!!تحریک انصاف میں قیادت کی جنگ کا آغاذ

412

پاکستان کی سیاست میں ہم پچھلے کئی برسوں سے منافقت، ذاتی مفادات اور آقائوں کی خوشنودی کا ایسا رنگ دیکھ رہے ہیں جس نے ملکی سیاست کو متنازع، مشکوک اور مداخلت کی زدہ کر دیا ہے۔ اس بات میں شاید کسی بھی شعور رکھنے والے انسان کو اختلاف نہ ہوکہ ہماری تمام سیاسی جماعتوں میں موروثیت کا عمل بڑے عرصے سے چلا آرہا ہے۔ ن لیگ، پیپلزپارٹی، جمعیت علماء اسلام اور اب تحریک انصاف سمیت ہر چھوٹی بڑی جماعت میں پارٹی قیادت کی جنگ ہمیشہ جاری رہی ہے جبکہ گزشتہ دنوں ملک کی واحد بڑی مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی نے اپنا روایتی طرز عمل برقرار رکھتے ہوئے غیر جانبدار، شفاف عمل کے ذریعے اپنا امیر منتخب کیا جس نے یہ ثابت کیا کہ اگر ہم سیاسی فساد پیدا نہ کرنا چاہیں تو فساد کبھی پیدا نہیں ہوسکتا۔ کیا ن لیگ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علماء اسلام میں کوئی ایسا رہنماء موجود نہیں جو پاکستان کی سیاست میں اپنی جماعت کو منظم انداز میں لے کر چل سکے۔ دراصل جب نیتیں خراب ہوں، ذاتی مفادات مقدم ہوں، جب اندر سے اپنا ضمیر ہی مطمئن نہ ہو تو خوف آپ کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ 2016 میں کراچی کی سب سے طاقتور جماعت ایم کیو ایم کے خلاف جب ریاست کی جانب سے کارروائی کی گئی اور بانی ایم کیو ایم کی پاکستان میں سیاست کا باب بند کیا گیا اور پھر ایم کیو ایم کے اندر جس طرح قیادت کی جنگ چھیڑی جس نے ایک منظم پارٹی کا وجود ہی بکھیر کر رکھ دیا کل تک عوامی مینڈیٹ کے نتیجے میں ایوانوں تک پہنچنے والی جماعت آج بے ساکھیوں کی بنیاد پر پاکستان کی سیاست میں لائی گئی ہے۔

موروثی سیاست کی جنگ کل تک ن لیگ پیپلزپارٹی سمیت مختلف سیاسی ومذہبی جماعتوں میں تو تھی مگر بد قسمتی سے یہ جنگ آج خان صاحب کے سیاسی زوال کے بعد تحریک انصاف کے حصہ میں بھی آگئی ہے۔ خان صاحب کی عدالتی سزائوں کے بعد یقینا پارٹی کی قیادت کے لیے کسی کا ہونا بہت ضروری تھا خان صاحب یقینا ایک اصول پسند رہنماء ہیں جنہوں نے یہ ثابت بھی کیا کہ اُنہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں بھی اپنے رشتے داروں کو بھی شراکت دار نہیں بنایا جبکہ دوسری جانب ہی خان صاحب کی مکمل اجازت کے ساتھ شاہ محمود قریشی کی فیملی کو ٹکٹ فراہم کیے گئے صرف اتنا ہی نہیں جس نے بھی اپنے خاندان کے افراد کے لیے خان صاحب سے الیکشن ٹکٹ کی فرمائش کی خان صاحب نے اپنی جماعت کے نظریاتی کارکنوں کو نظر انداز کر کے اپنے قریبی دوستوں کو الیکشن ٹکٹ سمیت اقتدار میں رہتے ہوئے حکومتی عہدوں سے نوازا۔ جس نے یہ ثابت کیا کہ خان صاحب کی جماعت میں بھی موروثی سیاست جنم لے چکی ہے۔

تحریک انصاف پر جب خان صاحب کی نااہلی کے بعد مشکل وقت آیا اور قیادت کا بحران پیدا ہوا تو ایک ایسا شخص منظر عام پر لایا گیا جس کی پارٹی کے لیے کوئی خاص خدمات نہیں تھیں شاید خان صاحب کے خونی، خاندانی رشتوں میں کوئی ایسا شخص موجود نہ تھا جو تحریک انصاف کی قیادت کو سنبھال سکے جبکہ ذرائع بتاتے تھے کہ خان صاحب کی ہمشیرائوں میں علیمہ خان کی خواہش تھی کہ ان کو پارٹی کی قیادت سونپی جائے مگر خان صاحب نے نظریاتی رہنمائوں کو ترک کر کے بیرسڑ گوہر کو پارٹی کی قیادت سونپ دی۔ جس پر پارٹی کے اندار ایک جنگ کا ایسا آغاز ہوا جو آج تک چل رہا ہے۔ اور خان صاحب کی غیر موجودگی میں تحریک انصاف کے اندار کئی دھڑے جنم لے چکے ہیں جن کا اب صرف منظر عام پر آنا باقی ہے۔ شیر افضل مروت جس نے مشکل وقت میں تحریک انصاف میں جان ڈالی ان کو نظر انداز کر کے پہلے پارٹی قیادت سے محروم رکھا گیا اور پھر کے پی کے کی وزارت اعلیٰ سے محروم کیا گیا۔ یقینا علی امین گنڈا پور کی پارٹی کے لیے خدمات سے انکار نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ گنڈا پور صاحب پچھلے ادوار میں کے پی کے کے عوام کی کوئی خدمت بھی نہیں کر سکے ہیں اور آج کل یہ بھی باتیں گردش کر رہی ہیں کہ گنڈا پور صاحب کے با اثر اداروں سے خفیہ رابطے بھی موجود ہیں ان رابطوں کو پارٹی میں مشکوک نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔

ساتھ ہی بیرسڑگوہر کی پارٹی قیادت سے سینئر رہنمائوں کے ساتھ ساتھ پارٹی کارکن بھی مطمئن دکھائی نہیں دیتے کیوں کہ بیرسٹرگوہر نہ ہی تحریک انصاف کے بانی کی درست طور پر سزائوں کو معطل کرنے میں کوئی اہم کردار ادا کرسکے ہیں اور نہ ہی تحریک انصاف کا کوئی موثر لائحہ عمل عوام کے سامنے پیش کر سکے ہیں جبکہ کے گوہر صاحب ایک ماہر وکیل ہیں جن کے پاس ایک مکمل قابل وکلا کی ٹیم موجود ہے جو خان صاحب کو سزائوں سے نہیں بچا سکی ہے اور نہ ہی ان سزائوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدامات اُٹھا سکی ہے جس سے پارٹی کے اندر اختلاف اور تحریک انصاف کے ووٹر میں مایوس نے جنم لیا ہے۔

یقینا خان صاحب سمیت ان کی جماعت اور ان کے کئی مرد خواتین رہنماء اس وقت جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اس میں بھی کوئی دو آراء نہیں کہ تحریک انصاف کو سیاسی انتقام کا بھی سامنا ہے خان صاحب کی رہائی کو بھی بااثر افراد کی جانب سے ناممکن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں تحریک انصاف مضبوط قیادت سے محروم دکھائی دے رہی ہے یقینا اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جب موثر افراد کی جانب سے اشارہ ملے گا خان صاحب بنی گالہ کی پرسکون فضائوں میں آرام فرمائیں گے۔ مگر کیا جب تک خان صاحب کی پارٹی منظم رہے سکے گی؟ کیا خان صاحب کے لگائے گئے لوگ پارٹی کا موثر لائحہ عمل پارلیمنٹ میں اُٹھا سکیں گے؟ کیا یہ لوگ عوامی مسائل کو حل کرنے میں کوئی کردار ادا کر سکیں گے؟ یقینا احتجاج ہم سب کا قانونی آئینی حق ہے مگر اس سے مسائل کے حل کی کوئی اُمید نظر نہیں آتی۔ کیوں کہ پارٹی کا درست موقف پارلیمنٹ اور عوام کے سامنے پیش کرنے کے لیے تحریک انصاف میں اس وقت قیادت کا فقدان ہے ہر شخص اس وقت عہدوں کی جنگ لڑ رہا ہے ایم کیو ایم کی طرح تحریک انصاف میں بھی گروپ بنا دیے گئے ہیں جس سے خان صاحب کی شخصیت ان کی رہائی اور پارٹی کا منظم انداز سے چلنا شاید مشکل ہوجائے لہٰذا خان صاحب حکومت کے خلاف تحریک کا آغاذ کرنے سے پہلے اپنی جماعت کے اندرونی باہمی اختلافات کا خاتمہ کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور ایک موثر مضبوط نظریاتی شخصیت کو پارٹی کی قیادت سونپیں۔