عوامی عہد اور ہم

444

ہمارے ’’عوامی عہد‘‘ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کوئی شخص مشکل ہی سے یہ تسلیم کرنے پر تیار ہوتا ہے کہ وہ ایک ’’عام‘‘ آدمی ہے اور اس کا تعلق عوام سے ہے۔ ہمیں ایک دن ’’حساس‘‘ کہلانے والے ایک سرکاری ادارے کے گیٹ کیپر نے بڑی ذمے داری کے ساتھ بتایا کہ ادارے کے دفاتر میں بیٹھ کر کام کرنے والے کتنے مزے میں ہیں۔ مزے سے اس کی مراد یہ تھی کہ وہ اپنے آس پاس کے ماحول سے لاتعلق ہو کر خوش گپیوں میں مصروف ہو سکتے ہیں۔ لیکن گیٹ کیپر کا اصرار تھا کہ اس کا کام اتنی ذمے داری کا ہے کہ پلک جھپکنا محال ہے۔ اس نے یہ کہا تو نہیں مگر اس کی باتوں کا مفہوم یہی تھا۔ اس کی باتوں میں کتنی صداقت تھی، اس کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ وہ گیٹ کے باہر کھڑا ہو کر 10 منٹ تک گیٹ سے مکمل بے نیازی کے ساتھ ہمیں اپنی ذمے داری اور احساس ذمے داری کے واقعات سناتا رہا جن کا لب لباب یہ تھا کہ وہ ادارے کا اہم ترین آدمی ہے اور اس کے بغیر ادارے کی سیکورٹی خطرے میں پڑ جائے گی اور یہ تو کل ہی کی بات ہے کہ ایک ٹیکسی ڈرائیور نے ہماری پینٹ شرٹ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں 5منٹ تک یہ بات بتانے کی کوشش کی کہ نئی نسل کتنی بے راہ رو اور مذہب سے کتنی دور ہو گئی ہے اور اس کی نسل کے لوگ آج کل کے تعلیم یافتہ نوجوانوں سے نا خواندہ اور نیم خواندہ ہونے کے باوجود کتنے بہتر تھے۔ وہ باتیں کیے جا رہا تھا اور ہر دو منٹ کے بعد یہ بھی کہہ رہا تھا کہ صاحب آپ تو پڑھے لکھے معلوم ہوتے ہیں، آپ تو مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ اس انداز میں بات شروع کر دیتا تھا کہ خیر جانتا تو میں ہی بہتر ہوں۔ بیسں منٹ کے سفر میں اس نے مذہب، پاکستان، سیاست، دنیا کی بے ثباتی اور انسانی رشتوں کی مخدوش صورت حال پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور نہ صرف یہ بلکہ اپنی ہر بات پر ہم سے مہر تصدیق بھی ثبت کرائی اور جب ہم منزل مقصود پر اُترنے لگے تو اس نے اس انداز میں ’’شکریہ‘‘ کہا کہ اگر ہماری جگہ منٹو، بیدی یا غلام عباس ہوتے تو ایک معرکہ آرا افسانہ ضرور وجود میں آتا جس کا عنوان شاید ’’شکریہ‘‘ ہوتا۔
ظاہر ہے کہ یہ ایسی باتیں نہیں جن کا تجربہ اور مشاہدہ عام نہ ہو، ہر شخص کے ساتھ ایسے 10 واقعات روز پیش آتے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ’’عام آدمی‘‘ کا مسئلہ کتنی وسعت اور شدت اختیار کر چکا ہے، اس مسئلے سے کوئی طبقہ محفوظ نہیں لیکن تعلیم یافتہ طبقہ اس حوالے سے خصوصی تذکرے کا مستحق ہے۔
ایک نیم خواندہ معاشرہ میں بی اے اور ایم اے کر لینے والے کی اہمیت بالکل عیاں ہے۔ لیکن کیا فی زمانہ بی اے اور ایم اے کا مفہوم کا یہی ہے کہ ایک شخص نے ایک ایسی ڈگری حاصل کر لی جس سے معاشرے کی اکثریت محروم ہے؟ دیکھا جائے تو ایسا نہیں ہے بلکہ ان کی ڈگریوں کا مفہوم کچھ اس طرح کا ہے کہ جیسے ان اسناد کے حامل زندگی کے کم و بیش تمام حقائق کے شاہد ہو گئے ہیں۔ اگر کوئی شخص سند یافتہ بھی ہو اور دو چار اخبارات بھی دیکھ لیتا ہو، ٹائم اور نیوز و یک بھی اس کی نظر سے گزر جاتے ہوں تو پھر اس کی ’’علمیت‘‘ تو گویا مسلمہ چیز ہو جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا فرد ہے جو عام طور پر سند یافتہ بھی ہوتا ہے، اخبارات و رسائل بھی اس کی نظر میں ہوتے ہیں، کتابوں سے بھی اس کو کچھ نہ کچھ شغف ہوتا ہے اور ضرورت پڑے تو کسی نہ کسی موضوع پر اکثر کچھ نہ کچھ لکھ بھی لیتا ہے اور یہ لکھا ہوا کہیں نہ کہیں شائع بھی ہو جاتا ہے۔ اس دائرے کے کئی اور ’’مرتبے‘‘ ہیں لیکن ان کے ذکر سے بات طویل ہو جائے گی۔ بہر حال پڑھے لکھے فرد کا ’’مرتبہ‘‘ یہ ہے کہ زندگی کے تمام اور کائنات کے اکثر حقائق اس کے آگے پانی بھرتے ہیں، وہ کم وبیش ہر اہم بات جانتا ہے اور اگر نہیں جانتا تو جاننے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔
یہ انسان کا ایک ازلی و ابدی مسئلہ ہے کہ اگر کوئی بات اس کی سمجھ میں نہ آئے تو اس سے اُلجھن ہوتی ہے۔ یہ ایک فطری رد عمل ہے۔ ہم آہنگی کا حصول انسان کی فطرت کے عمیق ترین تقاضوں میں سے ایک ہے اور اس تقاضے کی تکمیل کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ سے انسان کو پریشانی اور اُلجھن ہوتی ہے۔ تفہیم کا معاملہ ہر طرح پر ہم آہنگی کے مسئلے سے منسلک ہے اور عدم تفہیم کا مفہوم آہنگی سے کسی نہ کسی حد تک دور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان ہر بات کو جاننا اور اس کا فہم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہم نے تعلیم یافتہ افراد کی جن اقسام کا ذکر کیا ہے ان سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ کسی بات کی عدم تفہیم سے اُلجھن اور پریشانی کم اور ایک طرح کی بے توقیری اور توہین زیادہ محسوس کرتے ہیں، ان کے رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں خاص آدمی کی سطح سے عام آدمی کی سطح پر گھسیٹا جا رہا ہے اور وہ ہرگز اس کے مستحق نہیں ہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ یقینا زیادتی ہو رہی ہے۔ ان کا یہ احساس غلط نہیں ہوتا، ان کے ساتھ واقعتا زیادتی ہورہی ہوتی ہے لیکن زیادتی کرنے والا کوئی اور نہیں وہ خود ہوتے ہیں۔
خیر یہاں کہنے کی اصل بات یہ ہے کہ ’’سند یافتہ‘‘ ’’تعلیم یافتہ‘‘ اور ’’پڑھے لکھے‘‘ افراد کی جانب سے ’’عدم تفہیم‘‘ کے مسئلے کے حوالے سے کئی طرح کے رد عمل سامنے آتے ہیں۔ رد عمل کی ایک قسم وہ ہے کہ جس کے تحت وہ بات کہنے والے کی اہمیت، صلاحیت اور نیت پر شک کرتے ہیں۔ رد عمل کی ایک شکل یہ ہے کہ بات اور بات کرنے والا دونوں شک اور استراد کے مستحق ٹھیرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ شک اور استراد ابتدائی مرحلے میں ایک فطری رد عمل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ہر بات نہ فوراً سمجھ میں آتی ہے اور نہ آنی چاہیے۔ لیکن شک اور استراد اگر حتمی بن جائیں اور ابتدائی مرحلے میں حتمی قرار پا جائیں تو انہیں ایک غیر فطری رد عمل ہی قرار دیا جائے گا۔ یہ امر دلچسپ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد حقائق اور حقائق کا اظہار کرنے والوں پر تو شک کر لیتے ہیں لیکن وہ اپنے فہم پر شک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا فہم ایک طے شدہ اور ثابت شدہ چیز ہے اور اس پر شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ بظاہر یہ صورت حال ہمارے معاشرے سے متعلق ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ یہ ایک عالمگیر مسئلہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہارورڈ اور کیمبرج سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے مسائل اس حوالے اور بھی زیادہ شدید ہیں۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں پہلی وجہ یہ ہے کہ مغربی دنیا میں یہ بات ایک عقیدے کی حیثیت رکھتی ہے کہ انسان جتنا فہیم آج ہے پہلے کبھی نہیں تھا۔ مغرب کے سائنسی کمالات نے اس عقیدے کو پختہ تر کیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ مغرب میں عقل کو Master Key کی حیثیت حاصل ہوئے زمانہ گزر چکا ہے۔ گو مغرب کے لیے عقل ایک ایسی چابی ہے جو نہ صرف ہر تالے میں ڈالی جا سکتی ہے بلکہ اس سے ہر تالا کھولا جا سکتا ہے ظاہر ہے کہ جن معاشروں میں یہ تصورات عقائد کا درجہ حاصل کر چکے ہوں وہاں لوگوں کے لیے یہ تصور محال ہی ہوگا کہ کوئی بات، کوئی حقیقت ایسی ہو سکتی جو تعلیم یافتہ شخص کے فہم سے باہر ہو۔
ایک زمانہ تھا کہ مغرب میں مذہب از کار رفتہ قرار پا گیا تھا اور وہاں یہ تصور مشکل ہو گیا تھا کہ کوئی معقول شخص مذہب سے رجوع کرے گا۔ اس صورت حال کی بہت سی وجوہات تھیں، ان میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اہل مغرب اپنی Learning، اپنے علم، اپنے فہم اور اپنے تناظر پر شک کے لیے آمادہ ہی نہیں تھے۔ لیکن اب مغرب میں مذہب کی جانب رغبت ہوئی ہے، لوگ بڑی تعداد میں نہ سہی اچھی خاصی تعداد میں مسلمان ہو رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل مغرب مختلف اسباب کی وجہ سے اپنی Learning اور اپنے آلات ذہنی پر شک کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں اور وہ اپنے آپ کو اپنی Learning کے ’’خوبصورت بوجھ‘‘ سے نجات دلا کر ایک عام فرد محسوس کرنے کی پوزیشن میں آگئے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ ایک طالب علم کی پوزیشن ہے۔ حقیقی طالب علم کی پوزیشن اور حقیقی طالب علم وسیع معنوں میں ایک عام آدمی ہوتا ہے۔ ایسا آدمی جو بچوں کی سی حیرت اور انہماک کا حامل ہوتا ہے۔ کیا اس حیرت اور انہماک کے بغیر کوئی نئی چیز جانی جاسکتی ہے؟ شاید عوامی عہد میں یہ سوال لا یعنی سمجھا جائے۔