مودی کا مسلم کارڈ

466

مجبور اور بے یار ومددگار ہندوستانی مسلمان آج مولانا ابوالکلام آزاد کی ان تنبیہات کو یاد تو کرتے ہوں گے کہ تقسیم کے بعد ان کی اہمیت صفر ہوکر رہ جائے گی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پوری طاقت سے ہندوستانی مسلمانوں کو ’’صفر‘‘ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کی سوانح کے مصنف نل نجن مکھو پادھیائے کے مطابق مذہبی تفریق کو بڑھاوا دینا مودی جی کی فطرت ثانیہ ہے۔ مودی دس برس سے برسر اقتدار ہیں۔ ’’اب کی بار چار سو پار‘‘ حالیہ الیکشن میں ان کا ہدف ہے۔ گزشتہ انتخابات میں انہوں نے تین سونو نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس مرتبہ وہ لوک سبھا کی 543 نشستوں میں چارسو سے زائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ بھارتی آئین میں دوتہائی اکثریت سے ترمیم کرنے کے قابل ہوجائیں اور سیکولر بھارت کو ہندوتوا کا نمونہ بناکر مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو ہندوئوں کے ہندوستان میں رہنے کا ’’سلیقہ اور طریقہ‘‘ سکھا سکیں۔
رام مندر کی تعمیر اور عظیم اقتصادی کامیابیوں کو اجاگر کرکے وزیراعظم مودی نے حالیہ الیکشن میں کامیابی کے حصول کا پروگرام بنایا تھا۔ سات مرحلوں پر مشتمل انتخابات کے دوسرے مرحلے سے پہلے ہی درمیانی سطح کے ووٹر ٹرن آئوٹ سے مودی جی کو احساس ہوگیا کہ ان بنیادوں پر کامیابی ممکن نہیں ہے۔ وہ اس طرح ووٹ حاصل نہیں کرسکتے۔ ووٹ اسی صورت میں مل سکتے ہیں جب وہ مسلمانوں کے خلاف متشدد ماحول پیدا کریں۔ لہٰذا 26اپریل کو دوسرے مرحلے سے پہلے ہی ماحول میں تلخی پیدا کردی گئی۔ مسلمانوں کے خلاف ماحول پیدا کرنے کے لیے کسی حقیقی وجہ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے کانگریس کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے 2006 کے ایک بیان کو استعمال کیا گیا جس میں انہوں نے کہا تھاکہ ’’ملک کے وسائل پر پہلا حق قبائلیوں، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں سمیت تمام محروم طبقات کا ہے‘‘۔ راجستھان کے بانسواڑہ میں تقریر کرتے ہوئے مودی نے من موہن سنگھ کے اس بیان کو توڑ مروڑ کر یہ شکل دی کہ کانگریس انتخاب جیت کر ہندو ووٹرز کا سرمایہ اور سونا ان سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کرے گی ’’وہ ماں بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے اور پھر ان سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیں گے‘‘ مودی کے بقول کانگریس کے سابق وزیراعظم ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا سمجھتے ہیں۔ بعد میں علی گڑھ میں بھی انہوں نے اسی بیان کی تکرار کی۔
اس سے پہلے ایک انتخابی ریلی میں مودی ’’مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے درانداز‘‘ قرار دے چکے ہیں۔ بیس کروڑ مسلمانوں کے خلاف ایسی زبان اور بیان جس کا دائرہ اثر پورا انتخابی ماحول ہو شرافت کی روح سے خالی طاقت کا وہ تماشا ہے جو اب ہندوستان کی سیاست کا مزاج بن گیا ہے۔ اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنے کے بجائے مسلمانوں کے خلاف مذہبی جذبات کو ابھار کر ووٹ حاصل کرنا اب ہندوستان میں الیکشن میں کامیابی حاصل کرنے کا عام اور آسان طریقہ ہے۔ سماجی انصاف، محروم طبقات کو حقوق دینے اور مساوات کی بات کرنا اپوزیشن جماعتوں کانگریس، سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی کا وتیرہ رہا ہے۔ مودی نے ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کو یہ سکھایا کہ اگران اصولی باتوں کو ایک طرف رکھ کرہندوتوا کی بات کی جائے تو کامیابی زیادہ سہل اور سو فی صد یقینی ہے۔ وزیراعظم مودی کے اس طرح کے بیانات اگرچہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور ہیٹ اسپیچ کے زمرے میں آتے ہیں لیکن چونکہ ان کا ہدف مسلمان ہیں لہٰذا کیا فرق پڑتا ہے۔ ہندوستان اور پوری دنیا میں ہر متعصب شخص کو آزادی ہے کہ وہ حسب استطاعت مسلمانوں کے خلاف جو کرسکتا ہے وہ کرے۔
1989ء کے بعد سے ہی مودی نے بی جے پی کو ہندوتوا کے گہرے اور پختہ رنگ میں رنگنا شروع کر دیا تھا۔ ہندومت کی قدروں کو بھارتی معاشرے اور ثقافت کا حصہ بنانے کے نام پر وہ جارحانہ پالیسیاں اختیار کی گئیں کہ مذہبی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کو ملک کا حقیر ترین شہری بنادیا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف بیان بازی ہندوتوا کے سفرکے معمول کا اہم حصہ رہا ہے لیکن انتخابات کے دوران یہ چیزیں پست ترین سطح کو چھو لیتی ہیں۔ انتخابات کے دوسرے مرحلے تک کم ووٹر ٹرن آئوٹ سے نمٹنے اور اسے کامیابی میں ڈھالنے کا ایک ہی آزمودہ طریقہ اور پرانا فارمولا ہے ’’مسلم کارڈ‘‘۔ ہندوئوں کو بھارت پر مسلمانوں کے قبضے کے خوف میں مبتلا کرنا۔ نفرت انگیز تقاریر سے مودی ایسا ہی کررہے ہیں۔ ناقدین مسلم کارڈ کو بھارتی سماج کو تقسیم کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھتے ہیں۔ بی جے پی کی سیاست نے اگرچہ اسے منظم اور متواتر عمل بنادیا ہے لیکن مودی کی آمریت اور مسلم دشمنی کی طاقت اسے ایک لمحاتی معاملہ بنادیتی ہے۔
مسلمانوں کے خلاف مودی کی برہنہ اشتعال انگیزی کا ایک بڑا سبب بھارت کے مقابل پاکستان کی پسپائی، خاموشی اور عدم مخالفت کی پالیسی ہے۔ اس کے باوجود کہ پاکستان خطے میں مسلمانوں کاسب سے طاقت ور ملک ہے، بھارت چاہے جیسی کھلم کھلا دشمنی کرے پاکستان کے حکمران ایسی مضحکہ خیز شرافت کا مظاہرہ کرتے ہیں جو اصل میں غریبوں اور کمزوروں کی مجبوری کی پناہ گاہ ہوتی ہے۔ پاکستان کی اس پالیسی کی وجہ امریکا کی اطاعت ہے جس نے اسے بھارت کی چاکری پر مجبور کردیا ہے۔ امریکا چین کے مقابل بھارت کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔ بھارت چین کے خلاف اس وقت تک کامل اطمینان سے سرگرم نہیں ہوسکتا جب تک اسے پاکستان کے مکمل طور پرسرنڈر کرنے کا یقین نہ ہوجائے۔ 5اگست 2019 کو بھارت نے جب آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کے زیرانتظام علاقوں میں ضم کرلیا اور پاکستان کے محافظین نے بزدلی اور نامردی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے اسے ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیا، یہ وہ آخری ریڈ لائن تھی جس کے بعد بھارت کو پاکستان کی طرف سے اطمینان ہوگیا کہ چاہے وہ کچھ بھی کرلے کنٹرول لائن پر افواج متحرک کرنا تو درکنار پاکستان بھارت کی سمت ایک گولی فائر کرنے کا حوصلہ بھی نہیں رکھتا۔ اس کے بعد سے صورتحال یہ ہے کہ چاہے بھارت مساجد شہید کرے، مسلمان خواتین کو بے حرمت کرے، مسلمانوں کی املاک جلائے، ان کے کاروبار تباہ کرے، یہاں تک کہ شہریت کے حوالے سے مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا کرے، پاکستان بھارت کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت کی تاب سے بھی محروم ہے۔
اس مسلسل پسپائی اور ہزیمت نے بھارت کے حوصلے اس حدتک بلند کردیے ہیں کہ بھارتی وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے پچھلے دنوں اعلان کیا کہ اگر کوئی دہشت گرد بھارت میں دہشت گردی کرکے پاکستان فرار ہوجائے تو پاکستان میں گھس کر اسے ماریں گے۔ برطانوی اخبار گارڈین میں اس سے پہلے یہ رپورٹ شائع ہوچکی ہے کہ بھارت نے2019 میں پلوامہ حملے میں چالیس نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد پاکستان میں ٹارگٹ کلنگز کی بیس کارروائیاں کی ہیں۔ اسی بنا پر مودی نے بہار کے مقام جموئی میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا ’’بھارت اب کمزور نہیں ہے وہ دشمن کے گھر میں گھس کر مارتا ہے‘‘۔ خطے میں مسلمانوں اور پا کستان کے خلاف بھارت کے یوں دندناتے پھرنے کی وجہ پاکستان کی وہ پالیسیاں ہیں جن میں عزت نفس اور غیرت کی بہت گہری تدفین کردی گئی ہے۔