پہاڑ جن کی ہیبت سے رائی

333

دو سو دن اہل غزہ پر بارود و آہن کی بارش کے مکمل ہوگئے۔ دنیا کے نظریات بھی عجیب ہیں دنیا نے بار بار طاقت کی ناکامیوں کو دیکھا مگر آج پھر وہ بزور کسی کی گردن کو جھکادینے کو اپنی کامیابی اور فتح سمجھتی ہے۔ دنیا کی بڑی عسکری طاقتوں نے ساری دنیا میں یہی کھیل جاری رکھا ہوا ہے وہ انسانوں کی گردنوں کو جھکانے ان کو فتح کرنے لیے اپنا کثیر سرمایا اور جانوں کا نقصان کررہی ہیں اور کرتی رہی ہیں مگر جب جھکی ہوئی گردنیں دوبارہ اٹھ جاتی ہیں اور ان طاقتوں کو منہ کی کھانی پڑتی ہے تو ایک ہی بیان آتا ہے اپنی سبکی مٹانے کے لیے کہ ہم نے اس آپریشن سے اپنے مقاصد کامیابی سے حاصل کرلیے ہیں۔ حالانکہ ابھی زیادہ عرصہ بھی نہیں گزرا افغانستان میں ناٹو کی فوجوں اور ان کی قیادت کرنے والا امریکا افغانیوں کی گردنوں کو جھکانے کے لیے افغانستان میں داخل ہوا تھا اور تمام دنیا کے دانشور تجزیہ نگار یہ تجزیہ پیش کرتے نہیں تھکتے تھے کہ اب امریکا چند دنوں میں افغان کا کنٹرول حاصل کرلے گا مگر بیس سال کے بعد اپنی ناکامی کے جوتوں کا ہار پہن کر اسے واپسی کی راہ لینی پڑی اور بیان وہی تھا کہ ہم نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے ہیں۔ وہ مقاصد کیا تھے اس کے سوا کہ نہتے افغان عوام کے ہاتھوں بیالیس ممالک کی فوجوں کی شکست۔
آج غزہ کے چھوٹے سے خطے میں جو کہ اس دنیا کی سب سے بڑی انسانی جیل ہے۔ وہاں کے نہتّے مسلمانوں نے دنیا کی ایٹمی طاقت اسرائیل کی ناک میں نکیل ڈال رکھی ہے۔ اسرائیل اب تک اپنے دشمنوں تک پہنچنے میں بری طرح ناکام رہا ہے جس کے بہت سے شواہد ہیں ان میں سے ایک تو یہ کہ وہ حماس کی قید میں اپنے شہر یوں کو بازیاب نہیں کرا سکا ہے۔ اس سبکی کو مٹانے کے لیے وہ عورتوں، بچّوں کو نشانہ بنا رہا ہے اس کا ہدف معصوم شہری ہیں۔ پورے غزہ کے آباد علاقے، اسپتال، اسکو ل، درس گاہیں حتیٰ کہ عبادت گاہیں جس میں مساجد اور گرجا گھر شامل ہیں پر بمباری کر رہا ہے۔ سچ کہا ہے کسی نے کہ خون شہیداں سے پھوٹتی ہے سحر۔ غزہ کی مزاحمت نے جہاں گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو ناکام بنا دیا ہے۔ وہاں اہل غزہ کے معصوم بچّوں، عورتوں کے خون نے پوری دنیا کے انصاف پسند انسانوں کو جگا دیا ہے۔ وہ اسرائیل کی سفّاکی اور درندگی کی حمایت کرنے والی امریکی اور یورپی حکومتوں کے مکروہ چہروں کو بھی اچھی طرح پہچان چکے ہیں ان لمحات میں اب جہاں بھی عوامی رائے کے ذریعے حکومتیں بنیں گی ان حکومتوں کی کامیابی اور ناکامی میں سب سے بڑا عنصر اہل غزہ کے ساتھ حمایت اور یکجہتی کا ہوگا۔ جس کی مثال ابھی حال ہی میں ترکی میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی صورت میں آچکا ہے۔
دو سو دن کے مکمل ہونے پر حماس کے ترجمان ابو عبیدہ کا یہ بیان دنیا کے لیے ایک پیغام ہے اور ایک طویل جدوجہد کی طرف اشارہ ہے کہ فلسطینی مزاحمت پہاڑ جیسی مضبوط ہے۔ اسرائیل غزہ میں پھنس چکا ہے خود اس کے اندر اور ساری دنیا میں اس کی جارحیت کے خلاف احتجاجوں نے اس کی چولیں ہلادیں ہیں۔ اسرائیل کو ان 200 دنوں میں شرمناک شکست کے سوا کچھ نہیں ملا اور قابض صہیونی دہشت گرد فوج کی دہشت گردی کے خاتمے تک یہ جدوجہد جاری رہے گی۔ دشمن اپنے دشمن سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے کچھ دنوں پہلے نیتن یا ہو بھی یہی کہہ رہے تھے کہ یہ جنگ طویل بھی ہوسکتی ہے۔ ابو عبیدہ کے اس بیان کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی نصرت کے ساتھ دشمن پر حملے بند نہیں ہوں گے جب تک فلسطین کی سرزمین کے ایک انچ پر بھی دشمن موجود ہے۔ یہ اس تحریک کے سپاہی کا بیان ہے جو کسی باقاعدہ ملک کی عسکری قوت کا تنخواہ دار سپاہی نہیں ہے۔ بے سرو سامان ہے نہ کسی ملک کی فوجوں کے ساتھ کبھی جنگی مشقوں میں حصّہ لیا ہے نہ انہیں ٹینک اور ہوائی جہاز اڑانا آتا ہے۔ بس اللہ پر ایمان ہے۔ ان سرفروشوں کی تربیت قرآن کے سائے میں ہوئی ہے غزہ کا ہر مرد اور عورت اس کتاب سے ایسا جڑے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے تباہ شدہ گھروں کے ملبے پر بیٹھ کر قرآن کی تلاوت کرتے نظر آرہے ہیں۔ یقینا اسی کتاب انقلاب کے پیغام کی ایک جھلک ہے کہ جس نے فلسطین کی مزاحمت کو پہاڑ جیسا مضبوط بنا دیا ہے۔ شہداء غزہ کے لہو سے آج دنیا میں اسی سحر نمودار ہورہی ہے جو پوری دنیا کو منّور کررہی ہے جس نے جہاں دنیا میں ہلچل پیدا کردی ہے اور دنیا کے انصاف پسند انسانوں کو بھی بیدار کردیا ہے۔ اس سحر کی روشنی نے کولمبیا یونیوسٹی کے طلبہ و طالبات کو بھی بیدار کردیا ہے جہاں تا دم تحریر اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ ہونے کو آئے ہیں احتجاج اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے پولیس نے جہاں پچاس سے زاید طلبہ و طالبات کو گرفتار کرلیا ہے تشدد کا نشانہ بنایا ہے مگر احتجاج جاری ہے اس احتجاج میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے علم کے پیاسے موجود ہیں دل خوش اور آنکھیں نم اس وقت ہوئیں جب احتجاج کے دوران نمازکے لیے صفیں بنیں مسلمان طلبہ نے ایک اللہ کی کبریائی کا اعلان کیا اور اپنی پیشانیاں ربّ کے حضور رکھ کر تمام نام نہاد جعلی عالمی طاقتوں کی کبریائی کا انکار کیا۔ یہ سارے واقعات چیخ چیخ کر مسلم ممالک کے حکمرانوں کو ایک پیغام دے رہے ہیں۔
کتابِ مِلّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا