’’لبیک یا اقصیٰ‘‘

348

فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے جہاں واقع بیت المقدس مسلمانوں کا قبلۂ اول اور امت مسلمہ کی امیدوں اور آرزوئوں کا مرکز و محور ہے مگر اسے بدقسمتی کے علاوہ اور کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ امت کا یہ مرکز طویل عرصہ سے دشمن کی سازشوں کا شکار ہے اور اپنوں کی نا اہلیوں، انتشار و بزدلی اور کمزوریوں کے سبب ظالم و جابر صیہونی ریاست اسرائیل اس مقدس سرزمین پر قابض ہے۔یہاں پناہ کے حصول کے لیے آنے والے صیہونی آج فلسطین کے 94 فیصد رقبے اور 97 فیصد وسائل پر ناجائز تسلط جمائے ہوئے ہیں جب کہ ایک کروڑ 34 لاکھ فلسطینی مسلمان جبراً اپنے آبائی وطن سے بے دخل کئے جا چکے ہیں اور وہ مختلف ممالک میں مہاجر کیمپوں میں بے بسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جب کہ باقی ماندہ مقامی مسلمان دنیا کی سب سے بڑی جیل غزہ میں محصور ہیں، غزہ کئی عشروں سے محاصرے کی کیفیت میں ہے جہاں زندگی کی بنیادی ضروریات بھی فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی… تاہم گزشتہ چھ ماہ سے زائد عرصہ سے یہاں ظلم و ستم کی انتہا ہو چکی ہے، اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی پوری شدت سے جاری ہے جس کے دوران اب تک 41 ہزار کے قریب فلسطینی شہید کئے جا چکے ہیں جب کہ اسی ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں پورا غزہ ملبہ کا ڈھیر بنا دیا گیا ہے، مساجد، مدارس، ہسپتال اور امدادی مراکز تک کو گولہ باری کا نشانہ بنانے میں کسی شرم و حیا کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں سے دو تہائی معصوم بچے، عفت مآب خواتین عمر رسیدہ بزرگ شامل ہیں المیہ یہ بھی ہے کہ اس ساری صورت حال میں عالمی ضمیر مردہ ہو چکا ہے، نام نہاد بین الاقوامی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور فلسطینی مسلمانوں کی کھلے بندوں نسل کشی کو روکنے کے لیے کوئی کردار ادا کرنے پر تیار نہیں، ستم بالائے ستم یہ بھی ہے کہ مہذب ہونے کی دعویدار اور انسانوں ہی نہیں جانوروں بلکہ درندوں تک کے حقوق کی علمبردار مغربی دنیا انتہا کو پہنچا اسرائیلی ظلم و ستم ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی نہیں کر رہی بلکہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی ممالک نہایت ڈھٹائی سے اسرائیل کی پشت پناہی اور سرپرستی کر رہے ہیں ایک جانب مظلوم، مجبور اور محصور نہتے فلسطینی مسلمانوں کو خوراک اور ادویات تک فراہم کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی اور نت نئی رکاوٹیں اور پابندیاں اس کے راستے میں حائل کی جا رہی ہیں جب کہ یہ مہذب اور امن و ترقی کے دعویدار مغربی ممالک کھلے بندوں اسرائیل کو اسلحہ، گولہ بارود اور مالی وسائل دھڑا دھڑ مہیا کر رہے ہیں اور اقوام متحدہ جیسے اداروں اور سلامتی کونسل میں بھی ویٹو پاور کے استعمال کے ذریعے سیاسی و سفارتی سرپرستی دہشت گرد اسرائیل کو مہیا کر رہے ہیں اس ساری صورت حال سب سے زیادہ شرمناک کردار ساٹھ کے قریب مسلمان ممالک کے عالمی استعمار کے غلام حکمرانوں کا ہے جو بے پناہ مادی وسائل کے مالک ہونے کے باوجود اپنے مظلوم اور مجبور فلسطینی بھائیوں کو عملی امداد فراہم کرنا تو دور کی بات ہے، ان کی حمایت میں زبان تک کھولنے اورکھل کر اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی مذمت تک کرنے کو تیار نہیں۔ اس میں شک نہیں کہ عوام کی سطح پر مغربی ممالک میں عموماً اور مسلمان ممالک میں خصوصاً اسرائیل اور اس کے سرپرستوں اور غلام ذہنیت کے مسلمان حکمرانوں کے طرز عمل پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور وہ اس کا اظہار بھی بہت بڑے بڑے مظاہروں کے ذریعے کرتے چلے آ رہے ہیں مگر اختیارات پر قابض اور فیصلہ کن اقدام کے اہل حکمران بہرحال ان کی آواز اور احتجاج پر بھی کان دھرنے کو تیار نہیں… اسلامی تعاون تنظیم اور چالیس ممالک کی اسلامی فوج کا معاملہ بھی کچھ یوں ہے کہ:۔

بڑا شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا

ظلم کی سیاہ راست کو فلسطین پر چادر تانے ساتواں ماہ جاری ہے مگر اس عظیم اسلامی فوج کے کمانڈر انچیف پاکستان کی مسلح افواج کے سابق سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف کا کہیں سراغ نہیں مل رہا کہ وہ کون سے محاذ پر بہادری کے جوہر دکھانے میں مصروف ہیں ۔ خود اسلامی جمہوریہ پاکستان، دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی طاقت کا بھی یہی حال ہے جس کے تاک کر دشمن کو نشانہ بنانے والے بے مثال میزائلیوں کی بھی دنیا بھر میں دھوم ہے اور اس کی مسلح افواج کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کی دھاک کا تو ایک عالم معترف ہے مگر معلوم نہیں یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے کس وقت کے لیے سنبھال کر رکھا ہوا ہے جب کہ قرآن حکیم کے الفاظ میں مظلوم، مجبور اور محصور فلسطینی پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ… ’’آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ یا خدایا! ہم کو اس بستی سے نکال، جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی و مدد گار پیدا کر دے۔‘‘ (سورۂ النساء: 75) رب ذوالجلال کے اس واضح حکم کی روشنی میں غزہ کے بے بس مسلمانوں، مائوں، بہنوں، بیٹیوں اور معصوم بچوں کی مدد ہر مسلمان خصوصاً اقتدار کی مسند پر موجود اور فیصلوں کی صلاحیت کے حامل صاحبان اختیار کا فرض بھی ہے اور ان پر امت کے مظلوموں کا قرض بھی ہے کہ تن، من، دھن سے ان دامے، درمے، سخنے ہی نہیں عملاً بھی مدد کریں اور اپنے مظلوم و مجبور بھائیوں کو ظلم سے نجات دلانے کے لیے کسی اقدام سے گریز نہ کریں۔ مگر اس تکلیف دہ حقیقت کو فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں میں سے کسی کو بھی اپنے اس فرض کا احساس تک نہیں، حکمران اور موثر ہونے کی دعویدار وطن عزیز کی تمام جماعتوں کو محلاتی سازشوں اور اقتدار کی باہمی بندر بانٹ ہی سے فرصت نہیں صرف ایک جماعت اسلامی ہے جو ہر طرح کے حالات میں اپنی ہمت سے بڑھ کر اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد اور ان کے حق میں صدائے احتجاج بلند کرنے میں مصروف ہے،’’الخدمت فائونڈیشن‘‘ نے اگر اہل خیر کے تعاون سے غزہ کے مسلمانوں کے لیے خوراک و ادویات کی فراہمی کی خاطر ان تھک اور بے مثال جدوجہد کی ہے تو جماعت اسلامی نے شہر شہر بیت المقدس کی آزادی اور غزہ کے مسلمانوں کی حمایت میں مظاہروں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کراچی میں اس سلسلے میں فقید المثال مظاہرے کئے گئے ہیں ابھی رمضان المبارک میں ’’شب یکجہتی غزہ‘‘ میں کراچی میں اتحاد امت کا بے مثال مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ انیس نومبر کو زندہ دلان لاہور نے اسلامی حمیت اور غیرت ایمانی کا زبردست مظاہرہ کیا… اس طرح کے بہت بڑے بڑے مظاہرے اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں جماعت اسلامی نے منظم کئے، اب ایک بار پھر لاہور میں امریکن قونصلیٹ کے سامنے بیس اپریل کی شام کو ’’لبیک یا اقصیٰ‘‘ مارچ کا اعلان کیا گیا ہے جس کی قیادت جماعت کے نو منتخب جواں عزم و جواں ہمت امیر حافظ نعیم الرحمن کریں گے۔ اٹھارہ اپریل کو بطور امیر حلف برداری کے بعد حافظ نعیم الرحمن کا یہ پہلا بڑا عوامی پروگرام ہو گا۔ توقع ہے کہ اہل لاہور اس میں جوق در جوق شرکت کے ذریعے نئے امیر جماعت کی بھر پور پذیرائی اور غزہ کے مظلوم بھائیوں سے اظہار یکجہتی کا نیا باب رقم کریں گے…!!!