دُنیا اور اس کی مزاحمت

502

مرزا یاس یگانہ چنگیزی نے کہ موذیوں کے موزی تھے اور اس لیے انہیں خوف نیشن عقرب نہیں تھا کیا خواب کہا ہے؎
بلند ہو تو کھلے تجھ پہ زور پستی کا
بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا
پستی کا زور یا دُنیا کی کشش مذاق نہیں۔ دُنیا کی مذمت تو سبھی کرتے ہیں مولوی بھی، ملا بھی، عالم بھی، فاضل بھی اور وہ بھی جنہیں آج کل دانشور کہا جاتا ہے مگر اس مذمت میں ایک دُکھ، ایک ملال اور عام طور پر ایک ایسا طنز اور غصہ ہوتا ہے جس سے دلوں کا چور صاف پکڑا جاتا ہے۔
بے شک دنیا میں دنیا کی فراوانی ہے لیکن اس کے باوجود دنیا ہر ایک کے ہاتھ نہیں آجاتی، چنانچہ انگور کھٹے ہیں ایک معروف کہانی بن کر رہ گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر انگور کھٹے ہیں تو پھر دنیا کی مذمت میں دکھ کا عنصر بھی آئے گا، ملال کا عکس بھی جھلملائے گا اور طنز اور غصے کی کاٹ بھی ظاہر ہوگی۔ دلوں کے چور کا ایک مفہوم تو یہ ہے۔
اس بات کا ایک مفہوم یہ ہے کہ جن لوگوں کو کسی نہ کسی درجے میں دنیا حاصل ہوجاتی ہے اور وہ اسی کے ہو کر رہ جاتے ہیں اور دنیا سے بلند ہونے کی کوئی خواہش ہی ان میں پیدا نہیں ہوپاتی۔ چنانچہ ایسے لوگوں کے بارے میں یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کی کشش کے اسیر ہوگئے اور ان پر دنیا کی کوشش کے راز آشکار ہوگئے اور اس کشش نے ان پر غلبہ پالیا۔ یہ ساری باتیں عام طور پر درست ہوتی ہیں مگر سطحی معنوں میں اور جزوی طور پر، اس لیے کہ دنیا کی کشش کے راز اور اس کی کشش کی اصل قوت دنیا میں غرق ہوجانے والوں پر کبھی آشکار نہیں ہوتی۔ یہ حقائق تو ان ہی پر کھلتے ہیں جو دنیا کے ہو کر پھر اس سے اوپر اٹھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جہاں بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، یہی وہ منزل ہے جہاں زندگی کے بڑے بڑے بھید کھلنے کا امکان پیدا ہوتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی فطرت کے روبرو ہوتا ہے۔
دنیا میں بلاشبہ بڑی کشش ہے لیکن یہ کشش بعض لوگوں کے لیے ایک خوف بھی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ مارے خوف کے دنیا کی طرف پیٹھ کرکے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی کوئی آسان بات نہیں، لیکن اس عمل کی ایک ہولناکی یہ ہے کہ ایسا کرنے والے ساری زندگی اس احساس عظمت سے جان نہیں چھڑا پاتے کہ وہ عرصے سے دنیا کی جانب پیٹھ کیے کھڑے ہیں۔ اس عمل کی اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہوتی ہے کہ اکثر لوگ دوسروں کو بھی بتاتے رہتے ہیں کہ دیکھیے ہم تو دنیا کی طرف پیٹھ کیے کھڑے ہیں اور یہ کہ دنیا کی اوقات ہی کیا ہے؟ وہ دنیا کی اتنی مذمت کرتے ہیں کہ انہیں اس کے سوا کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔
اس صورت حال سے ایک بڑا المیہ جنم لیتا ہے، اس المیے کا لب لباب یہ ہے کہ کچھ لوگ دنیا کو چھوڑ کر بھی دنیا ہی میں پھنسے رہتے ہیں۔ ان میں اور ’’دنیا داروں‘‘ میں فرق ہے تو صرف اتنا کہ دنیا دار دنیا کی رنگینیوں میں الجھ کر مارا جاتا ہے اور دنیا کی مسلسل مذمت کرنے والا مذمت کی سنگینیوں کا شکار ہوجاتا ہے، ہمارے ایک دوست نے ہم سے ایک دن کہا کہ میں نے تو دنیا کو ترک کردیا ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ اس سے بڑی بات اور کیا ہوسکتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’’ترک‘‘ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان کے پاس ’’ترک‘‘ کرنے کے لیے کچھ ہو۔
دنیا ترک کرنے کا دعویٰ ایک بہت بڑا دعویٰ ہے اور اس دعوے کی سچائی کو پرکھنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ یہ دیکھ لیا جائے کہ جس نے دنیا ’’ترک‘‘ کی ہے اس نے دنیا ترک کرکے ’’اختیار‘‘ کیا کیا ہے؟ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ دنیا ترک کرنے کے دعویدار دنیا ترک کرنے کے بعد کچھ بھی اختیار نہیں کرتے، کچھ لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ دنیا کو ترک کرکے دنیا ہی کی طرف بھاگتے ہیں فرق یہ ہے کہ وہ جس چیز کی طرف بھاگتے ہیں اسے دنیا نہیں سمجھتے۔ لیکن کسی کے دنیا کو دنیا نہ سمجھنے سے حقیقت بدل نہیں جاتی۔ دنیا کوئی معمولی چیز نہیں، چنانچہ انسانی وجود سے جب دنیا کا ’’انخلا‘‘ عمل میں آتا ہے تو ایک بہت بڑا خلا پیدا ہوتا ہے جسے دنیا سے بڑی حقیقت کے ذریعے ہی پر کیا جاسکتا ہے اور یہ حقیقت دین کے سوا کچھ نہیں ہوسکتی۔ بعض لوگوں کو یہاں یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے کہ ہم دین اور دنیا کی دوئی کی بات کررہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ یہ گفتگو کسی اور ہی تناظر میں ہے۔
بانوقدسیہ نے اپنے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ میں ایک بڑے مزے کی بات لکھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو عورت پورا پردہ کرتی ہے وہ چادر اوڑھنے والی کو آزاد خیال سمجھتی ہے اور جو چادر اوڑھتی ہے اس کا خیال ہوتا ہے کہ میں تو خیر ٹھیک ہی ہوں راہ سے بھٹکی ہوئی تو وہ ہے جو دوپٹا گلے میں ڈالے گھومتی ہے اور جو گلے میں دوپٹا ڈالتی ہے اس کا خیال ہوتا ہے کہ مجھ میں تو پھر بھی شرم و حیا ہے بے حیا تو وہ ہے جو جینز پتلون پہنتی ہے اور مردوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹھٹھے لگاتی ہے۔ دنیا کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ دنیا کے مختلف شعبوں اور دائروں سے وابستہ لوگ ایک دوسرے کو زیادہ دنیا پرست سمجھتے ہیں لیکن عام طور پر یہ سب کے سب ہی ’’زیادہ‘‘ دنیا پرست ہوتے ہیں۔ ان میں فرق ہوتا ہے تو صرف یہ کہ کسی کو دنیا دولت کے حوالے سے عزیز ہوتی ہے، کسی کو اقتدار کے حوالے سے دلکشی لگتی ہے اور کسی کو شہرت اور ایسی ہی دوسری چیزوں کے حوالے سے قابل پرستش محسوس ہوتی ہے۔
دنیا کی مزاحمت کسی دور میں بھی آسان نہیں رہی لیکن فی زمانہ اس حوالے سے جتنی المناک صورت حال دیکھنے میں آرہی ہے اس کی نظیر تاریخ میں مشکل ہی سے تلاش کی جاسکتی ہے۔ انسان دنیا سے بڑی حقیقت ہے اس لیے اسے دنیا پر غالب آنا چاہیے، لیکن اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم انسانی وقار کی لاج رکھنے کے لیے دنیا کی تھوڑی بہت مزاحمت تو کرنی چاہیے۔ کہنے کو تو بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے دنیا کی مزاحمت کی ہے۔ انہوں نے دنیا سے جنگ لڑی ہے لیکن ان سے پوچھیے کہ صاحبان یہ جنگ کب اور کہاں لڑی گئی ہے اور اس جنگ کے آثار کہاں ہیں تو اس کا کوئی شافی جواب نہیں ملتا۔ انسان کے گھر میں دو ڈاکو بھی گھس آتے ہیں اور ان کی مزاحمت کی جاتی ہے تو گھر کا یا کم از کم ایک آدھ کمرے کا نقشہ بدل کر رہ جاتا ہے۔ کچھ چیزیں ٹوٹ جاتی ہیں، کچھ الٹ جاتی ہیں۔ یہ حقیقی مزاحمت کا ناگزیر نتیجہ ہوتا ہے، جو لوگ دنیا کی مزاحمت کے دعویدار ہوتے ہیں ان کی زندگی میں بھی کچھ ایسے آثار تو ملنے ہی چاہئیں جنہیں دیکھ کر کہا جائے کہ ہاں صاحب مقابلہ تو ہوا ہے۔ لیکن یہ جعلی پولیس مقابلوں کا زمانہ ہے، پولیس ملزموں کو کسی سنسان ویران علاقے میں لے جاتی ہے انہیں کھڑا کرتی ہے اور گولی مار کر اعلان کردیتی ہے کہ زبردست مقابلے میں اتنے ڈاکو یا دہشت گرد مارے گئے۔ لیکن پولیس سے پوچھیے کہ بھئی مقابلہ ہوا ہے تو کچھ نہ کچھ پولیس کو بھی نقصان پہنچا ہوگا ذرا اس کی نشاندہی کردیجیے۔ اس سوال کا جواب یا تو خاموشی ہوتا ہے یا یہ کہ مقابلہ بہرحال ہوا ہے، کچھ ایسی ہی صورت حال دنیا سے مقابلے کے حوالے سے پیش آرہی ہے اور تو اور نوجوان تک دنیا کی مزاحمت پر آمادہ نہیں اور اگر وہ کہیں مزاحمت کرتے نظر بھی آتے ہیں تو ایک دنیا سے لڑ کر دوسری دنیا کی جانب فرار ہوجاتے ہیں۔