!عام انتخابات کے بعد اب متحدہ کا مستقبل

472

۔8 فروری 2024 کو ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں عوامی توقعات اور اسٹیبلشمنٹ کی خواہشات کے مطابق الیکشن کمیشن نے نتائج کا اعلان کیا۔ اگرچہ جماعت اسلامی سمیت کئی جماعتوں نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ مگر اس کے باوجود پورے ملک میں ان نتائج کے مطابق حکومت سازی کرلی گئی۔ جن پارٹیوں کو انتخابات کے بارے میں شکایات تھیں وہ بھی خاموش ہوگئی ہیں۔ کیونکہ اسٹیبلشمنٹ کی یہ مرضی تھی۔ ہمارے ملک میں گزشتہ کئی برسوں سے یہی سلسلہ چل رہا ہے، کیونکہ یہاں کہنے کو جمہوری نظام ہے اور اس نظام سے بہت سے لوگ خوش ہیں۔ اگرچہ ان کی اس خوشی کا تعلق حقیقی خوشی سے نہیں ہوتا۔ بس یوں سمجھیں کہ جس طرح وہ اپنی مرضی کے خلاف انتخابی عمل اور پھر نتائج بھی برداشت کرلیا کرتے ہیں اسی طرح یہ مصنوعی خوشیوں کو بھی اپنا لیا کرتے ہیں ورنہ ان کا حال پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں جیسا ہوتا ہے۔ عمران خان کا یہ قصور ہے وہ ملک میں کنٹرول جمہوریت کو قابو سے باہر کرکے عوام کے کنٹرول میں دینا چاہتے تھے مگر پورے ملک کا نظام کنٹرول کرنے والی سپر پاور کو ایسے ’’منہ زور گھوڑے‘‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارے طاقت ور قوتوں کے مجموعے اسٹیبلشمنٹ کو تو محض گھوڑے کی طرح تیز رفتار، لومڑی طرح چالاکی اور کتے کی طرح وفاداری کی صلاحیتیں رکھنے والے عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان صلاحیتوں کے حامل سیاسی کھلاڑیوں کو وہ ہمیشہ گلے لگانے اور اپنی گڈ بک کا حصہ بنانے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
عام انتخابات اور اس کے نتائج کا جائزہ جائے تو واضح ہوتا ہے حکومت میں شامل کی گئیں تمام سیاسی جماعتوں میں منفرد کردار کی حامل صرف متحدہ قومی موومنٹ نظر آتی ہے۔ سیاسی جماعتیں عام طور پر عوامی یا اپنے ووٹرز کے مفاد میں حکومت کا حصہ بنے کر اپنے منشور اور مقصد کی قربانی دیا کرتی ہیں لیکن عام انتخابات 2024 کے بعد متحدہ حکومت میں شامل ہونے کے باوجود تاحال اپنے منشور اور مقاصد کے مطابق نتائج نہیں حاصل کرسکی البتہ متحدہ نے اپنے درمیان موجود مصطفی کمال کو غیر فعال اور خاموش کرواکر یہ ثبوت دے رہی ہے کہ متحدہ کے لوگ ہمارے خاص وفادار ہیں وہ ہر صورت میں ان کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے انہوں سے وفاداری کرتے رہیں گے۔ اگرچہ متحدہ میں شامل بعض اراکین قومی و صوبائی اسمبلی یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ حکومت میں شامل کرکے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے متحدہ کی کشتی کنارے لاکر اب اسے ڈوبانے کی کوشش شروع کردی ہے۔ ویسے بھی ان حالات میں متحدہ کب تک کنارے پر رہ سکتی ہے کوئی معمولی طوفان اسے نقصان پہنچا سکتا ہے۔ کشتیاں تادیر پانی میں بغیر دیکھ بھال نہیں رہ سکتیں۔ ڈولفن کا شوق رکھ کر اسے متحدہ کے سمندر برد کرنے والے یہ بات یقینا بہت اچھی طرح جانتے ہوں گے۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) میں انضمام کے بعد اور عام انتخابات کے نتیجے میں طے شدہ اہداف مطابق مفادات کے حصول میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ کیے جانے کے باعث متحدہ کے سابقہ گروپوں میں سرد جنگ شروع ہوچکی ہے جس کی وجہ سے ان گروہوں میں اختلافات پیدا ہونے لگے ہیں، ان اختلافات کے نتیجے میں متحدہ کے ایک فعال رہنما ماضی کی ایک پارٹی کے رہنما نے مبینہ طور پر متحدہ کے تمام امور کے بارے میں خاموشی اختیار کرلی ہے، وہ چپ سادھ کر متحدہ اور اس کے سیاسی معاملات کو مانیٹر کرے رہے ہیں۔ متحدہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ضم ہونے والی پارٹیوں کے رہنماؤں کو مبینہ طور پر کنوینیر خالد مقبول صدیقی سے اختلاف ہے ان رہنماؤں کے کہنا ہے کہ کے ایم ایس خود وفاقی وزارتیں لینے کے بعد پارٹی کے سربراہ کا کردار ادا کرنے کے بجائے اتحادی حکومت کے ایک غیر اہم عنصر کا کردار ادا کررہے ہیں۔ جس کی وجہ سے پوری متحدہ پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ جب کہ متحدہ کے کارکنوں کی بڑی تعداد پارٹیوں کے انضمام اور حکومت کا ساتھ دینے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔