پُرامن معاشرہ

291

آج دنیا میں ہر جگہ امن وامان ایک سنگین مسئلہ ہے۔ ترقی پسند اور ترقی یافتہ ممالک سب ہی اس سے دوچار ہیں۔ قتل، لوٹ مار، چور بازاری، بدکاری، دھوکہ، فریب، حق تلفی، سود خوری اور رشوت خوری نے ہر شخص کا چین و سکون غارت کررکھا ہے۔ عدالتیں مقدموں سے اور جیلیں قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ انصاف کے متلاشی لوگ عدالتوں کے چکر لگارہے ہیں یا انصاف کے انتظار میں اس دنیا سے کوچ کررہے ہیں۔

جرائم پر کنٹرول کے بہت سے فارمولے آزمائے جاچکے ہیں اور آزمائے جارہے ہیں، لیکن کوئی مستقل حل آج تک میسر نہیں ہوا ہے اور جرائم روز بروز بڑھتے ہی جارہے ہیں۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو ہمیں سب سے مثالی رسول اللہؐ کا دور ملتا ہے۔ اللہ کے رسولؐ عرب میں تشریف لائے تو معاشرہ بدامنی کا شکار تھا۔ قتل وغارت گری، لوٹ مار، ظلم و زیادتی، سود خوری، زنا، رشوت اور جوا جیسے جرائم عام تھے۔ نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ مال و اسباب۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ 23 سال کے مختصر عرصے میں یہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا اور ساری سماجی برائیوں کا جڑ سے خاتمہ ہوگیا۔ اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ نے قرآن میں ایمان والوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے ’’ تم خیر امت ہو اور تمہیں برائیوں کو مٹانے اور اچھائی کو پھیلانے کی ذمے داری دی گئی ہے‘‘۔ لہٰذا ہر شخص کی ذمے داری ہے کہ سماجی برائیوں کے دور میں خاموش تماشائی نہ بنا رہے، برائی کو مٹانے اور اچھائی کو فروغ دینے کی ذمے داری ادا کرے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ’’تم میں ایک گروہ ضرور ایسا ہونا چاہیے جو اچھائی کو فروغ دے اور برائی کو روکے‘‘۔

اس پُرآشوب دور میں جہاں فتنہ پردازی، افراتفری، سماجی برائیاں اور دیگر وبائیں عام ہیں، ان کا شکار اچھے اور برے سب لوگ ہوتے ہیں۔ ایسے حالات میں بحیثیت مہذب انسان ہماری کیا ذمے داری ہے؟ اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، تاکہ برائیوں کے خلاف ہم آوا ز اٹھاسکیں اور ان کے خاتمے کی کوشش میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ اس ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے ہمیں سمجھنا ہوگا کہ اللہ کے رسول ؐ نے سود خوری، شراب نوشی، جسم فروشی، قتل و غارت، لوٹ مار جیسے سنگین مسائل کو کیسے کنٹرول کیا اور ان برائیوں کو روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے احکامات کو کیسے نافذ کیا۔ اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ جس نے ہمیں پیدا کیا وہ ہمارے ماضی، حال اور مستقبل سے بخوبی واقف ہے اور وہ جانتا ہے کہ کون سا عمل ہمارے لیے برا ہے اور کون سا اچھا۔ اللہ اور اس کے رسول ؐ نے جن کاموں سے منع کیا ان سے ہم دور رہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں شراب اور جوئے کو گناہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ اس میں فائدہ سے زیادہ نقصان ہے۔ یہ بات اللہ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا، کیوں کہ وہی اس عالم کے رازوں سے واقف ہے، اسی نے ہر شئے کو تخلیق کیا ہے، لہٰذا ہم اللہ کے احکامات پر عمل پیرا ہوں۔ برائیوں پر کنٹرول کا سب سے بڑا حل یہ ہے کہ انسانی سوچ بدلی جائے، اس لیے کہ دماغ برائیوں کی جڑ ہے۔ دماغ کو نفس کی غلامی سے روکا جائے ورنہ نفس تو برائی کی طرف راغب ہوتا ہے اور اسی نفس پر کنٹرول انسان کی آزمائش ہے۔ اس کے بعد کامیابی، اجر اور انعامات پر ایمان ہی انسان کو بھلائی کی رغبت دلاسکتا ہے اور برائی سے روک سکتا ہے۔

سوچ کی اصلاح اور پاکیزگی کے لیے اللہ کے رسول ؐ نے لوگوں کو ایک اللہ پر ایمان، اس کی صفات اور طاقت کے اعتقاد کی دعوت دی، ان کے دلوں میں اللہ کا کی صفات پر یقین پیدا کیا کہ اللہ حاضر و ناظر ہے۔ ہمارے ہرعمل کو دیکھ رہا ہے اور اسی کو ہم جواب دہ ہیں۔ لوگوں کو مقصد زندگی سمجھائی اور قرآن کی آیات کی تعلیم دی جو اس زندگی کے بعد قیامت کے اس دن کی پیش گوئی کرتی ہیں، جس دن انسان اپنے ہر عمل کے لیے جواب دہ ہوگا۔ ہر شخص کے اعمال کا حساب وکتاب ہوگا اور اس کے بعد اچھے اعمال پر جزا اور برے اعمال پر سزا دی جائے گی۔ اچھے لوگ جنت کے حقدار ہوں گے اور برے لوگ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ وہاں صحیح صحیح حساب ہوگا، فرار کا کوئی راستہ نہ ہوگا، مکمل انصاف کیا جائے گا۔ روز حساب پر یقین ایمان کا ایک ایسا عنصر ہے جو انسان کو اچھے اعمال کی ترغیب اور برے اعمال کا خوف اس کی ذات کے اندرون میں پیدا کرتا ہے۔ یہی سوچ کا انقلاب ہے اور جو افراد سے شروع ہوتا ہے اور سماج کی اصلاح تک پہنچ سکتا ہے۔

اللہ کے رسول ؐ نے برائیوں سے بچنے کا حل بتایا اور قرآنی احکامات کو عام کیا جو ایک نیک اور پاک صاف معاشرے کی تشکیل کے لیے بنیادی درجہ رکھتے ہیں۔ جیسے کہ آپؐ نے نکاح کی تلقین کی اور نوجوانوں کو نکاح کی ترغیب دی اور ایسی مثالیں قائم کیں، جن میں مہر لڑکے کی حیثیت کے مطابق طے کیا اور جو اس کی استطاعت نہ رکھتے ہوں ان کو روزہ رکھ کر شہوت پر قابو کرنے کا حل پیش فرمایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ مومن مرد اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، بے لگام ہوکر شہوت رانیاں نہ کرتے پھریں اور عورتوں کو حکم دیا کہ اپنی زینتوں کو چھپائیں اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں رکھیں۔ ان دونوں اقدامات کی ترغیب انسان کو اس کی دینداری اور اللہ کی جواب دہی کا احساس دلاسکتی ہے۔ بھوک مری اور غربت کے حل کے طور پر اللہ کے رسول ؐ نے اللہ کے حکم سے زکوٰۃ، صدقات کو متعارف کرایا اور بیت المال کا سسٹم قائم کیا، جس میں غریبوں، مسکینوں، یتیموں کا مالی تعاون اور دوسری سہولتوں کا انتظام کیا گیا۔ اس طرح لوٹ مار، رہزنی اور چھین جھپٹ پر روک لگی۔ سود کو اللہ نے حرام قرار دیا اور اللہ کے رسول ؐ نے اس حکم کا نفاذ کیا، سماج کو اس لعنت سے نجات دلائی جو امیر کو امیر اور غریب کو غریب بنادتی ہے۔ دوسری سماجی برائیاں جیسے رشوت خوری، منافع خوری اور لوٹ مارکو حرام قرار دیا اور اس کے لیے سزائیں نافذ کیں۔ بہترین منصفانہ نظام قائم کیا تاکہ کوئی اس سے بچ کر نکل نہ سکے۔

حقوق العباد کی اہمیت کو اجاگر کیا اور اعلان کیا کہ اللہ بندے پر بندے کے حق کو معاف نہیں کرے گا، جب تک بندہ خود معاف نہ کرے یا اس کا معاوضہ نہ لے لے۔ انسان پر اہل خانہ، معاشرہ، والدین اور عام انسانوں کے حقوق کی وضاحت فرمائی اور اللہ کے سامنے اس کی جواب دہی کا خوف پیدا کیا اور اس کی سنگینی کو اجاگر کیا کہ حقوق العباد انسان کے سارے اچھے اعمال یوم آخرت ضائع کرسکتے ہیں۔ ان تمام اقدامات کے بعد ان تمام لوگوں کے لیے جن کی فطرت میں جرم ہوتا ہے اور جو برائیوں میں مبتلا رہ کر معاشرے میں بدامنی کا سبب بنے رہنا چاہتے ہیں، ان کے لیے سخت قوانین کا اطلاق اللہ کی مقرر کردہ حدود کے ساتھ نافذکیا گیا۔ تمام تر سہولتوں کے میسر کرانے اور مکمل مالی تعاون کے بعد بھی اگر کوئی چوری کا مرتکب ہو تو اس کے ہاتھ کاٹنے کی سزا اور زانی غیر شادی شدہ مرد و عورت دونوں کو 100 کوڑے اور شادی شدہ کے لیے سنگساری کی سزا مقرر کی گئی۔ تمام سزائیں برسر عام دی جانے کی شرط بھی لاحق کی گئی تاکہ سزا ایک کو ہو اور نصیحت تمام لوگوں کو ہو جو اس کا مشاہدہ کریں یا اس کے بارے میں کسی طرح بھی جانیں۔ ان سزاؤں کے اطلاق میں کسی قسم کی نرمی نہ برتی گئی تاکہ مجرم کو بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہ ملے۔ برائیوں کو روکنے کے لیے اچھے عمل اور عبادت کی ترغیب دی گئی، ان میں سب سے اہم عبادت نماز کو قائم کیا گیا تاکہ نیکی سے برائی کی جڑ کٹے۔ بے شک نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے اور بندے کو اللہ سے جوڑ کر رکھتی ہے۔ برائیوں کو روکنے کے لیے اجتماعی کوشش لازمی ہے۔

معاشرے کی برائی روکنا کسی فرد واحد کی ذمے داری نہیں، یہ کوشش اجتماعی طور پر ہونی چاہیے۔ برائی اور اچھائی برابر نہیں ہوسکتیں۔ کسی کے لیے جائز نہیں کہ برائی سے خوفزدہ ہوکر زندگی گزارے۔ معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے کہ وہ برائی کو روکنے کی کوشش کرے اور اس کے خلاف آواز اٹھائے تاکہ برائی معمولی بات بن کر نہ رہ جائے اور لوگ اس کے عادی نہ ہوجائیں اور برائی برائی نہ رہ جائے، اچھے برے کا فرق ختم نہ ہوجائے، ورنہ معاشرہ پرامن اور پرسکون نہیں رہ سکتا۔ ضمیر کی آواز،اللہ کی جواب دہی کا احساس ذمے داری حقوق العباد اور سرعام سزاؤں سے برائی کو معاشرے سے دور کیا جاسکتا ہے۔ نیز انصاف کے تقاضوں کو بروقت پورا کرکے ہی پُرامن معاشرہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔