یہ دھواں سا کہاں سے اْٹھتا ہے؟ (آخری قسط)

348

جسٹس صاحب کا یہ ارشادِ گرامی ہے کہ ملک کے 200 افسران غیر قانونی احکامات کی تکمیل سے انکار کردیں تو ملک کی معاشی اور سیاسی صورتحال خوشگوار حد تک درست ہوسکتی ہے۔ کسی کنکھجورے کی طرح ہماری سماعت سے چمٹ گیا ہے کاش وہ ارشاد فرمانے کے بجائے حکم صادر کرتے تو صورتحال یقینا خوش آئند ہوسکتی تھی۔

فوج کا کام ملک و قوم کو بیرونی خطرات ہے تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اور عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کو اندرونی خطرات سے محفوظ رکھے جسٹس صاحب کے تجزیے کے مطابق 25 کروڑ افرا د کو 200 بااختیار افسران نے یر غمال بنا رکھا ہے چونکہ یہ ایک اندورنی خطرہ ہے اور اندرونی خطرات سے محفوظ رکھنا عدلیہ کی ذمہ دار ی ہے۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ان 200 بااختیار افراد میں کتنے افسران کا تعلق عدلیہ سے ہے؟

بہت عرصہ پہلے پاکستان کا ایک وفد ملائیشیا گیا تھا جس کی ذمہ داری تھی کہ وہاں کی عدالتی نظام کا بطور جائزہ لے۔ غالباً ایک ماہ بعد وفد واپس آیا تو اْس نے جو رپورٹ پیش کی وہ انتہائی حیران کْن تھی۔ رپورٹ کے مطابق وہاں کی ہر عدالت کے دروازے پر مقدمے کی سماعت کی تاریخ درج ہوتی ہے دیوانی مقدمات کا فیصلہ چھے ماہ میں نہ ہو تو متعلقہ جج سے اس تاخیر کا جواب طلب کیا جاتا ہے اور مقدمے کے مختلف پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد فیصلہ سْنا دیا جاتا ہے۔ جب کہ وطنِ عزیز میں فیصلہ سْنانے کی کوئی مدت مقرر نہیں بلکہ فیصلہ جج اور وکلا کے مْوڈ کے مطابق ہوتا ہے وہ سماعت کریں یا پیشی پیشی کا ابلیسی کھیل کھیلیں۔

لطیفہ سْن کر ہنسنا ایک فطری عمل ہے مگر وطنِ عزیز کی عدالتوں میں ایسے لطیفہ نْما واقعات پیش آتے ہیں جنہیں سْن کر ہنسی نہیں بلکہ رونا آتا ہے۔ قتل کے ایک ملزم کی پیشی تھی سماعت کے دوران انکشاف ہوا کہ ملزم کو دو سال قبل پھانسی دے دی گئی ہے۔

ملائیشیا کے ایک سبزی فروش کو منشیات فروشی کے الزام میں سزائے موت سْنائی گئی غلطی سے فائل محافظ خانے میں جمع ہوگئی 8 سال کے بعد اْس کے وکیل نے مقدمہ اوپن کرایا اور مطالبہ کیا کہ اس کے کلائنٹ کو بَری کیا جائے کیونکہ وہ 8 سال کی قید بھْگت چکا ہے جو کہ عمر قید کی مدت ہے عدالت نے مقدمے کا جائزہ لیا اور سزائے موت کو عمر قید میں بدل کر ملزم کو آزادی کا پروانہ دے دیا۔

جسٹس صاحب کو قانون شکنی کے مرتکب 200 افسران تو دکھائی دے رہے ہیں مگر جج صاحبان کی قانون شکنی دکھائی نہیں دیتی غور کیا جائے تو احساس ہوگا کہ بغیر ثبوت کے کسی نام نہاد مقدمے کی سماعت قانون شکنی کی بد ترین صورت ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ان مقدمات کی اپیلوں کی سماعت بھی کی جاتی ہے۔

عدم ثبوت کی بنیاد پر خالی ہونے والے مقدمات کی اپیل سیشن کورٹ اور ہائی کورٹ سے ہوتے ہوئے عدالت عظمیٰ تک جا پہنچتی ہے اور یہ پہنچ رسائی کے سوا ممکن نہیں غور طلب بات یہ ہے کہ اس رسائی کا سدِ باب کیوں نہیں کیا جاتا اس غفلت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مقدمہ نسل در نسل چلتا رہتا ہے۔ دادا کے مقدمے کی پیشیاں بھگتتے بھگتتے پوتا بھی داد ابن جاتا ہے۔