مہنگائی کا طوفان اور غریب عوام پر نیا بوجھ

377

پاکستان کی معاشی حالت پہلے ہی انتہائی خراب ہے اور مہنگائی عوام کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ جس کی وجہ سے غریب طبقے کی زندگی پہلے ہی مشکل تھی اور اب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت نے حال ہی میں پٹرول کی قیمت میں 4 روپے 53 پیسے اور ڈیزل کی قیمت میں 8 روپے 14 پیسے فی لیٹر اضافہ کر دیا ہے۔ اس اضافے کے بعد پٹرول کی نئی قیمت 293 روپے 94 پیسے فی لیٹر اور ڈیزل کی نئی قیمت 290 روپے 38 پیسے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ یہ اضافہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی روپیہ بھی ڈالر کے مقابلے میں مضبوط ہو رہا ہے۔ اس کے باوجود حکومت نے عوام پر یہ اضافی بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جب کہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس اضافے کی وجہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔ تاہم یہ دعوے حقائق کے مطابق نہیں ہیں کیونکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ اصل بات یہ ہے اور حکومت کا خود بھی کہنا ہے کہ اسے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرنا پڑا ہے۔ تاہم، یہ بھی ایک جھوٹا دعویٰ ہے۔ حکومت پہلے ہی پٹرول اور ڈیزل پر 60 روپے فی لیٹر ڈیولپمنٹ لیوی وصول کر رہی ہے۔ یہ قانون کے تحت زیادہ سے زیادہ حد ہے۔ اس کے علاوہ حکومت ان دونوں پر تقریباً 82 روپے فی لیٹر ٹیکس بھی وصول کر رہی ہے۔ حکومت کے اس اقدام سے غریب طبقے پر سب سے زیادہ اثر پڑے گا۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا، جس سے غریب طبقے کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ کے کرایے میں بھی اضافہ ہوگا، گاڑی والوں کی کیا بات کی جائے اب شہر کراچی میں موٹر سائیکل رکھنے والے بھی اپنی بائک گھر پر کھڑی کرکے چنگ چی رکشوں میں سفر کررہے ہیں، شہر میں پہلے ہی بدترین ٹرانسپورٹ کا نظام ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں فوری کمی کرے۔ حکومت کو غریب طبقے کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حکومت نے اس صورتحال کو نہیں سنبھالا تو ملک ایک بڑے انقلاب کی طرف بڑھ سکتا ہے اور حالات کسی کے قابو میں نہیں ہوں گے۔ اس سے وطن عزیز کو مزید نقصان ہوگا لیکن لگتا یہ ہے کہ ریاست اس شعور سے خالی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کے مسائل کا حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ اسے اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کے بجائے غریب طبقے کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر حکومت نے ایسا نہیں کیا تو اسے عوام کے غصے کا سامنا کرنا پڑے گا اور یہ غصہ آج نہیں تو کل سامنے آئے گا اور پھر سب دیکھیں گے۔