نظام عدل میں مداخلت کی عادت، مزاحمت یا مفاہمت؟

380

راقم یہ بات کئی دفعہ اپنی تحریروں اور کالموں میں باور کرا چکا ہے کہ ملک میں سیاسی تقسیم اور اس میں انتہا پسندی اور ہٹ دھرمی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس نے بنیادی انسانی حقوق کے متفقہ نظریات و معاملات میں بھی افسوسناک تقسیم اور اذہان میں بغض و کدورت پیدا کر دی ہے۔ پاکستان کی سیاسی، علمی، صحافتی اشرافیہ اور مقتدر حلقے یہ بات سمجھنے میں شرمناک حد تک قاصر ہیں کہ یہ مملکت پاکستان کو کس خوفناک مقام پر لا چکے ہیں۔

دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی سیاسی مخالفت اور بیانیہ کا جنگ و جدل جاری رہتا ہے لیکن اس کا شکار انسانی حقوق، اس سے ملحقہ ادارے اور خاص کر نظام عدل اور اس سے جڑے ادارے بالکل نہیں ہوتے۔ اور اگر اس مذموم عمل کی کہیں سے بھی تھوڑی سی بھی کوشش نظر آجائے تو مہذب، باضمیر معاشروں میں اس پر کہرام اور اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوجاتی ہے اور استعفے خود بخود آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ لیکن جیسے کہا یہ غیرت مند باضمیر معاشروں کی بات ہورہی ہے۔ عدل کی راہ میں ذرا سا بھی روڑے اٹکانا ریاست کی ریڈ لائن ہوتی ہے۔ اس میں لاپروا رہنا، مجرمانہ غفلت برتنا اور اس سے بدتر یہ کہ اس میں طاقتور حلقوں کا ساتھ دینا ریاستی اور سیاسی خود کشی کے مترادف ہے۔ چونکہ سیاست دانوں کو بالآخر عوام کے پاس ہی جانا ہوتا ہے اور عوام کا مجموعی شعور کم از کم انسانی حقوق، ظلم و ستم اور عدل و انصاف حوالے سے مسخ نہیں ہوتا۔ اس لیے مہذب، جمہوری معاشروں کی سیاسی، سرکاری، سماجی، علمی اشرافیہ اپنے اختلافات کو ایک حد تک ہی رکھتی ہیں اور ریڈلائن کے قریب نہیں جاتیں۔

گزشتہ دو سال سے پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو دبانے، مٹانے اور تباہ کرنے میں حکومت اور ریاست نے اس حد تک غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کو استعمال کیا اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے آئینی اور سرکاری اداروں کے سرکردہ لوگوں کولالچ یا جابرانہ حربوں سے دبائو میں لاکر اس حد تک کام کروائے گئے کہ الامان الحفیظ۔ اس پورے معاملے میں عوام کی سوچ و فہم اور رائے عامہ کو احمق سمجھتے ہوئے اسے بھرپور طریقے سے نظر انداز کیا گیا۔ یہ سوچ کہ مین اسٹریم میڈیا کو لالچ، دبائو، دھمکی کے ذریعے عوام کو پتلی تماشوں اور ڈرامے بازیوں سے بے وقوف بنا لیا جائے گا، انتہائی پرلے درجے کی حماقت تھی۔ اور اس کا نتیجہ آسمان پاکستان نے آٹھ فروری کے انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر تیاریوں اور بندوبست کے باوجود دیکھ لیا۔ یعنی پاکستان جیسے ملک میں جہاں پر مذہبی، لسانی، ثقافتی، علاقائی اور دوسری کئی اقسام کی تقسیم اور اختلافی نظریات ہیں، اس کے باوجود Across the Board ہر صوبے، زبان اور فرقے کے لوگوں کی غالب اکثریت کا ایک شخص اور ایک پارٹی پر مجتمع ہو جانا ایک فقیدالمثال واقعہ ہے۔ اور یہ تسلیم کرنے میں باک نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں بانی چیئرمین کی استقامت، جرأت اور ثابت قدمی کے ساتھ ساتھ ایک بڑی وجہ وہ فسطائیت اور طاقت کا اندھا استعمال بھی ہے جس نے لوگوں میں غم اور غصہ اور مخالف عناصر کے بارے میں شدید نفرت پیدا کی۔ پاکستان جیسے ملک میں اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرا کر دو تہائی اکثریت لے جانا۔ آزاد ذرائع کے مطابق پنجاب میں ن لیگ کو عبرتناک طریقے سے ۱۸ سیٹوں پر محدود کردینا ایک نایاب تاریخی واقعہ ہے جو آنے والے وقتوں میں سوشل سائنسز، مطالعہ پاکستان اور سیاسیات کے طلبہ اور محققین کا مضمون ہوگا اور اس پر مقالے لکھے جائیں گے۔

مقتدرہ اور انتظامیہ کی ناجائز من مانیاں، دھونس، زبردستی اور بد اعمالیاں اب اس مقام پر پہنچ گئی ہے کہ اب ریاست پاکستان کے ستون بھی لرزتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ہائی کورٹ کی سطح کے جج بھی بس ہوگئے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک دو نہیں بلکہ چھے ججوں کے لکھے گئے مشترکہ خط کو بھی بعض اہل فکر و نظر اور ارباب اختیار نے تختہ مشق بنا لیا ہے اور اس زلزلے جیسے معاملے کو بھی ایک عام سے مسئلے کی طرح ڈیل کیے جانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ چھے ججوں کی طرف سے اٹھائے گئے نکات الزامات نہیں بلکہ واقعات کی شہادت ہے اور ایک چارج شیٹ ہے۔ کیونکہ واقعات کو تو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ ایک جج نے نہیں بلکہ چھے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے پاکستان کی سب سے بڑی جاسوس ایجنسی کا نام متعدد بار لکھ کر ان کارندوں (operatives) کے مذموم اور بزدلانہ حرکات کی نشان دہی کی اور سپریم جوڈیشنل کونسل کو یہ نہیں کہا کہ ان باتوں کی تحقیقات کی جائے کیونکہ بلکہ پہلے قدم کے طور پر اپنے ادارے کے اعلیٰ ترین نظم یعنی سپریم جوڈیشل کونسل سے گزارش کی کہ چونکہ یہ انتظامیہ کی طرف سے ریاست کی بنیاد پر حملہ و مداخلت ہے اس لیے ادارے کی سطح پر اکابرین اور سینئر ز سے وسیع پیمانے پر مشاورت کی جائے اور معلوم کیا جائے کہ عدلت عظمیٰ، عدالت عالیہ اور نچلی عدالتوں کی کارروائیوں پر کتنے اور ججوں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ مشاورت کے بعد

عدلیہ بطور ادارہ، ایک ریاستی ستون مناسب (یا سخت) ردعمل دے۔ ججوں کا مستقبل میں ایسے واقعات پر رپورٹنگ کا پروسیجر اور ادارے کا قانونی ردعمل کیا ہونا چاہیے اس پر ہدایات دی جائیں۔ ذمہ داروں کا تعین کرکے سزا دی جائے اور مستقبل میں عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں۔ خط لکھنے والوں نے ان باتوں کا بھی حوالہ دیا کہ کس طرح چیف جسٹس عدالت عالیہ اسلام آباد اور سابق چیف جسٹس عدالت عظمیٰ بھی ججوں کی بڑی بڑی اور خوفناک شکایات پر بروقت اور مناسب کارروائی اور قرار واقعی ردعمل دینے میں ناکام رہے۔

موجودہ چیف جسٹس نے خط میں لکھے مشوروں کو نظر انداز کرکے جس انداز میں معاملہ انتظامیہ یعنی حکومت ہی کے سپرد کیا اور جس طرح سے ایک ریٹائرڈ عمر رسیدہ جج تصدق جیلانی صاحب پر مبنی ایک رکنی کمیشن کی منظوری دی وہ اپنی جگہ خود تحقیق طلب ہے اور فائز عیسیٰ صاحب کی فیصلہ سازی کی صلاحیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا اور وکلا کی طرف سے پریشر اور خود جیلانی صاحب کے دلائل سے پْر معذرت نامے نے چیف جسٹس کو مجبور کیا کہ وہ ایک سات رکنی بنچ بنائیں اور کارروائی کا آغاز کریں۔ پہلی سماعت میں چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل کے درمیان جو لا یعنی مکالمے ہوئے وہ پوری قوم نے دیکھا۔ اس بعد جو تفصیلی فیصلہ جاری ہوا اس میں آخر کار فل کورٹ بنانے کا اعلان کیا گیا ہے جو ایک قدرے بہتر اقدام ہے وقت ضائع کرنے کے بجائے پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔ فیصلے میں عدالت عالیہ اسلام آباد کے ججوں کے خط پر عدلیہ کے اداراتی ردعمل کے لیے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، ہائی کورٹ اور وفاقی حکومت کو طلب کیا گیا ہے۔
(جاری ہے)