انٹونی بلنکن کا دورہ ِ چین: معاشی و تجارتی جنگ کا آغاز

443

چین کے صدر شی جن پنگ انتہائی غصے میں اپنے وزیر ِ خارجہ سے معلوم کر رہے کہ امریکی وزیر ِ خارجہ انٹونی بلنکن کب واپس جارہے ہیں جس پر ان کو بتایا گیا کہ وہ ایک دن اور رُک سکتے ہیں جس چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا اس کو بتا دو اس کا سرکاری پروٹوکول ختم کر دیا گیا اور اس کو ائر پورٹ تک رخصت کرنے بھی کوئی چینی سرکاری اہلکار نہیں جائے گا۔ اس کو ائر پورٹ تک جانے کے لیے صرف سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا ایک ایسے شخص کے لیے چین میں کو ئی جگہ نہیں ہے جو چین کی سرزمین پر چین کی عوام کو دھمکیاں دے۔ لیکن یہ سب تو غیرت مند قوم کی شان ہوتی ہے، ہمارا اس سب سے کیا تعلق ہے۔ انٹونی بلنکن نے چین میں موجود اپنے سفیر سے رابطہ کیا اور اس کی سیکورٹی میں ائر پورٹ پہنچے اور امریکا روانہ ہو گئے۔ انٹونی بلنکن جب امریکا پہنچے تو ائر پورٹ پر ہی پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکا چین پر معاشی پابندی نافذ کرنے جارہا ہے اور ان ممالک پر بھی امریکا پابندی عائد کر ے گا جو روس سے ڈالر کے بجائے مقامی یا روسی کرنسی میں تیل کی خریداری کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی ایران سے تجارتی تعلقات رکھنے والوں کے خلاف تجارتی اور معاشی پابندی عائد کی جائے گی۔ ان دونوں اعلانات نے یہ بات ثابت کر دیا کہ انٹونی بلنکن کا دورہ چین نہ صرف ناکام ہو گیا بلکہ اس دورے نے امریکا اور چین کے درمیان بھر پور تجارتی اور معاشی جنگ کا آغاز کر دیا ہے جس کے بعد دنیا میں ایک بہت بڑا اقتصادی بحران جنم لے گا اور اس سے دنیا میں جنگ اور بدترین غربت کا راج ہو گا۔

حقیقت یہ ہے امریکا نے 9/11 کے بعد ساری دنیا میں جنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور ساتھ امریکا چین سے کشیدگی عروج پر پہنچانے کا سہرا بھی اپنے سر پر رکھ کر یہی اعلان کر رہا ہے کہ امریکا کے لیے قیام امن کی ذمے داری سنبھالنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکی قومی مفادات کے تحفظ کے لیے اقدامات سے پیچھے ہٹ جائے گا۔ انٹونی بلنکن کے دورے سے قبل کا جائزہ لینے والے ایک سینئر امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ امریکا اور چین آج ایک سال پہلے کے مقابلے میں ایک مختلف مقام پر ہیں، جب دوطرفہ تعلقات تاریخی نچلی سطح پر تھے۔ دنیا بھر میں یہی کہا جارہا تھا کہ انٹونی بلنکن کا موجودہ دورہ چین، بیجنگ کے ساتھ تناؤ پر قابو پانے کی کوشش ہو گی لیکن ایسا نہیں ہو سکا، اس کے برعکس امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن روس کے لیے حمایت پر چین پر دباؤ ڈالنے اور بیجنگ کے ساتھ تناؤ پر قابو پانے کی کوشش کرنے کے بجائے چین کو امریکی دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ قبل ازیں ’اے ایف پی‘ کے مطابق امریکی سفارت کار جمعہ کو بیجنگ میں چین کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی تھی، اس کے علاوہ چینی تجارتی طریقوں پر امریکی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ یہ سب کچھ انتخابی سال میں صدر جو بائیڈن کے لیے ایک اہم مسئلہ ہے۔ انٹونی بلنکن دونوں ممالک کے مابین تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش تو کر ر تھے لیکن اس میں انہوں نے دھونس، دھمکی کا راستہ اختیار کر کے امریکا کے لیے نئی مشکلات پیدا کر دی ہیں، اس کے برعکس گزشتہ سال جون میں ان کے آخری دورے کے بعد سے دنیا کی دو بڑی معیشتوں چین اور امریکا کے درمیان تناؤ واضح طور پر کم ہوا تھا اور اب بھی انٹونی بلنکن سے یہی توقع کی جارہی تھی لیکن وہ اسرائیل کی شکست کی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں جس نے چین میں ان کو تمام سفارتی آداب سے لاتعلق کر دیا تھا۔

جون 2023ء میں انٹونی بلنکن گزشتہ پانچ سال میں چین کا دورہ کرنے والے اعلیٰ ترین امریکی اہلکار تھے اور ان کے دورے کے بعد نومبر 2023ء میں دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ملاقات ہوئی۔ امریکی حکام کے مطابق انٹونی بلنکن امریکی اور چینی عوام کے درمیان تعلقات کو اجاگر کرنے کے لیے امریکی طلبہ اور کاروباری رہنماؤں سے ملاقات کریں گے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے۔ بائیڈن انتظامیہ کی چین کے ساتھ روابط بڑھانے کی بے تابی فروری 2022 میں یوکرین پر حملے کے بعد سے روس کو تنہا کرنے کی کوششوں کے بالکل برعکس رہی ہے۔ امریکا روس یو کرین جنگ کے ابتدائی دور میں اس بات پر خوش تھا کہ بیجنگ نے روس کو براہ راست ہتھیار فراہم نہیں کیے ہیں، لیکن اب امریکا نے حالیہ ہفتوں میں چین پر ماسکو کو اسلحہ فیکٹریوں کے لیے صنعتی خام اور ٹیکنالوجی فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے۔ امریکا یہ چاہتا تھا کہ جی 7ممالک بھی ایران پر حملے میں امریکا کے ساتھ رہیں، اسی لیے گزرے ہفتے کو انٹونی بلنکن نے اٹلی میں گروپ آف سیون میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر چین ایک طرف یورپ اور دیگر ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو دوسری طرف وہ سرد جنگ کے بعد سے یورپ کو لاحق سب سے بڑے خطرے روس کا اتحادی بنا ہوا ہے۔

چین پہنچنے بعد نہیں معلوم انٹونی بلنکن کہاں کا غصہ کہاں نکال رہے تھے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بیجنگ میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات بہت تلخ گفتگو پر ختم ہو ئی اس میں انٹونی بلنکن یوکرین جنگ میں روس کے لیے چین کی حمایت پر تشویش کا اظہار کرنے لیے تمام سفارتی آداب کو بلائے طاق رکھ دیا تھا۔ انٹونی بلنکن کے شدیدردِ عمل کے باوجود چین کے صدر شی جن پنگ نے کہا کہ چین اور امریکا کو ایک دوسرے کا حریف نہیں بلکہ شراکت دار ہونا چاہیے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ ’’جنگی مقابلے‘‘ سے گریز کریں۔ انٹونی بلنکن نے چینی ہم منصب وانگ یی سے بھی ملاقات کی اور اسرائیل کے خلاف ایران کی مدد کرنے کی خبروں پر تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے چین سے روس کو جنگی ہتھیار اور سامان کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ انٹونی بلنکن نے یہ بھی کہا کہ روس یہ جنگی ہتھیار ایران کو فراہم کر رہا ہے جس پر چینی وزیر خارجہ نے امریکا کی جانب سے تائیوان کو فوجی امدادی پیکیج کی منظوری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ چین کی ریڈ لائن ہے جسے عبور نہ کیا جائے۔ چینی ریڈلائن کراس کرنے والے ملک کی ریڈ لائن ہمیشہ کے لیے مٹا دی جائے گی۔ چینی وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ چین- امریکا تعلقات مستحکم ہونا شروع ہو رہے ہیں لیکن انٹونی بلنکن کی باتوں سے ان تعلقات میں ’’منفی عوامل‘‘ شامل ہو رہے ہیں۔