ترقی کے لیے کون سی سوچ بدلنی ہوگی

382

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اقتصادی اصلاحات پروگرام میں معاونت کے لیے کئی ارب ڈالر کے نئے قرضے کے لیے بات چیت کا آغاز کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں اور سرمایہ کاری کی شرح کو ۱۵ فی صد کی سطح پر لانے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہ سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے سنگاپور اور دبئی کی طرح ہمیں بھی سوچ میں تبدیلی کرنا ہوگی۔ انہوں نے اٹلانٹک کونسل کے پروگرام اور فرانسیسی خبر ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ معاہدے کے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کی حتمی قسط اس ماہ کے آخر تک منظور ہونے کا امکان ہے۔ وزیر خزانہ کی گفتگو سے ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان تیزی سے ترقی کررہا ہے۔ اس سال پاکستانی معیشت کے آغاز کو بھی اچھا قرار دیا ہے اور انہوں نے نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے اور تیز رفتاری کا یہ عالم ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کو جون تک مکمل کرنے کا بھی اعلان کردیا ہے۔ اور دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے ورلڈ اکنامک آئوٹ لک کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری میں کمی کی پیشگوئی کردی ہے۔ اتنی زبردست خبریں سن اور پڑھ کر ہر پاکستانی کا جی خوش ہوجاتا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایسے اعلانات اور ایسی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ ان خبروں پر یقین نہ کرنے کی اس کے سوا کوئی وجہ نہیں ہے کہ جو لوگ یہ کام کررہے ہیں یا دعوے کررہے ہیں وہ پہلے بھی ایسے دعوے کرتے رہے ہیں اور ملک کا بیڑا غرق ہوتا رہا۔ اس مرتبہ کے دعوئوں میں ایک اور خرابی شامل ہوگئی ہے اور وہ درآمد شدہ وزیر خزانہ ہیں۔ جب تحریک انصاف کی حکومت رضا باقر کو درآمد کرکے پاکستان لائی تھی تو اس وقت بھی ڈالر کو آزاد کرکے معاشی ترقی کے خوشنما خواب دکھائے گئے تھے۔ ڈالر آزاد ہوگیا اسٹیٹ بینک بھی آزاد ہوگیا اور درآمد شدہ وزیر خزانہ کہیں اور کسی اور شاخ پر جا بیٹھے۔ نہ تحریک انصاف کے پاس ان سے حساب لینے کا کوئی طریقہ ہے اور نہ قوم ان کو تلاش کرسکتی ہے۔ اب پاکستان کی پی ڈی ایم ٹو میں سوائے وزیر خزانہ کے کون سی نئی بات ہے کہ وہ اچانک ہر کام درست سمت میں کرنے لگے ہیں اور ملک کو ترقی کے راستے پر ڈال دیا ہے۔ اور اتنا اچھا کام کیا ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستان میں مہنگائی اور بیروزگاری کم ہونے کی خوش خبری سنادی ہے۔ وزیر خزانہ نے گزشتہ پروگرام کی آخری قسط کی بھی خبر دے دی ہے اور سعودی عرب کو بہت بڑی سرمایہ کاری کی پیشکش کی خبریں بھی آرہی ہیں۔ ان باتوں میں پی آئی اے کی نجکاری جون تک مکمل ہونے کی بات بھی شامل ہے۔ یہ بھی حیرت انگیز بات ہے۔ ملک میں ایک اعتبار سے منتخب حکومت ہی ہے۔ اس کے ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ کیا پی آئی اے کی نجکاری کے لیے تمام ضابطوں پر عمل کرلیا گیا ہے۔ کیا پاکستان کے اہم قومی ادارے کے بارے میں عوام کی مرضی شامل کیے بغیر نجکاری کا فیصلہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ائرپورٹس کی نجکاری بھی ہوگی تو کیا پاکستان کی فضائی حدود کے تحفظ کی ضمانت دی جاسکے گی۔ یہی آئی ایم ایف چند ماہ قبل تک ۲۰۲۵ سے قبل معیشت میں بہتری کی کوئی امید نہیں دیکھ رہا تھا اب اچانک ایک پروگرام مکمل کرنے کے بعد اگلے پروگرام کی طرف سرپٹ دوڑ رہا ہے اور پاکستان کی معیشت کی سمت بھی درست قرار دے دی ہے۔ اس سارے عمل کے پیچھے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ وزیر خزانہ کے ایک جملے کی وضاحت کہیں نہیں مل سکی کہ سرمایہ کاری میں اضافے کے لیے سنگاپور اور دبئی کی طرح ہمیں بھی اپنی سوچ تبدیل کرنی ہوگی۔ اگر درآمد شدہ وزیر خزانہ یا شہباز حکومت کا کوئی فرد اس بات کی وضاحت کردے کہ سرمایہ کاری کی راہ میں پاکستان کی کون سی سوچ آڑے آرہی ہے اور دبئی اور سنگاپور نے وہ سوچ تبدیل کرلی ہے۔ دبئی اور سنگاپور جانے اور دیکھنے والوں کو وہاں ترقی تو بہت نظر آتی ہے لیکن وہ اس ترقی کے ساتھ آنے والی مغربیت کو بھی دیکھ لیں خصوصاً دبئی تو یورپ کے لیے یورپ سے بھی زیادہ آزاد ملک بن گیا ہے۔ اگر اس سوچ کی تبدیلی کی بات ہے تو اس پر پاکستان بھر کی سنجیدہ سیاسی جماعتوں کو توجہ دینا ہوگی کہ وزیر خزانہ کس سوچ میں تبدیلی کی بات کررہے ہیں۔ پاکستان کی دینی اقدار کے بارے میں کسی سوچ کی یا کوئی اور سوچ۔ ورنہ نجکاری کے لیے تو پیشہ ورانہ مہارت اور ایمانداری کی سوچ بنیادی اہمیت کی حامل ہے اور جو لوگ حکومت میں ہیں ان کے بارے میں ایسا کوئی گمان نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے اعمال نامے میں ملکی معیشت کی تباہی کا بہت بھاری وزن شامل ہے۔ یہ لوگ پی آئی اے سمیت جن اداروں کی نجکاری کرنا چاہتے ہیں پہلے ان اداروں کی تباہی کے مکمل اسباب سامنے لائے جائیں۔ اس تباہی کا بنیادی سبب یہی شریف خاندان، زرداری خاندان یا پیپلز پارٹی، ق لیگ اور ان سب کے ٹوٹے ہوئے پی ٹی آئی کے لوگ ہیں۔ یہ بات دو اور دو چار کی طرح سامنے آنی چاہیے کہ ان اہم قومی اداروں کو کس نے تباہ کیا۔ یہ حساب دیے بغیر بیچ دینے کا مطلب اپنے غلط کارناموں پر پردہ ڈالنا بھی ہے۔ وزیرخزانہ کی پوری گفتگو میں کوشش کررہے ہیں۔ امید ہے یا ایسا کرلیا جائے گا والے جملے ہیں لیکن پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں جون کی تاریخ بھی دے دی ہے۔ گویا ڈھائی ماہ میں برسوں کا کام ہونے جارہا ہے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پی آئی اے کا خریدار، رقم سودا سب کچھ طے ہوچکا ہے۔ ڈھائی ماہ میں بین الاقوامی سطح کے ادارے کو کسی فلیٹ، مکان، گاڑی یا زمین کی طرح بیچنے کی بات کی جارہی ہے۔ ان چیزوں کی ادائیگی اور قبضہ دینے کے معاملات بھی چار سے چھے ماہ تک چلے جاتے ہیں یہ ڈھائی ماہ میں پی آئی اے کی نجکاری کیسے مکمل کرلیں گے۔ اس سے شبہات تو بہرحال پیدا ہوتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے ٹیکسوں اور سرمایہ کاری کی سطح ۱۵ فی صد تک لانے کی کوشش کا کہا، ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر ملنے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف اور عالمی بینک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ملکوں کی معاونت کرنی چاہیے اسی طرح صنعت، خدمات، زراعت، ریٹیل، ہول سیل کے جی ڈی پی میں حصے کے تناسب کے لیے ٹیکنالوجی بروئے کار لارہے ہیں۔ لیکن صرف پی آئی اے کی نجکاری پر جون تک کی بات کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک اور اہم بات کہی ہے کہ سرمایہ کاری کے لیے پالیسیاں موجود ہیں مگر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ گورننس میں بہتری ہے۔ بہتری کی طرف جاسکتے ہیں اور اگر ڈھانچہ جاتی اصلاحات پر عمل نہیں کیا تو مستقبل میں بھی آئی ایم ایف پر انحصار کرنا ہوگا۔ جن خرابیوں یا بنیادی ضرورت کا انہوں نے ذکر کیا ہے ان معاملات میں تو حکومتی ٹولہ بھرپور نااہلی کا بار بار مظاہرہ کرچکا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایک درآمد شدہ وزیرخزانہ سب نااہلوں کو ٹھیک کردے اور سب اچھا ہوجائے۔ وزیر خزانہ سے سوچ کی تبدیلی کی وضاحت لینا بھی بہت ضروری ہے۔ پاکستان کے لیے معیشت بہت کچھ ہے لیکن نہیں ہے۔ پاکستان کے لیے معیشت بہت کچھ ہے لیکن سب کچھ نہیں ہے۔
ان سوالات کے جواب کے لیے ہم نے معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا اگر پاکستان کو بیرونی اور دوست ممالک سے قرضے مل بھی جائیں دوست ممالک قرضے رول اوور کردیں آئی ایم ایف سے مزید قرضے بھی مل جائیں تو بھی 2025 اور 26میں بھی بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں مشکلات ہوں گی۔ اور پاکستان سے امریکا کے ہمدردانہ رویے کی وجہ سے امید ہے کہ پاکستان کو وہ کسی بڑی مشکل میں نہیں پھنسنے دے گا، کیونکہ وہ پاکستان سے کچھ کام لینا چاہتا ہے جیسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں لیا تھا، اور ممکنہ طور پر مشرق وسطیٰ کے تنازع میں بھی کوئی کام لے گا۔ اس لیے وہ اپنے زیر اثر ممالک سے سرمایہ کاری کروائے گا۔ لیکن حکومت پاکستان ڈالر کی تلاش میں بے چین ہے اس اضطراری کیفیت میں وہ سرمایہ کاری اور نجکاری کی کوشش کررہی ہے اس کے نتیجے میں غیر معیاری اور پریشان سرمایہ کاری ہونے کا خدشہ ہے، جس سے فائدے کے بجائے نقصانات زیادہ ہوسکتے ہیں، اور نجکاری کے تو سارے ماڈل پاکستان میں ناکام رہے ہیں یہ خسارے اور لوٹ مار کا سودا رہا ہے۔ اس سے معیشت ہی تباہ ہوئی ہے۔ ڈاکٹر شاہد حسن نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کا تو حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے اور یہاں بھی یہ غلط راستے پر جارہے ہیں۔ پی آئی اے کے دو حصے کیے جائیں گے خسارے والے شعبوں کو ہولڈنگ کمپنی کے ذمے کردیں گے اور اپنے پاس رکھیں گے اور اچھے والے شعبوں کی نجکاری کردیں گے، حکومت کو یہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ ریکوڈک کے سرمایہ کو استعمال کرکے نئے طیارے خریدیں ادارے میں صلاحیت ہے اسے چلائیں، حالانکہ مسلم لیگ کا تو منشور تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کریں گے اسے خطے کی بڑی ائر لائن بنائیں گے۔ یہ قانون بنائیں کہ بین الاقوامی معیار کے مطابق فی طیارہ ملازمین کی تعداد مقرر ہوگی اور سب سے بڑھ کر سرکاری مداخلت نہیں ہوگی۔ خسارے والے شعبوں کو ہولڈنگ کمپنی ہی کو دیکر اپنے پاس رکھیں۔