دائرے کا سفر

302

ہم گزشتہ طویل عرصے سے دائرے کا جو سفر اختیار کیے ہوئے ہیں وہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ حالات پر جو جمود طاری ہے اور ٹھیرائو کی جو کیفیت ہمارے چہار سو اپنا احاطہ کیے ہوئے ہے اس میں بھی کسی خاص تبدیلی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے، دنیا خلا کو تسخیر کررہی ہے اور ہم چھوٹے چھوٹے اور معمولی معاملات اور مسائل کو بھی سلجھانے میں کامیاب نہیں ہوپائے ہیں۔ وطن عزیز کا پڑوسی ملک اور ہمارا دیرینہ روایتی حریف بھارت دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ جبکہ ہم آئی ایم ایف کے سامنے ادھار لینے کے لیے ہاتھ پھیلائے سر کو جھکائے کھڑے رہنے میں ہی اپنی خیریت اور عافیت سمجھتے ہیں۔ بقول مولانا الطاف حسین حالی

یارانِ تیز گام نے محمل کو جالیا
ہم محو نالۂ جرس کارواں رہے

ہم ہر سال بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے نام پر مستحق خواتین میں 345 ارب روپے کی جو امداد تقسیم کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اسی رقم سے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائے جائیں تو ہمارے ہاں بھی بنگلادیش کی طرح کا صنعتی اور معاشی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ، جو حکمران اور عوام کرنے کے لیے قطعی تیار دکھائی نہیں دیتے۔ صاف لگتا ہے کہ آئی ایم ایف بھی ہمیں معاشی میدان میں خود انحصاری کا حامل اور خود کفیل دیکھنا نہیں چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سے مذاکرات کرنے والے وفد کی خاتون سربراہ نے پاکستان سے برملا یہ مطالبہ کر ڈالا ہے کہ وہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جانے والی سالانہ رقم میں مزید اضافہ کرے۔ گویا ہم آئی ایم ایف کی دریوزہ گری کرکے پیسے ادھار لیتے رہیں اور پھر اپنے ملک کی خواتین کو خود انحصاری کے راستے پر گامزن کرنے کے بجائے انہیں امداد وصول کرنے کے نام پر بھکاری بناتے رہیں۔ دائرے کا یہ سفر ہمیشہ اسی طرح سے جاری و ساری رہے، جو کبھی نہ رُکے، کبھی نہ تھمے، مذکورہ امدادی پروگرام کے نام پر سندھ بھر میں جس طرح سے امداد کے لیے مختص کردہ مراکز پر بے چاری خواتین کی جو تذلیل اور تحقیر کی جاتی ہے اس کی تفصیلات سے سندھی اخبارات بھرے پڑے ہیں۔ پرنٹ اور سوشل میڈیا پر بھی اسی کا چرچا لگا رہتا ہے، لیکن مجال ہے کہ کبھی بھولے سے بھی متعلقہ حکومتی ذمے داران کا ضمیر بیدار ہوا ہو۔

ابھی یہ توہین آمیز سلسلہ جاری ہی تھا کہ حکومت سندھ نے عیدالفطر کے موقع پر مستحق مرد اور خواتین کے لیے فی کس 5 ہزار روپے دینے کا جو اعلان کیا ہے اس کی وجہ سے مذکورہ اسکیم کے لیے مختص کردہ مراکز پر ہر عمر کے مرد و زن جن میں معذور اور بیمار بھی شامل ہیں کا ایک جم غفیر دکھائی دیتا ہے، جو بغیر کسی نظم اور ترتیب کے ایک دوسرے پر گرا پڑتا ہے۔ جس کی وجہ سے سر پھٹول کا ہونا معمول بن چکا ہے۔ سندھ بھر کے ایسے مراکز سے لوگوں میں باہمی جھگڑے اور ایک دوسرے کے خلاف لاٹھیاں تک چلانے کی المناک خبریں اس امر پر مہر تصدیق ثبت کرتی دکھائی دیتی ہیں کہ ہمارا حکمران طبقہ کس قدر ظالم، سفاک اور بے رحم ہے جو محض 5 ہزار روپے کی معمولی رقم کی خاطر عوام کو آپس میں دست و گریباں کروانے میں لگا ہوا ہے۔ بے مہر حکمران چاہتے تو بڑے مہذبانہ اور شریفانہ طریقے سے عیدالفطر کی خوشی میں دی جانے 5 ہزار روپے کی رقم مستحق مرد و زن کو ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کرکے انہیں ان کے گھروں پر بھی دینے کا اہتمام کرسکتے تھے۔ دوسری جانب سندھ بینک کے زیر اہتمام متاثرین بارش و سیلاب کو بھی زرعی امداد کی مد میں جو رقم دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، اس میں بھی بدترین بدنظمی اور افراتفری کے افسوسناک مظاہر دیکھنے میں آرہے ہیں۔ امداد وصول کرنے والے افراد اور سندھ بینک کے عملے کا کہنا ہے کہ اگر ہر ضلع میں سندھ بینک کے ساتھ ساتھ دیگر بینکس کو بھی یہ ذمے داری تفویض کی جاتی تو مذکورہ سارا عمل بحسن و خوبی پایہ تکمیل کو پہنچ سکتا تھا۔ راقم کو خود مقامی سندھ بینک کے منیجر نے بڑے درد بھرے انداز میں یہ بتایا کہ کام کے حد درجہ دبائو کی وجہ سے وہ بیمار پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے وہ روزے بھی نہیں رکھ پارہا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ مبادا میرا نروس بریک ڈائون ہوجائے۔ (خدانخواستہ)

امن وامان کے حوالے سے بھی ہمارا دائرے کا سفر بدستور بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے اور صورت حال میں معمولی سی بہتری بھی ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اب تو بار بار اس موضوع پر لکھتے ہوئے احساس شرمندگی دامن گیر ہوجاتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ اس فکر کے بغیر بھی سندھ کا سماجی، سیاسی اور معاشرتی منظرنامہ ادھورا ہی رہ جائے گا۔ تقریباً 17 برس قبل ضلع جیکب آباد ٹھل کے علاقے گڑھی سرکی سے 10 برس کی ایک بچی فضیلہ سرکی اغوا ہوگئی تھی جس کا الزام بدنام زمانہ ڈاکو بڈھو سرکی پر عائد کیا گیا تھا۔ یہ علاقہ ہمیشہ ہر دور میں پی پی پی سے تعلق رکھنے والے وزیر یا پھر ایم پی اے رہنے والے ڈاکٹر سہراب سرکی کا ہے، تاہم بے حد المناک بات یہ ہے کہ مذکورہ بچی جو اب تک بازیاب نہیں کروائی جاسکی ہے اس کی یاد اور جدائی کے صدمے میں اس کے ضعیف العمر والدین ایک طرح سے پاگل ہوچکے ہیں اور مسلسل مقامی پریس کلب سمیت سندھ کے مختلف پریس کلبوں کے سامنے والد عبدالرزاق اور والدہ سکینہ سرکی بھوک ہڑتال اور احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ مغویہ لڑکی کے والد کے مطابق اس کی بیٹی کے اغوا میں علاقے کے بااثر بھوتار اور سردار ملوث ہیں انہیں سید مراد علی شاہ وزیراعلیٰ سندھ اور آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ سمیت سبھی نے یقین دہانی کروانے کے باوجود بچی کو بازیاب کروانے کا

وعدہ پورا نہیں کیا۔ اسی طرح سے 8 ماہ قبل جیکب آباد سے اغوا شدہ 8 سالہ بچہ نوید لاشاری اور سنگرار روہڑی سے 10 محرم کے دن اغوا کی جانے والی 10 برس کی بچی پریا کماری کو اغوا ہوئے بھی 31 ماہ گزر چکے ہیں جس کے والدین بھی بچی کے غم میں نڈھال اور بیمار ہوچکے ہیں۔ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ بھی بچی کی فوری بازیابی کا حکم دے چکے ہیں جس پر بھی عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ بروز پیر 25 مارچ سندھ بھر میں بڑے پیمانے پر اس حوالے سے زبردست احتجاج کیا گیا ہے۔ تین دن قبل شکارپور سے اغوا کردہ 80 سالہ مہربان علی بچے کی رہائی کے بدلے ڈاکوئوں نے 50 لاکھ روپے تاوان طلب کیا ہے۔ سندھ اساتذہ کے لیے بھی مقتل بن چکا ہے، گزشتہ چند دن میں استاد ہدایت لوہار لاڑکانہ، اللہ رکھیو نندوانی کرم پور اور ذوالفقار جکھرانی کندھ کوٹ میں قتل کیے جاچکے ہیں اور حکمران بے بس دکھائی دیتے ہیں۔