سعودی وفد کا دورہ اور مسئلہ فلسطین!

388

گزشتہ دن ایک اعلیٰ سطحی سعودی وفد نے پاکستان کا دورہ کیا اور صدرِ مملکت، وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں۔ اس دورے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانا اور اقتصادی تعاون کے مواقع تلاش کرنا تھا۔ یہ ماضی کے برعکس ایک بدلتے سعودی عرب کے وفد کا دورہ ہے۔ پچھلے چند برسوں میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے حکم پر ملک میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں۔ خواتین، کھیل، فیشن، اسرائیل سب زاویے سے زیر بحث ہیں۔ خاص طور پر اسرائیل کی طرف جھکاؤ سے اسے بہت تنقید کا سامنا رہا ہے۔ موجودہ دورہ 7 اکتوبر کے بعد کی بدلتی صورتحال حال میں ہے یہی وجہ کہ اس دورے میں سعودی وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتِ حال عالمی نظام کی مکمل طور پر ناکامی ہے اور غزہ میں 33 ہزار سے زیادہ افراد شہید ہوچکے ہیں، وہاں امداد پہنچانے پر پابندی ناقابل ِ قبول ہے۔ سعودی وزیر خارجہ نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ6 مغربی کارکنوں کے مرنے کے بعد عالمی سطح پر رویہ اگرچہ تبدیل ہوا ہے، مگر عالمی طور پر ہمیں دہرے معیار اور منافقت کا سامنا ہے۔ اسی طرح اقتصادی پس منظر میں شہزادہ فیصل بن فرحان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے کثیر مواقع موجود ہیں، اس حوالے سے ہم سے جو ہوسکا کریں گے، چند مہینوں میں اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ اْن کے مطابق سعودی عرب کا وفد ولی عہد محمد بن سلمان کی ہدایت پر پاکستان پہنچا ہے اور یہ دورہ انتہائی مثبت رہا ہے، سعودی عرب کی جانب سے دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں اور پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے ہم سے جو ہوسکا، کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایس آئی ایف سی کے پلیٹ فارم پر سرمایہ کاری کے حوالے سے انتہائی سنجیدگی دیکھنے میں آئی۔ شہزادہ فیصل بن فرحان کے بقول اپنی 35 سالہ سیاسی زندگی میں سعودی عرب سے اتنا بڑا اور اعلیٰ سطح کا وفد پاکستان میں نہیں دیکھا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات دیرینہ اور برادرانہ ہیں۔ دونوں ممالک مشترکہ مذہب، ثقافت اور تاریخ رکھتے ہیں۔ پاکستان نے 1947ء میں آزادی حاصل کرنے کے بعد ہی سے سعودی عرب سے سیاسی، معاشی اور سفارتی تعاون حاصل کیا ہے۔ سعودی عرب نے مشکل وقت میں ہمیشہ پاکستان کی مدد کی ہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں سعودی عرب نے پاکستان کو مالی اور فوجی امداد فراہم کی۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں سعودی عرب نے پاکستان کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے پاکستان کو توانائی اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کا قرض اور سرمایہ کاری فراہم کی ہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھی اسٹرٹیجک دفاع، سیکورٹی اور فوجی لحاظ سے اپنی خدمات سعودی عرب کو دی ہیں۔

سعودی وفد کے دورے کے دوران دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، توانائی اور زراعت سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے نئے مواقع پر تبادلہ خیال کیا۔ سعودی عرب نے پاکستان میں سرمایہ کاری میں اضافے کا عزم ظاہر کیا، خاص طور پر قابل ِ تجدید توانائی، انفرا اسٹرکچر اور پبلک ٹرانسپورٹ کے شعبوں میں۔ وفد کو پی آئی اے، ائرپورٹس کی نجکاری اور اسلام آباد میں 2 فائیو اسٹار ہوٹلوں میں جوائنٹ وینچر کی پیش کش کی گئی ہے۔ اس وفد کو مٹیاری ٹرانسمیشن لائن اور فرسٹ ویمن بینک کی بھی آفر کی گئی۔ سعودی وفد کو ہیلتھ سٹی بنانے کی بھی پیش کش کی گئی ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ 2023ء میں سعودی عرب پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ رہا ہے۔ پاکستان نے سعودی عرب کو 10.5 بلین ڈالر سے زیادہ کی مصنوعات اور خدمات برآمد کیں۔ سعودی عرب پاکستان کے لیے درآمدی منڈی کے طور پر بھی اہم ہے۔ 2023ء میں پاکستان نے سعودی عرب سے 13.5 بلین ڈالر سے زیادہ کی مصنوعات اور خدمات درآمد کیں۔ لاکھوں پاکستانی سعودی عرب میں کام کرتے ہیں اور وہ پاکستان کی معیشت کے لیے اہم زر مبادلہ بھیجتے ہیں۔ 2023ء میں پاکستانی کارکنوں نے سعودی عرب سے 10 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم وطن بھیجیں۔ یہ رقم پاکستان کے کْل زر مبادلہ کے ذخائر میں اہم حصہ ڈالتی ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان دونوں اسلامی تعاون تنظیم کے بانی رکن ہیں۔ سعودی عرب اور پاکستان نے اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورموں پر اکثر مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کیا ہے۔ مثال کے طور پر دونوں ممالک نے کئی اہم عالمی ایشوز، فلسطینیوں کے حقوق اور عالمی امن و استحکام کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کیا ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات دونوں ممالک کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ مہمان سعودی وفد کا دورہ ان تعلقات کو بہتر بنانے اور تجارت کے پس منظر میں بہت اہم اور خوش آئند ہے لیکن اس کے ساتھ پاکستانی عوام یہ بھی سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب مسجد الحرام اور مسجد نبوی کا پاسبان ہے اور پاکستان کی شناخت بھی اسلام ہے اس لیے پاکستان اور سعودی عرب امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کریں۔ اسلامی دنیا کے اہم مسائل میں مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر ہیں، اس لیے فلسطین اور پاکستان کے عوام سعودی عرب کا اسرائیل کی طرف جھکاؤ یا معاملات پسند نہیں کرتے ہیں۔ موجودہ صورت حال میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب اسرائیل کے خلاف کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کریں اور مسلم ممالک کو مجتمع کریں۔ یہ کام ہی دورے کی بڑی کامیابی اور امت ِ مسلمہ کی ترجمانی سمجھا جائے گا۔