درسِ نظامی کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ

362

حصہ دوم
علم منطق میں قطب الدین رازی کی کتاب قطبی، قاضی محب اللہ بہاری کی کتاب سُلَّم العلوم، سید شریف جرجانی کی کتاب میر قطبی سید شریف جرجانی کی کتاب کبریٰ، اثیر الدین اَبہری متوفی: 1344 کی کتاب ایسا غوجی، سعدالدین تفتازانی کی کتاب تہذیب اور عبداللہ یزدی متوفی 1575ء کی کتاب شرح تہذیب شامل تھیں۔ علم فلسفہ وحکمت میں میر حسین میبذی متوفی: 1652ء کی کتاب شرح ہدایۃ الحکمۃ، میبذی، صدرالدین محمد بن ابراہیم متوفی 1640ء کی کتاب صدرا، ملا محمود بن شیخ شاہ محمد فاروق جون پوری متوفی 1652ء کی کتاب شمس بازغہ شامل تھیں۔ علم ریاضی میں بہاء الدین عاملی متوفی 1622ء کی کتاب خلاصۃ الحساب، خواجہ نصیرالدین طوسی متوفی: 1275ء کی کتاب تحریر اقلیدس، بہاء الدین عاملی کی کتاب تشریح الافلاک، علاء الدین قوشنجی متوفی 1474ء کی کتاب رسالہ قوشنجیہ اور علامہ موسی پاشا رومی متوفی 1437ء کی کتاب شرح چغمینی شامل تھیں، یہ گیارہ علوم درس نظامی میں پڑھائے جاتے تھے، اب بھی کچھ اضافہ وترمیم کے ساتھ یہی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔
اس نصاب پر نظر ِ ثانی ہوتی رہی ہے، قدیم منطق وفلسفہ یونان سے عالَمِ عرب میں آیا تھا، اُس عہد کے علماء نے اسے پڑھا، سمجھا اور عربی میں منتقل کیا اور اسی کے اصولوں کی روشنی میں اس کا ردّ کیا، ایک وقت تھا کہ اس پر بڑا زور دیا جاتا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت کم ہوگئی، کافی حد تک وہ ازکار رفتہ ہوگیا، لیکن کسی حد تک اُسے اب بھی باقی رکھا گیا ہے، کیونکہ ہمارا قدیم دینی لٹریچر اُن مباحث اور مصطلحات سے معمور ہے، پس لازم ہے کہ عالِم کا رشتہ اپنے ماضی سے جڑا رہے، اس لیے اُسے بالکل ختم نہیں کیا گیا، اب بھی ایسے حضرات موجود ہیں جو ان علوم وفنون میں یدِ طُولیٰ رکھتے ہیں اور ان میں تخصُّصات بھی کیے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس حالات کے تقاضوں کے پیش ِ نظر تفسیر وحدیث اور ان سے متعلقہ علوم اصولِ تفسیر واصولِ حدیث، فقہ واصول فقہ بنیادی اہمیت اختیار کر گئے ہیں اور چونکہ یہ اصل ِ دین ہیں، اس لیے انہیں علومِ عالیہ کہا جاتا ہے، جبکہ صرف ونحو، لغت، معانی وبلاغت اور ادبیات پر مشتمل علوم، علومِ آلیہ کہلاتے ہیں، کیونکہ قرآن وحدیث کو سمجھنے اور اُن سے مسائل کے استنباط کے لیے ان علوم پر عبور ضروری ہے۔ فقہ اور اصولِ فقہ قرآن وحدیث ہی سے مستفاد ہیں اور عملی زندگی میں اس کی اہمیت سب سے زیادہ ہے، کیونکہ جدید سائنسی اور فنّی تحقیقات اور ارتقاکے نتیجے میں نئے نئے حوادث ومسائل جنم لیتے ہیں اور فقیہ اور مفتی کا کام اُن مسائل کا شرعی حل پیش کرنا ہوتا ہے، مثلاً: ٹیسٹ ٹیوب بے بی، کلوننگ حتیٰ کہ معیشت اور عالمی تجارت سے متعلق نئے نئے امکانات اور نظریات سامنے آرہے ہیں۔ سونے اور چاندی کی کرنسی دینار ودرہم سے معاملہ آگے بڑھتے بڑھتے کاغذی کرنسی تک پہنچا، پھر ادائیگیوں کے لیے پلاسٹک کرنسی یعنی ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ رائج ہوئے، کرنسی کو ہر وقت پاس رکھنے کی ضرورت سے لوگ بے نیاز ہوگئے، اب کرپٹو کرنسی اور اس طرح کی چیزیں آرہی ہیں، اسی طرح ٹیکس کے نظام اور معیشت کو ڈیجیٹائزیشن کی بات کی جارہی ہے، یہ سب جدید طریقے سرعت ِ رفتار کے لیے وجود میں آرہے ہیں، کورونا کے زمانے میں تعلیم وتعلُّم، امورِ مملکت اور نظام کو چلانے کے لیے، نیز کاروبار کے لیے متبادل طریقہ ’’آن لائن‘‘ رائج ہوا اور اب یہ مستقل حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
نیز اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ شفافیت لانے کے لیے معیشت کو دستاویزی بنایا جائے اور تمام کاروباری معاملات کو ڈیجیٹائز کردیا جائے، کیونکہ پہلے صرف شریعت کے اتباع میں حلال وحرام کے معاملات تھے، اب زرِ سفید (White Money) اور زرِ سیاہ (Black Money) یعنی قانونی اور خلافِ قانون کاروباری معاملات کا دور ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے ایک چیز اپنی اصل کے اعتبار سے حلال ہے، لیکن رائج الوقت قانون کے خلاف ہے تو وہ قانون کی نظر میں جرم متصور ہوگی اور شریعت بھی اس امر کی تعلیم دیتی ہے کہ مسلمان عزتِ نفس کے تحفظ کے لیے خلافِ قانون کاروباری معاملات اور شہری قوانین کی خلاف ورزی سے اجتناب کرے، حدیث پاک میں ہے: ’’مومن کے شایانِ شان نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلّت سے دوچار کرے، صحابۂ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! کوئی اپنے آپ کو کیسے ذلّت سے دوچار کرے گا، آپؐ نے فرمایا: (اس طرح کہ) وہ اپنے آپ کو ایسی آزمائش سے دوچارکرتا ہے کہ آبرومندانہ طریقے سے اس سے نجات کا راستہ نہیں پاتا‘‘۔ (سنن ترمذی)
تمام تر سائنسی، علمی اور فنی ترقیوں کے باوجود حکومتیں اسمگلنگ، بلیک مارکیٹنگ اور اس جیسی چیزوں کو مکمل طور پر کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکیں۔ جب بھی کوئی نئی ایجاد یا ارتقا کا مرحلہ آتا ہے، اُس کے ساتھ شرعی سوال بھی پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: سائنس دان اس تگ ودو میں لگے ہوئے ہیں کہ آیا دوسرے سیاروں پر حیات اور بقائے حیات کے اسباب موجود ہیں اور یہ کہ کیا ایسا دور آسکتا ہے کہ انسانی آبادی دوسرے سیاروں پر بھی منتقل ہو، ایسے میں مزید شرعی مسائل یقینا پیدا ہوں گے۔
اس لیے آج کے عالم ِ دین پر لازم ہے کہ اپنے عہد کی علمی اور فنی ترقی سے آگاہ ہو، جدید علوم اور اُن کی مصطلحات جانتا ہو، کیونکہ اس کے بغیر وہ شرعی رہنمائی کی کامل اہلیت کا حامل نہیں ہوسکتا، اس لیے بقدرِ ضرورت جدید علوم سے آگہی ضروری ہے۔
ایک سوال یہ کیا جاتا ہے: درسِ نظامی یعنی دینی علوم پڑھنے والے عصری علوم میں مہارت کیوں نہیں رکھتے، ایسے لوگوں کی عقل ودانش پر حیرت ہوتی ہے، یہ متخصِّصات یعنی Specialization کا دور ہے۔
ہمارے ہاں تو میٹرک اور انٹرمیڈیٹ ہی سے علوم کے شعبہ جات (Faculties) جدا ہوجاتے ہیں، مثلاً: آرٹس یا ہیومینٹیز، انہیں آج کل سوشل سائنسز بھی کہا جاتا ہے، کامرس، سائنس، ٹکنالوجی اور پھر سائنس وٹیکنالوجی کے درجنوں الگ الگ شعبے ہیں، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے: ایک شعبے کا متخصص دوسرے شعبے کے مبادیات سے بھی آگاہ نہیں ہوتا۔ کیا ڈاکٹری پڑھنے والا انجینئرنگ پر اور انجینئرنگ پڑھنے والامیڈیکل پر عبور رکھتا ہے، بلکہ اب تو ایک نوعِ علم، مثلاً: طب میں اتنے ذیلی شعبے ایجاد ہوچکے ہیں کہ ہر عضو کا اسپیشلسٹ الگ ہے اور ایک اسپیشلسٹ دوسرے کے دائرۂ کار میں دخل نہیں دیتا، بلکہ مریض کو اُس کی طرف متوجہ کردیتا ہے، پس اتنے تنوُّع کے ہوتے ہوئے کوئی بھی ’’شیخ الکُلّ فی الکُلّ‘‘ یعنی Master of All نہیں ہوسکتا۔
الغرض دینی مدارس وجامعات میں بھی ارتقا کا سلسلہ جاری ہے، اگرچہ سست رفتاری سے ہے، کیونکہ یہ مدارس وجامعات ریاست کی سرپرستی سے محروم ہیں اور محدود وسائل میں رہ کر انہیں کام کرنا ہوتا ہے، پھر یہ معاشرے کے نظرانداز کیے ہوئے طبقات کے لیے سہارا ہیں، یقینا انہیں کچھ نہ کچھ آگہی تو عطا کرتے ہیں، شرحِ خواندگی میں اضافے کا باعث ہیں۔ ہمیں اُن لوگوں پر حیرت ہوتی ہے کہ جس ملک میں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تین کروڑ بچے بچیاں اسکول سے دور ہوں، انہیں ان کی فکر لاحق نہیں ہوتی، بلکہ وہ دینی مدارس کے غم میں گھل رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کیسے بند کیا جائے، حالانکہ یہ مدارس وجامعات تعلیم سے محروم بچوں میں سے بعض کو مدارس میں قیام وطعام، علاج معالجہ اور تعلیم کی سہولتیں مفت فراہم کرتے ہیں، تو معاشرے اور نظام کو ان کا شکر گزار ہونا چاہیے، نہ کہ ان کی خدمات کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھا جائے، کیا ایسے لوگ یہ چاہتے کہ یہ ایک یا دو ملین طلبہ وطالبات بھی منفی سرگرمیوں میں مشغول ہوجائیں اور معاشرے کے لیے مسائل پیدا کریں۔
دینی مدارس وجامعات کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ یہاں تعلیم کے ساتھ تربیت کا بھی نظام ہے، ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ دینی مدارس وجامعات میں پڑھنے اور پڑھانے والے فرشتے ہوتے ہیں یا بشری کمزوریوں سے کُلّی طور پر مبرّا ہوتے ہیں، ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا، لیکن یہ آپ سب کو ماننا پڑے گا کہ ان اداروں میں اخلاقیات اور خیر کا پہلو دوسرے عصری اداروں کے مقابلے میں کئی درجے زائد ہے، وہاں تو آئے دن منشّیات کے چرچے ہوتے ہیں، لسانی اور دیگر حوالوں سے تشدّد آمیز تصادم ہوتا ہے، استاذ اور شاگرد کے درمیان احترام کا رشتہ باقی نہیں رہتا، اُن کی بہت سی کمزوریوں کو دبا دیا جاتا ہے، کیونکہ با اثر طبقات کی اولاد اُن اداروں میں جاتی ہے۔