی بھٹو بیانیہ کی شاخ سے اُڑے تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کی ٹہنی پر جا بیٹھے۔ ہر دور میں پنجاب نے ان کا ساتھ دیا۔ حالانکہ ان کی مقبولیت کی حامل پٹی وہی تھی جہاں سے اسٹیبلشمنٹ کو افرادی قوت اور قیادت کا خام اور تیار ملتا تھا اور اس علاقے میں نوازشریف کی مقبولیت ایک کڑوی گولی تھی جسے حلق سے اُتارے بنا کوئی چارہ نہیں تھا۔ سیاست کے اس مدو جزر میں نوازشریف ماہر پتنگ باز کی طرح محمد خان جونیجو، بے نظیر بھٹو، غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری سے پیچا لڑاتے لڑاتے اسٹیبلشمنٹ کے سربراہ پرویز مشرف سے جا ٹکرائے اور پھر وہی ہے جو طاقت کے کھیل میں ہوتا ہے کہ طاقتور ترین نے طاقتور کو شکست دیدی۔ نوازشریف اٹک قلعے سے لانڈھی جیل پہنچ گئے۔ بیگم کلثوم نواز نے نوازشریف کو بھٹو بنائے جانے کا خوف اُبھار کر ان کی ملک سے رخصتی کو یقینی بنانا اور ایک روز وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سعودی حکمرانوں کے مہمان بن گئے۔ نوازشریف ہر بار مزاحم ہونا چاہتے تھے مگر مزاحمت سخت جانی اور سخت اعصابی کا خراج مانگتی ہے۔ نوازشریف چند قدم ہی اس راہ پرخار پر چل کر اپنا دامن بچا کر بیرون ملک سدھارتے رہے۔ مزاحمت کا بوجھ جاوید ہاشمی اور چودھری نثار علی کے حصے میں آتا رہا۔
جنرل مشرف کے اقتدار کے دنوں میں بھی نوازشریف کی مقبولیت اور ان کا سحر جی ٹی روڈ پر قائم رہا۔ اس دور میں عمومی تاثر یہی تھا کہ جب بھی مشرف اقتدار کا ڈھکن اُٹھ گیا نیچے سے نوازشریف کا اقتدار سراُٹھالے گا۔ اس عرصے میں ان کا بیانیہ اور ان کی واپسی کی آس قائم رہی۔ پہلی بار یہ ہورہا ہے کہ نوازشریف کے پاس سب کچھ ہے مگر بیانیہ نہیں اور ان کے ماہر بیانیہ سازوں کو بھی کچھ سجھائی نہیں دیتا کہ اقتدار کا حصہ رہتے ہوئے کون سا بیانیہ بیان بنایا جائے۔ مرکز، پنجاب، بلوچستان میں وہ براہ راست اقتدار میں سند ھ کا اقتدار ان کے پسندیدہ اتحادیوں کے پلوسے بندھا ہوا، لے دے کر خیبر پختون خوا اور علی امین گنڈا پور کی اپوزیشن کا منصب بھی باقی بچتا ہے۔ آٹے کے تھیلوں پر سجی تصویروں سے مقدمات کی تیز رفتار بریت تک سسٹم ان پر مہربان سایہ بن بیٹھا ہے۔ سرکاری تقریبات میں سجے بینر ان کی تصویروں کے بغیر مکمل نہیں ہوتے۔ ان کے مخالفین کے کیمپ کا حال کسی طوفان زدہ ساحل جیسا ہے۔ ان کی سیاست کا تیاپانچہ کرنے والا سب سے بڑا حریف دوسو مقدمات کی چھوٹی بڑی زنجیروں میں قید ہے۔ اس کا نام اور تصویر ٹی وی اسکرینوں ہی سے نہیں عوام کی نظروں سے بھی اوجھل اور منظر سے غائب ہے۔ ایسے میں نوازشریف کے پاس اگر کسی شے کی کمی ہے تو وہ بیانیہ ہے۔ بیانیہ کی نگری کے دروازے پر ’’ہاوس فل‘‘ کا بورڈ لگا ہے۔ میاں نوازشریف نے جس کہانی کو مجھے کیوں نکالا کے عنوان کے تحت ملفوف اور ناتمام رکھا تھا ان کے حریف نے اس کہانی کو پوری طرح کھول کر بیان کر دیا ہے اور اس کی جزیات اور باریکیاں ایک زمانے پر عیاں ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اور عوام اس کہانی پر اعتبار کر بیٹھے ہیں اور وہ اسٹیبلشمنٹ سے دوری پر ہیں۔ اس لیے فی الحال نہ تو اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کے ہال میں کوئی نشست خالی ہے اور نہ ہی اسٹیبلشمنٹ موجودہ حالات میں کسی مصنوعی ہی سہی اینٹی بیانیے کا بوجھ برداشت کر سکتی ہے۔ اس لیے عمران خان کے بیانیے کے رد کے لیے نوازشریف کو بیانیہ بردار بنا کر بروئے کار لانا ایک حماقت ہی ہو سکتی ہے۔ ہاں میاں نوازشریف کی اُفتاد طبع کے مطابق ان کی روح تحریک تحفظ آئین کی جلسہ گاہوں میں منڈلاتی ضرور ہوگی مگر ان کا جسم اقتدار کے شیش محل میں بند ہے۔ وہ خود کسی دن شیش محل کی دیوار توڑ کر ایسے کسی جلسہ گاہ میں نہ پہنچ جائیں اس کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔